بیٹی کی تربیت سے لے کر اس کی جدائی تک کئی مراحل ہیں… پڑھئے اس تحریر میں۔
EPAPER
Updated: June 11, 2025, 1:14 PM IST | Sofia Tariq | Bihar
بیٹی کی تربیت سے لے کر اس کی جدائی تک کئی مراحل ہیں… پڑھئے اس تحریر میں۔
’’بیٹا ذرا باہر دیکھ اؤ، سارے انتظامات مکمل ہو گئے نا؟‘‘ امی نے بھائی کو بلا کر کہا۔ ’’ جی امی میں ایک بار اور دیکھ لیتا ہوں۔ باقی آپ بھی اندر سب دیکھ لیں کہ یہاں سب ٹھیک ہے۔ ‘‘
’’ہاں بیٹا سب اچھے سے ہو گیا ہے باقی کچھ چیزیں پیک کرنی رہ گئی ہیں ، وہ بہنیں اور خالہ دیکھ رہی ہیں۔ ‘‘ ’’ ٹھیک ہے ‘‘یہ کہہ کر بھائی باہر کی طرف نکل گئے۔
’’اللہ میرے سوٹ کا دوپٹہ کیوں نہیں مل رہا۔ میں نے تو یہیں رکھا تھا، رات ہی پریس کی تھی، آپی آپ نے دیکھا ہے کیا؟‘‘سدرہ سارے گھر میں چیخ چیخ کر بول رہی تھی۔ ’’نہیں ابھی تو میری نظر نہیں پڑی، لیکن میں نے دیکھا تھا تم نے ادھر سٹور روم میں ہی تہہ کر کے رکھا تھا۔ وہیں صحیح سے دیکھو۔ ‘‘ آپی نے سدرہ سے کہا۔
ہر طرف گہما گہمی تھی کوئی کچھ کر رہا تھا کوئی کچھ، کسی کو کپڑوں کی فکر ہو رہی تھی، تو کوئی اپنے آپ کو لے کر پریشان ہو رہا تھا، کوئی اپنے نہانے کی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ چاروں طرف نگاہ دوڑاؤ تو ہر کوئی بھاگ دوڑ میں ہی لگا ہوا تھا۔ انہی کے بیچ حمنہ تھوڑی گھبرائی اور غمگین بیٹھی تھی، کیونکہ آج حمنہ کا نکاح اور رخصتی دونوں تھا۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : بدلتے لمحے، بدلتے لوگ
’’آو حمنہ بیٹا ایک بار اور ابٹن لگنا ہے‘‘ مامی حمنہ کو لے کر باہر لے آئیں۔ ابٹن کے بعد حمنہ کپڑے چینج کرنے چلی گئی۔ دل بہت اداس ہو رہا تھا، کیونکہ آج کا دن حمنہ اور اس کے والدین، بھائی بہنوں، کے لئے بہت اہم تھا۔ آج حمنہ اپنے والدین خاص طور پر اپنی پیاری ماں جنہوں نے اس کی تعلیم تربیت کے لئے دن رات ایک کئے تھے، جنہوں نے سب بھائی بہنوں کو زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھا، اور ہمیشہ مضبوط ڈھال بن کر کھڑی رہیں، ان کو چھوڑ کر وہ جا رہی تھی۔ وہ سوچنے لگی، سچ میں فخر ہے ہم سب کو اپنے والدین پر جن کی گھنی چھاؤں تلے ہم پل بڑھ کر جوان ہو گئے اور پتہ ہی نہیں چلا، جنہوں نے لوگوں کی باتوں اور ان کے کڑوے کسیلے جملوں پر جواب دینے کے بجائے اللہ سے ہمیشہ لو لگائی اور اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لئے جو انہیں صحیح لگا وہ کیا۔ کاش اگر میرے بس میں دنیا کی تمام خوشیاں کسی کو دینی ہوتی تو میں اپنے پیارے والدین کے قدموں میں نچھاور کر دیتی۔ چلو خیر کوئی نہیں، سب کے نگہبان تو اللہ تعالیٰ ہے ناں، اور وہ تو اپنے پیارے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں، تو بس میرے والدین، بھائی بہن اللہ کی امان میں، ان شاءاللہ۔ حمنہ کا دل مطمئن ہو گیا اور وہ تیار ہونے لگی۔
اور پھر رخصتی کا شور ہوا اور حمنہ بابل کا گھر چھوڑ کر چلی گئی۔
سب طرف اطمینان ہونے کے بعد محفلیں جم گئیں۔ کہیں بزرگ خواتین کی، کہیں بہوؤں کی تو کہیں نوعمر بچیوں کی۔
’’بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں، وہ اپنی خوشبوؤں سے پورا گھر مہکائے رہتی ہیں۔ ہر دم گھر میں رونق لگائے رہتی ہیں۔ جب یہ رخصت ہو جاتی ہیں تو پورا گھر بے رو نق ہو جاتا ہے۔ ‘‘ حمنہ کے جانے کے بعد ایک بزرگ خاتون بولیں۔ ان کے باتیں سن کر سب نے اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کو صاف کیا۔
’’ ارےآپ نے سنا ہے. فلاں صاحب کے ہاں کیا ہوا؟‘‘ محلے کی ایک ’خالہ‘ نے کہا۔
’’ کیا ہوا؟ ‘‘ایک خاتون تجسس سے بولیں۔
’’ معلوم نہیں ایسا کیا ہوا، ان کا خاندان بکھرتے بکھرتے رہ گیا۔ اب خدا ہی بہتر جانے غلطی کس کی تھی… لیکن اس پر فتن دور میں والدین کو اپنے بچوں کے متعلق بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے، ان کی پسند ناپسند کو مدر نظر رکھتے ہوئے کسی بات کو آگے بڑھانا چاہئے۔ ‘‘
’’جی بالکل صحیح کہہ رہی ہیں آپ۔ ‘‘ایک دوسری خواتین نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’دیکھیں ان سب کے پیچھے بہت ساری وجوہات ہیں۔ ‘‘ ایک دوسری خاتون نے کہنا شروع کیا’’ سب سے پہلے گھروں میں دینی ماحول کا نہ ہونا، بچے نماز روزے پردےکا اہتمام نہیں کرتے، چاچا زاد، پھوپی زاد، خالہ زاد، ماموں زاد، تایا زاد بھائی بہنوں کی آپس میں زیادہ بے تکلفی بے حیائی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ بڑوں میں آپسی محبت ہونا خاندان کی بقا اور ترقی کے لئے بہت ضروری ہے، لیکن بچے چونکہ آپس میں نامحرم بھی ہوتے ہیں تو اللہ کی بنائی ہوئی حدوں کو توڑنا بھی ایک سبب ہے۔ ‘‘
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا’’والدین کا اپنے بچوں پر بیجا اعتماد کرنا یہ سوچ کر کے ہمارے بچے تو سمجھدار ہیں۔ آپ اپنے بچوں پر اعتماد کیجئے بلکہ انہیں ہر طریقے سے اپنے اعتماد میں لیجیے تاکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والےہر اچھے برے واقعات کو بنا ہچکچائے آپ سے اور اپنے بہن بھائیوں سے کہہ سکیں، لیکن اندھا اعتماد بعد میں رسوائی کاباعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ اپ اپنے بچوں پر تو اعتماد کر سکتے ہیں لیکن آپ کسی کو بھی شیطان کے مکرو فریب سے بچا نہیں سکتے۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : خوابوں کی دہلیز پر
اور جو لوگ یہ سوچتے ہیں بچیوں کو اعلی تعلیم دلواکر کیا ہی کرنا، انہیں بہترین عالمہ فاضلہ، ڈاکٹر پروفیسر، بنا کر کیا فائدہ، انہیں تو دوسرے گھر جانا ہے، آخر میں تو چولہا چکلا ہی کرنا ہے، یہیں وہ سب سے بڑی غلطی کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے، دوسری بات اگر آپ انہیں اعلی تعلیم نہیں دیں گے تو وہ معاشرے میں اپنے آپ کو کمتر جانیں گی۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہرایک سے مشورے لیں گی جو بعض اوقات تو فائدہ مند لیکن اکثر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اعتماد سے اپنی بات نہیں رکھ سکیں گی۔ بعض دفعہ غلط کو غلط جان کر بھی دنیا کے اور معاشرے کے طنزو تشنیع کے خوف سے خاموش رہیں گی کیونکہ آپ نے انہیں اتنابا اعتماد نہیں بنایا کہ وہ نڈر ہو کر اپنی بات کہہ سکیں۔ مشکل حالات میں صبر و شکر کرنے کے بجائے ناشکری کر کے اپنی قسمت کو کوستی رہیں گی، اور اللہ سے لو لگانے اور عقلمندی سے ان حالات سے نکلنے کے طریقے سوچنے کے بجائےجگہ جگہ جا کر اپنی پھوٹی قسمت کا رونا روئیں گی۔ کیونکہ آپ نے انہیں سکھایا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ لے کر بھی آزماتے ہیں اور دے کر بھی۔ `جن کے پاس ہے وہ بھی آزمائش میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنا مال کہاں کیسے اور کس پر خرچ کر رہے ہیں، اور جن کے پاس نہیں ہے تو وہ بھی آزمائش میں مبتلا ہیں کہ وہ کیسے صبر و شکر سے رہ رہے ہیں یا وہ ناشکری کر کے اللہ کے ناراضگی مول لے رہے ہیں۔ ‘‘ ان کی باتوں میں دم تھا جس نے ہر خاتون کو سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ اور پھر انہوں نے آخر میں یہ دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح عقل اور سمجھ عطا فرمائے، اپنی بات مکمل کی اور جانے کے لئے کھڑی ہوگئیں۔ ویسے بھی حمنہ کے جانے کے بعد، اب گھر کو تو خالی ہونا ہی تھا۔