سورج اپنی پوری قوت سے چمک رہا تھا۔ آفرین منزل کا ہر فرد اپنی اپنی چیزیں ڈھونڈنے اور پیک کرنے میں مصروف تھا۔ سبھی افراد ایک لمبی سیر کے لئے جانے والے تھے۔ یہ منصوبہ خود آفرین بیگم کا تھا۔
EPAPER
Updated: May 29, 2025, 12:54 PM IST
|
Maryam Bint Mujahid Nadwi
سورج اپنی پوری قوت سے چمک رہا تھا۔ آفرین منزل کا ہر فرد اپنی اپنی چیزیں ڈھونڈنے اور پیک کرنے میں مصروف تھا۔ سبھی افراد ایک لمبی سیر کے لئے جانے والے تھے۔ یہ منصوبہ خود آفرین بیگم کا تھا۔ سورج اپنی پوری قوت سے چمک رہا تھا۔ آفرین منزل کا ہر فرد اپنی اپنی چیزیں ڈھونڈنے اور پیک کرنے میں مصروف تھا۔ سبھی افراد ایک لمبی سیر کے لئے جانے والے تھے۔ یہ منصوبہ خود آفرین بیگم کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک لمبی سیر، روٹین کے کاموں سے ہٹ کر کچھ کرنا اور افراد خاندان کا ساتھ میں کچھ وقت گزارنا، اس سے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ دوپہر ہوتے ہی سبھی افراد ایک گاڑی میں سوار ہوئے اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ یہ بھی پڑھئے:افسانہ : خوابوں کی دہلیز پر کار میں موجود افراد اس ہنگامے کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ ’’ ارے عظمیٰ بہو، جانے دو....‘‘ آفرین بیگم نے فون کان سے ہٹاتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کرنا چاہا۔ ’’ ایسے کیسے جانے دوں۔ پہلے تو یہ ماں بیٹی صبح سے ریل بنانے میں لگے ہیں، اوپر سے کوئی کام بھی نہیں کیا ہے دونوں نے۔‘‘ عظمیٰ کو پرانے حساب یاد آنے لگے، ’’ مجھے عادت نہیں ہے جھانکنے کی مگر کل میری نظر صالحہ کے موبائل پر پڑی، توبہ بھوت دکھ رہی تھی پوری۔‘‘ کنگھا ہاتھ میں لئے عظمیٰ نے کہا۔ ’’میری بیٹی کو بھوت کہنے کی ہمت کیسے ہوئی تمہاری؟ کبھی اپنی شکل دیکھی ہے آئینے میں؟ چڑیل لگتی ہو بالکل۔‘‘ تبھی نوشین بولی۔ ’’ارے آج تو رہنے دو تم دونوں، دفع کرو اس معاملے کو۔‘‘ آفرین بیگم صلح جوئی والے انداز میں سمجھانے لگیں۔ ’’کبھی اپنی شکل دیکھی ہے؟ پورے بن مانس لگتے ہو اور تمہاری تو عادتیں بھی اس جیسی ہی ہیں۔ اور تم....‘‘ نوشین نے کہنا شروع کیا لیکن اچانک کار کے بند ہونے کی وجہ سے اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔ سب عبدالرشید کی طرف دیکھ رہے تھے اور کھڑکی کے باہر بھی۔ کیونکہ ان کی کار ریل کی پٹری کے بیچ میں کھڑی تھی۔ عبد الرشید کا چہرا دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ پسینے کی ایک لکیر اس کے شرٹ میں جذب ہوئی اور آنکھوں کے حلقوں میں بھی پسینہ جمع ہوگیا۔ ’’ارے عبد الرشید بھائی، آپ گاڑی چلاؤ، ان لوگوں کو تو یہاں بھی چین نہیں ہے، ویسے گاڑی بند کیسے....‘‘ حنان کا جملہ ادھورا رہ گیا جب اس کی نظر عبد الرشید کے چہرے پر پڑی۔
گاڑی میں موجود ہر فرد ساتھ ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہیں تھا۔ آفرین بیگم پان چباتے ہوئے اپنی بہن شمیم سے فون پر بات کررہی تھیں، ان کا بیٹا عبدالرشید، گاڑی چلانے میں مصروف تھا اور اس کی بیوی عظمیٰ، چوٹی ڈال رہی تھی، عبدالرشید اور عظمیٰ کا بڑا بیٹا ریحان، موبائل میں کرکٹ میچ دیکھ رہا تھااور چھوٹابیٹا جو تین سال کا تھا کھلونے سے کھیل رہا تھا، آفرین بیگم کا چھوٹا بیٹا حنان، کوئی کتاب پڑھ رہا تھا، حنان کی بیوی نوشین اور اس کی بیٹی صالحہ انسٹاگرام پر ریل بنا رہی تھیں۔ کار میں سب افراد ایک ساتھ مگر اپنی اپنی دُنیا میں مگن تھے۔ اتنے سارے لوگ اکٹھا ہونے کے باوجود کوئی ایک دوسرے کو مخاطب کرنے اور بات چیت کرنے کو تیار نہ تھا اور اپنے اپنے مشغلے میں گم تھا۔
موسم بہت سہانا تھا، بارش کے چھینٹوں نے مٹی کی بھینی خوشبو کو ماحول میں گھول دیا تھا۔ بات کرتے ہوئے آفرین بیگم نے اشارے سے بڑی بہو عظمیٰ کو پانی کی بوتل دینے کو کہا۔عظمیٰ نے ایک ہاتھ سے چوٹی پکڑتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے بوتل دینے کی کوشش کی تو وہ نوشین اور صالحہ کی ریل میں آگئی۔ صالحہ نے چڑ کر موبائل نیچے کیا، ’’اتنا ہی شوق ہے آپ کو تو پہلے ہی بتا دیتیں، آپ کو ہماری ریل میں ایسے گھسنے کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ عظمیٰ کو بھی غصہ آگیا، ’’او بیٹے! زبان سنبھال کر بات کرو اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے اپنے چہرے کی جگ نمائی کا۔‘‘ عظمیٰ نے سلگ کر کہا۔
رشتوں کو جوڑ کر رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ذرا سی غلطی اور غلط فہمی سے رشتوں میں دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ آفرین بیگم نے اپنے بچوں کو ایک دوسرے کو بھائی کہنا تو سکھایا لیکن اس لفظ کا مطلب کیا ہوتا ہے بتانا بھول گئیں۔ دونوں بھائیوں میں ہر وقت کوئی نہ کوئی جھگڑا چلتا رہتا، کبھی کسی چیز پر تو کبھی کسی وجہ پر۔ دونوں کو سمجھانے کے بجائے آفرین بیگم ہر کسی کے سامنے روتی رہتیں کہ بچے نافرمان ہوگئے ہیں، یہ صلہ دیا ہے انہوں نے ہمیں اتنی ساری قربانیوں کا، دونوں کی بیویاں ہی صحیح نہیں ہیں، ہر وقت بھڑکاتی رہتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ آج بھی وہی ہو رہا تھا۔ بات شروع اتنی سی وجہ سے ہوئی مگر اب اس میں سب شامل ہو رہے تھے۔ عظمیٰ اور نوشین کی بحث شروع ہوچکی تھی اسی بیچ ریحان نے عظمیٰ کے ہاتھ سے پانی کی بوتل لی تو تھوڑا سا پانی صالحہ کے موبائل پر بھی گرگیا۔
’’ریحان سنبھال کر بیٹا! دو لاکھ کا موبائل ہے۔‘‘ دانت پیستے ہوئے حنان نے گھورا۔
’’بابا! وہ تو پہلے دن سے ہی اس کے پیچھے پڑا ہے۔ موقع ڈھونڈتا رہتا ہے اسے خراب کرنے کا۔‘‘ صالحہ موبائل صاف کرتے ہوئے بولی۔
’’تم نے موبائل خریدنے کے لئے مجھ سے ہی رقم ادھار لی تھی۔‘‘ عبد الرشید نے بھی چڑ کر کہا۔
’’آپ کو واپس بھی کر دی تھی رقم، جتانے کی ضرورت نہیں ہے بھائی صاحب۔ حنان نے کتاب کو گود میں پٹختے ہوئے کہا۔ یہ لڑائی کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں تک پہنچ گئی ہے، اس بات کا اندازہ نہ بڑوں کو تھا نہ ہی بچوں کو۔
’’اور ویسے بھی تم دو لاکھ کا موبائل لو یا دو کروڑ کا شکل تو تمہاری بدلنے سے رہی۔‘‘ مذاق اڑانے والے انداز میں ریحان نے لقمہ چھوڑا۔
نوشین اور صالحہ تو آگ بگولہ ہوگئیں۔
دراصل ان کی کار کا انجن اچانک اس پٹری پر آکر ہی بند ہوگیا تھا۔ اور ان سب کے حواس تب باختہ ہوگئے جب کہیں دور سے ریل انجن کے ہارن کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ اس سے پہلے کے عبدالرشید کچھ کہتا سب بڑی شدت کے ساتھ دروازے کھولنے کی طرف لپکے۔ لیکن نئے دور کی ٹیکنالوجی سے لیس یہ کار ان کو کہاں باہر آنے کی اجازت دیتی۔ اس لئے کہ اس میں انجن فیل ہوتے ہی سارے دروازے لاک کر دینے کا سسٹم تھا۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ ایسے مناظر صرف کہانیوں اور فلموں میں ہوتے ہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کچھ بدنصیب لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ کچھ واقعات کو ہم خبروں میں پڑھتے ہیں اور کچھ ان لوگوں کی زبانی سنتے ہیں۔ ٹرین کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ عبد الرشید اور حنان اس کوشش میں لگے تھے کہ کسی طرح کار اسٹارٹ ہوجائے یا دروازے ہی کھل جائیں، لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ ساری خواتین لڑائی کا ’لام‘ بھی بھول گئی تھیں اور دعا کر رہی تھیں۔ آفرین بیگم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ حنان اپنے بڑے بھائی کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کاش اس نے دل دکھانے والے الفاظ کا استعمال نہ کیا ہوتا۔ نوشین نے ارحم کو گود میں لیا ہوا تھا اور عظمیٰ کا ہاتھ بھی تھام رکھا تھا۔سب یہی سوچ رہے تھے کہ اب اتنے برے جملوں کا استعمال نہیں کریں گے۔ ہمیشہ مل جل کر رہیں گے۔ نوشین سوچ رہی تھی کہ اب وہ عظمیٰ کو بھابھی بول کر مخاطب کرے گی اور کام میں زیادہ مدد کرے گی۔ عظمیٰ سوچ رہی تھی کہ صالحہ کے ساتھ اپنی بیٹی جیسا برتاؤ کرے گی اور نوشین کو بھی بہن کی طرح سمجھے گی، اس کی چھوٹی غلطیوں کو معاف کر دیا کرے گی۔ اچانک پیدا ہونے والی صورتحال کے سبب سب کو اپنے کہے ہوئے کڑوے جملے اور رشتوں میں تلخیاں یاد آ رہی تھیں۔ اپنوں سے بچھڑنے کی ہولناکی ستا رہی تھی اور اپنے کہے ہوئے جملے یاد آ رہے تھے۔ اب سب دل ہی دل میں وفا کا عہد کر رہے تھے اور دعا کر رہے تھے۔ سب کو احساس ہوگیا تھا کہ انہیں اپنے برتاؤ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ نہ جانے کیوں ایسے وقت میں ان کے ذہنوں میں یہ خیالات آرہے تھے؟ کھڑکی سے ٹرین آتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی، ساری خواتین ایک دوسرے کو پکڑے زور سے رو رہی تھیں۔ موت کا لمحہ سامنے تھا۔ اسی لمحے ریحان نے اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھا اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ سب نے ایک راحت کی سانس لی جب انہوں نے دیکھا کہ ٹرین آئی اور پیچھے سے گزر گئی اور ان سب کو ایک محفوظ فاصلے سے یہ منظر دیکھنا نصیب ہوا۔ وہ سب خوشی کے مارے رو رہے تھے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہے تھے۔
عبد الرشید نے گاڑی ایک درخت کے نیچے روکی جو پاس میں تھا۔ اور ہیلپ لائن نمبر پر فون ملانے لگے۔ ہیلپ لائن والے لوگ کچھ دیر میں آنے والے تھے۔ جب تک وہ لوگ پہنچتے ہیں ہم کچھ کھا لیتے ہیں، کسی نے بھی صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ عظمیٰ نے نرم لہجے میں کہا۔ کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔ سارے افراد خوش اور مطمئن نظر آرہے تھے۔
اچانک صالحہ نے چلانا شروع کردیا، ’’تم نے میرا بنایا ہوا کیک کھا لیا۔‘‘ ریحان نے منہ میں بھرے کیک کے ساتھ کہا، ’’تو تم بھی تو میری امی کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا رہی ہو۔‘‘ نوشین کا ہاتھ بیچ میں ہی رک گیا، ’’مَیں نے بھی مدد کی ہے۔ صرف تمہاری امی نے نہیں بنایا ہے یہ سب کچھ۔‘‘ امی پر زور دیتے ہوئے نوشین نے نوالہ پلیٹ میں پٹخا۔ کچھ دیر پہلے جو عہد کئے تھے وہ مندمل ہونے لگے۔ اور ہیلپ والوں کے آنے تک یہ جھگڑا ایک نئے سرے سے شروع ہو کر ایک نئے سرے تک پہنچ چکا تھا۔ سچ ہے کہ لمحے ہر رنگ کے ہوتے ہیں اور ہر لمحہ بدلتا ہی رہتا ہے اور اسے کے ساتھ انسان کا رویہ، اس کا برتاؤ بھی بدلتا رہتا ہے۔