Inquilab Logo

افسانہ: سفرِ زندگی

Updated: April 29, 2024, 11:34 AM IST | Tasneem Muzammil Shaikh | Mumbai

’’بیٹا! تمہارے خالو شادی کے سات سال بعد ہی اللہ کو پیارے ہوگئے اور ندا اور مصطفیٰ کو میں نے تب سے ماں اور باپ بن کے پالا۔ تمہارے خالو کا انتقال ہوتے ہی ہماری ساس نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔ میرا میکہ بھی نہیں تھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

’’خالہ! کیا ہوا، ارے بولو نا خالہ کیا ہوا؟ آج صبح کھانے کے ٹیبل پر بھی خاموش تھیں آپ، کیوں اداس ہیں ؟ خالہ! بہو نے کچھ بولا کیا آپ کی؟‘‘ زینب نے سوالوں کی بارش کر دی خالہ کو اداس دیکھ کر۔ 
خالہ کے لب پر ہلکی سی مسکان آئی اور کہا کہ، ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ ‘‘
بہترین ۳؍ اسٹار ہوٹل کی لوبی میں مخملی صوفوں پر یہ چاروں بیٹھی تھیں۔ زینب اپنی کرسی سے اٹھ کر خالہ کے بازو آبیٹھی اور ان کا ہاتھ پکڑ کو پوچھنے لگی، ’’بولو نا خالہ کیوں اداس ہیں ؟ کیا مَیں آپ کی بیٹی جیسی نہیں ہوں ؟‘‘
خالہ نے بڑے شفقت سے زینب کا گال تھپتھپایا اور کہا، ’’بالکل ہو۔ ‘‘
’’پھر بولو نا خالہ ہوا کیا؟ فجر کی نماز کے بعد حرم سے واپسی پر بھی آپ خاموش تھیں۔ یہ شہر سکون کا ہے خالہ، اداس ہونے کا نہیں۔ یہ ہمارے نبیؐ کا شہر ہے مدینہ منورہ۔ دل کا حال نبیؐ کو سناؤ، آپ کو اچھا لگے گا۔ ‘‘
خالہ کی آنکھوں میں ہلکے سے آنسو چھلکنے لگے۔ کہا، ’’بیٹا وہی کرکے آئی ہوں علی الصباح۔ ‘‘ پھر ایک لمبی سانس لے کر خالہ نے کہا، ’’آج اللہ نے الحمدللہ بہت دن بعد سکون دیا ہے اور یہ پاک جگہوں کی زیارت نصیب کی ہے اور الحمدللہ نصف حج کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ‘‘
گلناز خالہ اور شیرین خالہ نے بے ساختہ ’’الحمدللہ‘‘ کہا۔ پھر دھیرے دھیرے خالہ نے ان کی بات بتانی شروع کی، ’’زندگی کی دھوپ میں اکیلے دو بچوں کے ساتھ سفر یاد آگیا۔ بیٹا! جس میں اکیلے پن کے کافی چھالے پڑے پیروں میں تو کبھی اپنوں کے رویوں کے کانٹے چبھے۔ ‘‘ ’’کیا ہوا خالہ!‘‘
’’بیٹا! تمہارے خالو شادی کے سات سال بعد ہی اللہ کو پیارے ہوگئے اور ندا اور مصطفیٰ کو میں نے تب سے ماں اور باپ بن کے پالا۔ تمہارے خالو کا انتقال ہوتے ہی ہماری ساس نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔ میرا میکہ بھی نہیں تھا۔ امی ابو میرے بچپن میں فوت ہوگئے تھے اور میری خالہ کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ ان کے پاس واپس جاتی سہارے کے لئے۔ ‘‘
’’پھر کیا کئے خالہ آپ نے؟‘‘ زینب نے بڑی تشویش سے پوچھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: اپنے

خالہ نے ایک لمبی سانس لے کر کہا، ’’مَیں شولاپور سے پونے چلی گئی تھی جب مصطفیٰ چھ سال اور ندا چار سال کی تھی۔ پونے میں میرے ماموں رہتے تھے۔ ان کی معاشی حالت بہت اچھی تھی۔ سوچا کہ وہ مجھے سہارا دے دیں گے لیکن انہوں نے ایک کمرہ کرایہ پر دلوایا اور مہینے دو مہینے کا کرایہ اور راشن بھر کے چلے گئے۔ میں صرف بارہویں جماعت تک پڑھی ہوئی ہوں، اتنی کم تعلیم پر نوکری ملنا مشکل تھی۔ اسلئے سوچا کہ کچھ کام کرلوں۔ لیکن لوگوں کے گھر کا کام کرنا میری غیرت گوارا نہیں کرتی تھی۔ پھر بچوں کو دیکھا، دعا کی اور ایک خیال آیا کہ اگر میں کام پر جاؤں گی بھی تو بچوں کو کون دیکھے گا؟ یکایک میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا کہ یہ تکلیف تو سب کام کرنے والی عورتوں کو ہوتی ہوگی۔ پھر سوچا کہ میں یہ کرسکتی ہوں، اپنے بچوں کے پاس بھی رہوں گی۔ پھر میں نے بچوں کا ’’ڈے کیئر سینٹر‘‘ کھول دیا، پہلے دو بچے آئے، پھر بڑھتے بڑھتے پونے کا نمبر وَن ڈے کیئر سینٹر بن گیا۔ جس سے میں نے ایک دو کمروں کا مکان لیا، اپنے بچوں کو تعلیم دی اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور الحمدللہ! اللہ نے دونوں کو بہت اچھی زندگی کے ساتھی دیئے۔ اب ماشاء اللہ مصطفیٰ سافٹ انجینئر ہے ایک یو ایس کمپنی میں اور بیٹی ندا ڈاکٹر ہے۔ اس کا اپنا کلینک ہے۔ پونے میں کونڈا میں ماشاء اللہ دونوں کو ایک ایک بیٹا ہے۔ خوش ہیں۔ مصطفیٰ مجھے یہاں لے کر آیا ہے عمرہ کرنے۔ الحمدللہ خوش ہوں بہت اور اللہ کا شکر بھی کرتی ہوں۔ اللہ نے آزمائش میں مبتلا کیا تو اس میں سے نکالا بھی۔ لیکن آج اچانک ایسا لگا کہ زندگی دو پل کی ہے اور وہ سارے اچھے اور برے پل اور زندگی کی مشقت یاد آگئی تو آنکھیں نم ہوگئیں۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ اتنی خوش قسمت ہوں کہ یہاں پہنچوں گی حضورؐ کے دربار میں، الحمدللہ....‘‘ کہہ کر خالہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ 
زینب اپنی جگہ سے اٹھ کر خالہ کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ان کو تسلی دینے لگی، ’’خالہ! اللہ نے آپ کو بہت بڑے انعام سے نوازا ہے۔ دیکھئے نا اپنے عمرے کے گروپ میں ماشاء اللہ ۴۵؍ لوگ ہیں جن میں ۲۵؍ عورتیں ہیں۔ الحمدللہ اور ماشاء اللہ بہت بہادر عورتیں ہیں جو جانتی ہیں کہ حالات سے کیسے لڑنا ہے اور اپنی زندگی کیسے کامیاب کرنا ہے۔ ‘‘ اچانک گلناز خالہ بھی رو پڑی اور کہنے لگی، ’’بیٹا! یہ تو کہانی گھر گھر کی ہے۔ میں نے بھی بچپن میں اپنے ماں باپ کھو دیئے تھے۔ دادی نے بہت مشکلوں سے بڑا کیا اور الحمدللہ شادی ہوئی، میرے ۵؍ بچے ہوئے۔ بچے بڑے ہوئے۔ کاروبار کے سلسلے میں تمہارے خالو اکثر دوسرے شہروں میں جاتے تھے۔ ایک بار ممبئی گئے اور وہاں ایک لڑکی پسند آگئی، انہوں نے اُس لڑکی سے شادی کرلی اور مجھے ایک خط لکھا۔ 
میں اپنے دونوں بیٹوں اور بہوؤں کے ساتھ رہتی تھی، بیٹوں کی شادی ہوچکی تھی۔ خط جب ملا تو میں نے خط پڑھا اور اپنے پاکٹ میں رکھ لیا اور اپنے بڑے بیٹے سے کہا وہ میرے ابا اور تمہارے نانا نے جو پلاٹ مجھے دیئے ہیں اُس پر ایک ٹین کا گھر بنادو۔ بیٹے کی اتنی زیادہ آمدنی نہیں تھی، پھر بھی میرے بیٹوں نے مل کر دن رات کوشش کی اور دھیرے دھیرے وہاں ایک کمرہ اور ضرورت خانہ بنا دیئے۔ دیکھتے دیکھتے چار مہینے گزر گئے اور میں نے اپنا سامان لیا اور وہاں چلی گئی۔ دونوں بیٹوں نے بہت روکا۔ لیکن میں رکی نہیں۔ پھر دوسرے دن میرا بڑا بیٹا گھر آکر رونے لگا، ’’اماں کیوں یہاں آگئے، ہم سے کیا غلطی ہوگئی، اماں ہماری بیبیوں سے کوئی غلطی ہوئی کیا؟‘‘
میں نے نفی میں سر ہلایا اور ٹین کے چھت میں سے ایک کاغذ نکالا اور ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ کھول کے جب پڑھنے لگا تو مجھے دیکھتا ہی رہ گیا۔ 
’’اس خط میں کیا تھا خالہ۔ ‘‘ اچانک زینب نے سوال کیا۔ 
خالہ نے کہا، ’’بیٹا! اُس خط میں میرے شوہر کا بھیجا ہوا طلاق نامہ تھا۔ اور ساتھ ہی تاکید تھی کہ عدت کے دن ختم ہوتے ہی میرا گھر چھوڑ کر چلی جانا۔ ‘‘
’’خالہ پھر آپ کا گھر کیسے چلتا ہے؟‘‘
’’بیٹا! لوگ مدد کرتے ہیں۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ میرا کوئی نہیں ہے اور میرے ساتھ اِس عمر میں ایسا ہوا تو گاؤں کے سبھی لوگ مدد کرتے ہیں۔ کوئی راشن دے جاتا ہے، کوئی کپڑا اور کوئی ضرورت کی چیزیں گھر پر لاکر دیتے ہیں۔ ‘‘ ’’خالہ! پھر آپ نے یہاں آنا کے لئے کیسے مینج کیا۔ مطلب یہاں آپ کو کس نے بھیجا ہے۔ ‘‘ زینب نے بڑی حیرت سے پوچھا۔ 
گلناز خالہ مسکرائی اور کہنے لگی، ’’میرے اللہ نے۔ ہمارے محلے میں مسجد تعمیر ہورہی تھی جس میں بہت زیادہ پیسہ جمع ہوگیا، بچا ہوا پیسہ لوگوں نے میرے عمرے کے لئے بھردیا اور مجھے یہاں بھیجا۔ ان کو میں زیادہ مستحق لگی۔ ‘‘
’’ اماں ! آپ کے بیٹے نہیں آتے؟ اور بیٹیاں۔ ‘‘
’’آتے ہیں، سبھی ملتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ‘‘
’’آپ ان سے پیسے یا کوئی بات کا مطالبہ نہیں کرتیں ؟‘‘ زینب نے پوچھا۔ 
’’نہیں۔ وہ دیتے بھی ہیں تو میں نہیں لیتی، کیونکہ خط میں لکھا تھا میرے بچوں سے قطع تعلق کرلینا۔ ‘‘
’’آپ کے بچوں کو غصہ نہیں آیا؟ یہ عمر میں خالو نے ایسا کئے؟‘‘
’’آیا۔ میرے بیٹوں نے برا بھلا کہا لیکن میں نے منع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بات کریں گے، میں نے کہا یہ ان کی زندگی ہے اور وہ باپ ہیں تمہارے، عزت کرو۔ میرا معاملہ ہے مجھے معلوم ہے کیا کرنا ہے، تم اپنی زندگی میں خوش رہو۔ ‘‘ ’’خالہ! اللہ آپ کیلئے آسانیاں کرے۔ ‘‘
’’ہاں بیٹا! میں نے اپنی بیٹیوں سے کہا، وہ بھی بہت رو رہی تھیں آنے کے وقت، تو میں نے کہا کہ بیٹا میرا اللہ نگہبان ہے، فکر نہیں کرو اور تم دیکھنا میرے جنازے کو اٹھانے کیلئے اللہ فرشتے بھیجنے پر بھی قادر ہے۔ ‘‘
’’ارے خالہ آپ کچھ بھی بولتے ہو، اللہ اچھا رکھے آپ کو۔ ‘‘ جھٹ زینب بول پڑی اور حسینہ خالہ بھی بولے، ’’بہن صبر رکھو اللہ ہے۔ ‘‘ اور سبھی خاموش ہوگئے۔ 
زینب نے کہا، ’’چلئے نا خالہ ہم حرم چلتے ہیں، عصر کا وقت بھی ہوگیا ہے۔ ‘‘ اور سبھی حرم کے لئے نکل گئے۔ عصر کی نماز ختم ہوئی لیکن گلناز خالہ نے سجدے سے سر ہی نہیں اٹھایا۔ پہلے سبھی کو لگا دعا کررہی ہیں، جب پندرہ منٹ ہوگئے تو حسینہ خالہ نے ہلایا، دیکھا تو گلناز خالہ کی روح پرواز کرچکی تھی اور چہرہ نور سے چمک رہا تھا، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ۔ زینب نے دیکھا تو ’’خالہ خالہ....‘‘ کہہ کر زور سے آواز دی اور رونے لگی۔ لوگ جمع ہوگئے۔ پھر مسجد نبویؐ کا ایمرجنسی اسٹاف آیا اور وہ خالہ کو لے گئے، ان کے ساتھ گروپ کے ذمہ داران بھی گئے اور خالہ عشاء میں جنت البقیع پہنچ گئی۔ رات میں جب زینب سونے کی کوشش کرنے لگی تو سب کے سفر زندگی کا ایک ایک لمحہ ذہن میں گھومنے لگا اور گلناز خالہ کی وہ بات یاد آگئی، ’’بیٹا! زندگی کا سفر ہے سمجھو تو آسان، بس توکل اللہ ہونا چاہئے تو سفر زندگی سہل ہے۔ ‘‘
زینب سوچنے لگی ان کا توکل ہی تھا جو انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیا بنا کسی سہارے کے۔ وہ سوچنے لگی کتنی بہادر خواتین ہیں جو بنا کسی شکوے کے زندگی گزار گئی اور ہم چھوٹی سی بات کیلئے اللہ سے شکایت کرتے ہیں۔ وہ سبھی کا سفر زندگی سوچتے سوچتے کب سو گئی پتہ نہیں چلا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK