Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : ٹھنڈی چھاؤں

Updated: May 21, 2024, 3:48 PM IST | Alia Zahid Bhatti | Mumbai

اسے پتہ تھا کہ بچے پکوڑے نہیں کھاتے تو ان کیلئے سینڈوچز اور فرائز تیار کئے۔ ساتھ ٹرے میں اسٹرابیری ملک شیک کے گلاس سجائے کیونکہ بچے چائے بھی نہیں پیتے تھے۔ ٹرے سجا کر لاؤنج میں رکھی اور سب کو آواز لگائی کہ، ’’جلدی جلدی کھالو آکر۔‘‘

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اس کے صبیح چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ عجیب سا اضمحلال و اضطراب پورے سراپے سے عیاں تھا۔ ’’کیا بات ہے ماہم، اینی پرابلم....؟‘‘ وردہ نے اسے سوچوں میں گم دیکھ کر پوچھا۔
 ’’نہیں.... کچھ نہیں، کچھ خاص نہیں، سب ٹھیک ہے، تم سناؤ کیا چل رہا ہے؟‘‘ ماہم نے لہجے میں بشاشت پیدا کرکے قطعیت سے جواب دے کر بات ہی بدل دی۔
 ’’بس بھئی، جب سے دانیال صاحب کو نیا کانٹریکٹ ملا ہے، جان عذاب کر رکھی ہے، ہر کام میں نکتہ چینی، ہر جگہ تنقیدی نگاہ، ارے اتنی ہی پرفیکشنسٹ چاہئے، تو پے بھی تو اسی حساب سے کریں ناں!‘‘ وردہ بھی اس کی پریشانی بھول بھال اپنے دکھڑے سنانے بیٹھ گئی، تو ماہم نے بھی اپنی طرف سے اس کا دھیان بٹتا دیکھ کر سکون کا سانس لیا اور بہت دلجمعی سے اس کے دکھڑے سن کر مفت مشوروں سے بھی نوازنے لگی۔
 وہ ہمیشہ ہی سے ایسی تھی، کسی پر نہ کھلنے والی اور اس پر اسے سب سے تو نہیں، مگر اپنے اردگرد کے کچھ خاص لوگوں سے یہ توقع ضرور رہتی تھی کہ وہ بھی اسے بنا کہے سمجھیں، جان لیں کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ جیسے وہ، جنہیں بھی اچھی طرح جانتی تھی، ان کے بارے میں خودبخود جان لیا کرتی تھی کہ وہ دراصل اس وقت کیا چاہ رہے ہیں۔ ابھی صبح ہی تو جب میٹنگ کے بعد وہ ڈاکٹر ہادیہ کے کمرے میں گئی اور حسب معمول ان کی میز کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھی، تو بمشکل چند باتوں کے بعد ہادیہ نے ایک فائل کھولتے ہوئے اس سے عجلت میں پوچھا، ’’ماہم! ابھی تم ادھر ہی ہو ناں ؟‘‘ تو اس کے لئے بس یہ انداز ہی کافی تھا۔ وہ ہادیہ سے زیادہ سرعت سے اٹھی اور اپنا پرس اٹھا کر بولی، ’’جی، جی.... میں ادھر ہی ہوں، ساڑھے ۴؍ بجے تک، پھر ملتے ہیں ان شاء اللہ سیکنڈ ہاف میں۔‘‘ اسے، کبھی کسی کو خود سے کچھ کہنا نہیں پڑتا تھا کہ ہماری طرف آؤ یا اب جاؤ۔ نہ جانے کیسے وہ ہمیشہ بھانپ لیا کرتی تھی کہ اب اس کی ضرورت ہے تو وہ حاضر ہو جاتی اور جیسے ہی کہیں محسوس کرتی، اب وہاں اس کی ضرورت یا گنجائش نہیں، تو وہاں سے ایسے نکل جاتی، جیسے کبھی وہاں موجود ہی نہیں تھی۔
 ’’ماہم! میرے والٹ میں اے ٹی ایم کارڈ نہیں ہے۔‘‘ ولید کی آواز آئی، تو اس نے کچن ہی سے ہانک لگائی، ’’کل جب آپ نے پیٹرول ڈلوا کر ایسے ہی لاپھینکا تھا، تو میں نے اسی وقت گاڑی کے ڈیش بورڈ میں رکھ دیا تھا۔‘‘
 ’’مما جی! آج ناشتے میں کیا ہے؟‘‘ عائشہ کا وہی روزانہ کا سوال۔
 ’’جو آپ کھائیں گی، ممابنا دے گی۔‘‘ اس نےعائشہ کے گال کو نرمی سے چھوا اور ابلتے ہوئے پانی میں پتی ڈال کر دم دے دیا۔
 ’’بھابھی میری فائل....؟‘‘ سرمد کمرے سے نکلا۔ ماہم نے کچن سے ملحقہ لاؤنج کے دروازے سے اندر جاکر دیوار گیر شیلف کے پہلے خانے سے فائل اٹھا کر اسے دی۔ سب کے چائے، ناشتے سے فراغت پانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں گئی۔ 
اے ماں! تو عود میں، عنبر میں، تو گلاب میں ماں.....

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: قرض

شاور لے کر اپنی تیاری کو آخری ٹچ دیا اور کلائی میں گھڑی پہنتے ہوئے ناشتے کی ٹیبل سے برتن اٹھا کر سنک میں رکھ کے، باقی کچن مکمل صاف کرکے باہرنکل آئی۔ اگر ابھی برتن دھونے بیٹھ جاتی، تو کل کی طرح ولید اسے چھوڑ کر چلے جاتے، پھر اسے دو رکشا اور ایک بس بدل کر ڈیڑھ گھنٹہ آفس پہنچنے میں لگتا۔ اس سے بہتر تھا کہ واپس آکر برتن دھوتے ہوئے ساس کی باتیں سن کر خاموش رہتی کہ یہ کام آسان تھا۔
 آفس میں آج ورک لوڈ بہت زیادہ تھا۔ ان کی کمپنی کا ایک بین الاقوامی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا، جس کےمعیار پر پورا اترنے کے لئے انہیں مزید سخت محنت کی تاکید کی جا رہی تھی اور اس کے پاس ہمیشہ کی طرح دینے کے لئے بہت سا وقت اور ڈھیروں ڈھیر محنت موجود تھی۔
 ’’مس ماہم! یہ ٹوٹل اٹھارہ فائلز ہیں۔ کیا آج ہی ممکن ہوسکے گا؟‘‘
 ’’جی جی، کیوں نہیں، لنچ ٹائم بھی تو ہے ناں!‘‘ اس نے پرجوش اندازمیں کہا، تو باس بھی مطمئن ہو کرچل دئیے۔
 گھر آتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ کام کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ آج تو لنچ بھی نہیں کرسکی اور گھر سے روانہ ہوتے ہوئے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ بس، آفس میں دو مرتبہ ملنے والی چائے ہی نے اس کے لئے ’فیول‘ کا کام کیا تھا۔ اب بھی کھانے سے زیادہ اسے چائے کی طلب تھی۔ اس لئے سوچا کہ گھر جاتے ہی سب سے پہلے اچھی سی چائے بنا کر ساتھ میں پکوڑے تلے گی اور اہتمام سے چائے پی کر آج کچھ وقت اپنے ساتھ گزارے گی۔
 یہی سوچتے ہوئے وہ گھر میں داخل ہوئی۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی برآمدے میں کھیلتی عائشہ اس سے لپٹ گئی تھی۔ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ اندر آئی، تو سامنےسے آتے ہوئے اپنے بیٹے عبداللہ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جیسے چمک سی آگئی۔ آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ’’آج جلدی آگئے اکیڈمی سے، یا گئے ہی نہیں تھے؟‘‘ ماہم نے پوچھا۔
 ’’جلدی آگیا تھا، آج ایکسٹرا کلاس نہیں تھی۔ اور.... میں نے سنا ہے کہ اسی خوشی میں آج آپ ہماری پارٹی کر رہی ہیں۔‘‘ عبداللہ نے ماں کے سوال کا جواب دینے کے ساتھ ہی فرمائش بھی کر ڈالی۔ تو وہ عبداللہ کو اپنا بیگ تھما کر کمرے میں رکھنے کا کہہ کے، خود سیدھی کچن میں چلی آئی۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: سفرِ زندگی

اس کی تھکن مزید بڑھ گئی، جیسے تیسے کمرے کو درست کرکے اس نےبستر پر لیٹ کر کمر سیدھی کی ہی تھی کہ ولید ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور بیگ ایک طرف پھینک کر کرسی پر ڈھے گئے۔ ’’محترمہ بیگم صاحبہ! آرام سے فرصت مل گئی ہو تو شوہر کو بھی پانی پوچھنے کی زحمت کر لیجئے۔‘‘
 ’’آرام.... بس ابھی کمر ہی ٹکائی تھی میں نے تو آپ آگئے۔‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے چپل پاؤں میں پھنسانے کی کوشش کی۔ ’’پاؤں پر ورم آگیا ہے شاید۔ زیادہ دیر جوتے پہننے اور مسلسل کھڑے رہنے کی وجہ سے۔‘‘ اس نے سوچا اور پانی کا گلاس بھر کر ولید کو پیش کیا۔
 ’’ایک تو تم ورکنگ لیڈیز کی یہ بات بہت بری ہے کہ کام کرکے گنواتی بہت ہو۔ ہم مردوں سے کبھی کسی نے نہیں سنا ہوگا۔ ہمارے تو معمولات زندگی کا حصہ ہے پروفیشنل ازم تو ہم کس پر احسان جتائیں کہ ہم کام کرتے ہیں، اور خواتین جو ذرا پروفیشنلی کوئی کام کرلیں، پھر سارا دن جملے بازیاں ہی ختم نہیں ہوتیں کہ آفس میں کام زیادہ تھا۔ یہ تھا، وہ تھا۔ ابھی تو اللہ کا شکر ہے، میرے ماں باپ، میرا بھائی اور تو اور، میرے بچے بھی تمہارا اتنا ساتھ دیتے ہیں۔ جو بھی، جیسا بھی پکا کر جاتی ہو، رات کا بھی رکھ جاؤ، تو خود گرم کرکے کھا لیتے ہیں۔ شام میں بھی جو پکا کر کچن میں رکھ کر چلی آتی ہو، وہ بیچارے خود نکال کر کھا لیتے ہیں، اس پر بھی محترمہ فرماتی ہیں، ابھی کمر ہی ٹکائی تھی۔ ارے بھئی، مکمل کمر ٹکا لیں میڈم! میں خود گلاس رکھ لوں گا آپ آرام فرمائیں۔‘‘ ولید نے گلاس اس کے ہاتھ میں پکڑانے کے بجائے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور فریش ہونے واش روم کی طرف چلے گئے، تو ماہم نے تھکے ہوئے انداز میں بیڈ پر دوبارہ لیٹنے کی کوشش کی، مگر اندازے کی غلطی تھی یا صبح سے شام تک کی خالی پیٹ کی گئی سخت محنت کہ بیڈ کے بجائے وہ زمین پر آ گری۔ چکر اس زور کا تھا کہ سر، بیڈ کی پائنتی سے جا ٹکرایا اور خون کا ایسا فوارہ چھوٹا کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

 آنکھ کھلی تو وہ اسپتال کے بیڈ پر تھی۔ کمرا خالی تھا اور اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ اس کا سر، درد سے پھٹ رہا تھا۔ سر پر ہاتھ لگانے سے پٹی محسوس ہوئی۔ کچھ سوچنے کی طاقت بھی نہ تھی۔ کمرے میں داخل ہوتی ڈیوٹی نرس نے اسے ہوش میں دیکھ کر ڈاکٹر کو آواز دی۔ ڈاکٹر نے اندر آکر چیک کیا اور نرس سے کہا، ’’ان کے ساتھ جوہیں، ان کو بلائیں۔‘‘ پریشان حال ولید کو دیکھ کروہ خود بھی پریشان ہوگئی۔ اٹھنے کی کوشش میں ٹیس سی اٹھی اور وہ دوبارہ بستر پر ڈھے گئی۔

 جمعرات کو اس کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔ تین دن اسپتال گزار کر آج اتوار کے دن وہ گھر آئی، تو گھر میں جیسے کسی تقریب کا سماں تھا۔ اس کے والدین، بھائی، بھابھیاں، ان کے بچے، ساس، سسر، دیور، اپنے بچے اور ولید سب ہی اس کے گھر آنے پر نہال تھے۔ ہر کسی نے اسے صحت کے ساتھ گھر واپس آنے پر خوش آمدید کہا، مگر عائشہ اور عبداللہ کے تو ویلکم کا انداز ہی الگ تھا۔ عبداللہ نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور عائشہ نے اسے گلدستہ تھمایا ’’ہیپی مدرز ڈے مما جی!‘‘ ’’ارے.... آج مدرز ڈے ہے۔‘‘ وہ مسکرادی۔
 ’’جی جناب! آج مدرز ڈے ہے مگر میں نے بچوں کو خاص طور پر سمجھایا ہے کہ شکر کرو، تمہاری ماں زندگی، صحت اور عافیت کے ساتھ واپس آگئی ہے۔ اب ہر روز ہی تمہارا مدرز ڈے ہے۔‘‘ ولید نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دےکر صوفے پر بٹھایا۔ ’’ہاں ناں، میں نے کہا ہے بچوں سے کہ جیسے تمہاری ماں نے ہر کسی کے لئے اپنی مامتا نچھاور کی ہے۔ ہم بڈھوں کو بھی ماں بن کر پال رہی ہے، ہمارے نخرے ایسے اٹھاتی ہے، جیسے ہم ساس، سسر بھی اس کے بچے ہوں، تم لوگوں کا بھی فرض ہے، اس کا ہاتھ بٹاؤ، اس کی خدمت کرو۔‘‘ ساس نے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر اس کا سر اپنے کندھے سے لگا کر سہلایا۔
 دوسرے صوفے پر بیٹھے اس کے والدین یہ دیکھ کر نہال ہورہے تھے کہ ان کی بیٹی کی خدمات کو سسرال میں کیسی پذیرائی مل رہی ہے۔ ’’ہاں بھابھی! اب ایک ’’ماں‘‘ کافی نہیں ہے۔ ہمارے اماں، ابا کی ایک دوسری ’’ماں‘‘ بھی آجانی چاہئے۔‘‘ سرمد نے بھی بڑے شرارتی انداز میں اینٹری دی۔ ’’ہائیں.... دوسری ماں؟ کیا ہوگیا ہے، ہوش میں تو ہو؟‘‘ماہم کی ساس کو گویا پتنگے لگ گئے۔ ’’ارے اماں! آپ ہی نے تو کہا ہے کہ بھابھی جان نے، ہم سب کو ’’ماں‘‘ بن کر سنبھالا ہوا ہے اور اسی لئے بیچاری بیمار بھی پڑگئیں، تو اب انہی جیسی دوسری ماں لانے کے لئے نہ ابا کو زحمت کرنی پڑے گی، نہ بھائی جان کو، بس آپ میرے سہرے کے پھول کھلا دیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری بیگم بھی آپ سب کو دوسری ماں بن کر ہی سنبھالے گی۔‘‘ سرمد نے بڑی ڈھٹائی سے اپنی بات کی وضاحت کی، تو ساری محفل زعفران زار بن گئی۔
 اور تب.... ماہم نے بہت سکون سے اپنے آپ کو اندر ہی اندر تھپکایا:
 ’’دیکھ لیا پگلی! یہ سب تیرے اپنے ہیں۔ تو ایک ماں ہے، تو وہ ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا اللہ بھلا تجھےکیسے اکیلا چھوڑ سکتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK