ایک لمحے کے لئے وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ لیکچر روم کے دروازے پر ہی اُسے تالیوں کی گونج اور لڑکوں کے قہقہوں کی تمسخرانہ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
EPAPER
Updated: August 27, 2025, 3:35 PM IST | Professor Zahra Abdul Rahman Morrak | Mumbai
ایک لمحے کے لئے وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ لیکچر روم کے دروازے پر ہی اُسے تالیوں کی گونج اور لڑکوں کے قہقہوں کی تمسخرانہ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
ایک لمحے کے لئے وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ لیکچر روم کے دروازے پر ہی اُسے تالیوں کی گونج اور لڑکوں کے قہقہوں کی تمسخرانہ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ شازی کے پیر جیسے زمین پر جم گئے ہوں اور پیشانی پر اپنی قابو پا لیا۔ وہ تو ہزاروں سامعین کا دل جیت چکی تھی تو یہ چند سو طلبہ کا کلاس اُسے کیا پسپا کرتا۔ کلاس میں داخل ہو کر اُس نے ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ طالبات خاموش اپنی نئی پروفیسر کی منتظر تھیں اور اُن کے چہروں پر احترام کے جذبے رقصاں تھے مگر لڑکوں کے چہروں پر شرارت آمیز تبسم صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک پہلے ڈیسک پر بیٹھے اُس لڑکے پر نظر پڑتے ہی اُس کا وجود لرز اُٹھا۔ وہی چہرہ، وہی قد و قامت وہی رنگ و روپ اور وہی شرارت سے چمکتی آنکھیں۔ یا اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
ذہن کو جھٹک کر اُس نے اپنا تعارف کروا کر طلبہ کو اعتماد میں لے ہی لیا۔ غالب کی غزل اور شازی کی آواز کے جادو نے طلبہ کو سحر زدہ کر دیا۔ عشق کی کیفیتوں کا فسوں اور پروفیسر کا چھا جانے والا انداز ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ والا اثر کر گیا۔ درمیان میں سوالات اور جوابات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ استاد کے احترام کا جذبہ چہروں پر نمایاں ہوگیا تھا۔ لیکچر کے خاتمہ پر اطمینان کی سانس لے کر وہ پروفیسرز کامن روم کی طرف چل پڑی۔ اپنے آپ کو کرسی پر تقریباً گرا کر وہ ماضی کی یادوں میں کھو گئی۔
کل ہی کی تو بات تھی مگر کل کی کہاں تھی؟ کل کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ وہ کبھی آج سے جدا نہیں ہوتا اور زندگی کے کسی موڑ پر اچانک یادوں کی یلغار سے انسان کو بے بس کر دیتا ہے۔ کتنا خوبصورت تھا اس کا بچپن! گاؤں کی خوبصورت فضائیں، حویلی میں ناز اٹھانے والے بزرگ، نوکروں کا ہجوم، دھان کے کھیتوں کی مہک، آم کے باغوں کی خوشبو، کھیتوں کی منڈیروں پر تتلیوں کے پیچھے دوڑنا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا۔ گاؤں کے اُس الھڑ بچپن کو الوداع کہہ کر شہر کی طرف کوچ کرنے کا حکم صادر ہوتے ہی اس نے رو رو کر حویلی کو سَر پر اُٹھا لیا تھا مگر اُس کی ایک نہ چلی اور پھر شہر کی چکا چوند نے اُسے اپنا گرویدہ بنا ہی لیا۔ شازی کی ذہانت اور مختلف فنون میں مہارت نے اُسے نہ صرف اساتذہ کا مقبولِ نظر بنا دیا بلکہ طالبات میں بھی مقبولیت کا تاج پہنا دیا۔ بڑے خوبصورت اور شاندار دن تھے نہ غم ِ جاناں اور نہ غم ِ دوراں۔ جلد ہی زندگی کا یہ خوبصورت دور بھی ختم ہوا تو ہاتھ میں شاندار رزلٹ تھا مگر زندگی ایک بڑے امتحان کی منتظر تھی۔ اچانک والد کے انتقال نے گھر کی ذمہ داری اس کے شانوں پر ڈال دی۔ شازی کوئی معمولی لڑکی تو نہ تھی کہ حالات سے ٹوٹ کر زندگی سے ہار مان لیتی۔ اس کے اعتماد نے نہ صرف اُسے حالات سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کر دیا بلکہ اپنی پہچان بنانے کی خواہش بھی پیدا کر دی۔ شاندار رزلٹ نے کالج میں داخلے کی راہیں آسان کر دیں اور شہر کے بہترین کالج کا وہ سفر شروع ہوا جس کا اختتام اُس کی زندگی کا المیہ بن گیا۔
شازی اور سلمان کی دوستی کی ابتدا کالج کے اُردو لیکچرز میں ہوئی۔ شازی آرٹس کی طالبہ تھی اور سلمان سائنس فیکلٹی میں تھا مگر اُردو ادب کے لیکچرز دونوں فیکلٹی کے ساتھ ہی ہوتے تھے۔ سلمان اور شازی دونوں اُردو زبان و ادب کے شیدائی تھی۔ دونوں خوش مزاج اور ذہین تھے اسی لئے جلد ہی ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ سلمان خوشحال والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ والدین کا ہندوستان سے باہر عمان میں بڑا کاروبار تھا۔ بچپن میں اس کے والدین ایک کار حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اُس کی پرورش اس کے تایا ابّا نے کی۔ والدین کا کاروبار بھی تایا ابّا سنبھال رہے تھے تاکہ وہ اپنی تعلیم پوری کرکے بزنس سنبھال لے۔ والدین کی کمی نے اُسے بہت حساس بنا دیا تھا۔ شازی کا خاندان غریبی کا شکار تھا۔ تعلیم مکمل کرکے اُسے خاندان کو غریبی کے دلدل سے باہر نکالنا تھا۔ مضبوط قوتِ ارادی کی مالک تھی۔ حالات کا مستقل مزاجی سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی رکھتی تھی۔ حالات کے تھپیڑوں نے اُسے بھی حساس بنا دیا تھا۔ دونوں کی دوستی نے ان کے ارادوں میں پختگی پیدا کر دی تھی۔ اگرچہ شازی اسکول کی سہیلیوں کی کمی محسوس کرتی تھی جو دوسرے کالج میں داخلہ لے چکی تھیں مگر وہ سلمان کی دوستی سے مطمئن تھی۔ شازی کو کالج کا ماحول بالکل پسند نہیں تھا۔ زیادہ تر طلبہ مالدار گھرانوں سے تھے۔ وہ الگ گروپ بنائے رکھتے اور غریب طلبہ کو حقارت سے دیکھتے۔
یہ بھی پڑھئے: افسانہ : ایک معمولی کہانی
شازی غریبی کے باوجود اپنی لگن میں مصروف تھی کہ اچانک اسے بڑا دھکا لگا جب سلمان نے اُسے بتایا کہ اس کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوچکا ہے اور وہ ڈاکٹر بننے کے خواب کو پورا کرنے کالج چھوڑ کر جا رہا ہے۔ میڈیکل کالج کے داخلے دیر سے شروع ہوتے ہیں اسی لئے داخلے کی اطلاع اُسے تاخیر سے ملی۔ دونوں کی دوستی اتنی گہری ہوچکی تھی کہ شازی اگر سلمان کو روکتی تو وہ رُک جاتا مگر دوستی خود غرض تو نہیں ہوتی ہے۔ شازی نے سلمان کے مستقبل کے لئے دعائیں دے کر اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ سلمان کے کالج چھوڑنے کے چند دنوں بعد شازی نے بھی کالج چھوڑ کر اُس گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا جس کالج کی اُس کی اسکول کی سہیلیاں تعریفوں کے پُل باندھا کرتی تھیں۔
نئے گورنمنٹ کالج میں بھی شازی نے اپنی شخصیت کا جادو جگایا۔ وہ کالج کے پروگراموں کی روح رواں بن گئی۔ انٹر کالجیٹ مقابلوں میں انعامات کا چرچا اخباروں کی زینت بننے لگے۔ کامیابی کے نشے نے سلمان کا خیال دل و دماغ سے نکال دیا۔ امتحانات میں نمایاں کامیابی نے میرٹ اسکالر شپ کا حقدار بنا کر تعلیمی اخراجات کی فکر کم کر دی، رات کو ٹیوشن کلاسیز میں پڑھا کر گھریلو اخراجات کا بار بھی بخوشی پورا کر دیا۔ حالات سے مطمئن شازی دل و جان سے خوابوں کی تکمیل میں جٹ گئی۔
اچانک ایک دن اُس پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جب اُس نے کالج کینٹین میں سلمان کو دیکھا۔ سلمان نے بڑی سادگی سے اُسے یہ خبر سنائی کہ اُس نے شازی کے کالج میں سائنس فیکلٹی میں داخلہ لیا ہے۔ شازی کو یہ بات بڑی عجیب لگی اور اُس نے پوچھ ہی لیا کہ سلمان پر ایسی کون سی مصیبت ٹوٹ پڑی کہ وہ میڈیکل کالج چھوڑ کر گورنمنٹ کالج کی سائنس فیکلٹی میں آگیا؟ بہت اصرار کرنے پر بڑی سادگی سے وہ بول پڑا، ’’شازی سچ کہوں تمہارے بنا وہاں پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ یوں بھی ڈاکٹر بن کر مجھے اپنا آبائی بزنس ہی سنبھالنا تو تھا۔ تمہارا ساتھ پا کر مَیں یکسوئی سے پڑھائی مکمل کر لوں گا۔‘‘ شازی کو نہ اس کی باتوں میں کوئی بناوٹ نظر آئی نہ دکھاوا۔ ایک مخلص دوست کا جذبہ اس کے چہرے پر صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ شازی اس کی دوستی کو دوبارہ پا کر بہت خوش ہوئی۔
ذہین، ملنسار اور خوش اخلاق سلمان بہت جلد اساتذہ کا منظور نظر بن گیا۔ مسٹر کالج کا انعام حاصل کرنے کے بعد تو ہر طالب علم اس کی دوستی کا خواہاں بن گیا مگر وہ تو صرف شازی کا دیوانہ تھا۔ شازی کی مقبولیت بھی کالج میں خوشبو کی طرح پھیل چکی تھی۔ کالج کے طلبہ اُس کی دوستی کے خواہشمند تھے مگر وہ تو زندگی کے خوابوں کی تکمیل میں مگن تھی۔ سلمان کی دوستی نے اس کے ارادوں میں پختگی پیدا کر دی تھی۔ دونوں ایک جان دو قالب ہونے کے باوجود دوستی کی پاکیزگی کا احترام بھی جانتے تھے۔
دنوں کو پَر لگتے دیر نہ لگی اور پلک جھپکتے دونوں کی پڑھائی مکمل ہوئی تو اُن کے ہاتھوں میں ڈگریاں تھیں اور ذہنوں میں مستقبل کے خوش آئند منصوبے تھے۔ شازی کو تدریس سے دلچسپی تھی اور سلمان کو بزنس سے۔ کالج کی الوداعی تقریب بڑی شاندار تھی۔ آٹو گراف لئے گئے کتنے دل ملے کتنے ہی جدا ہوئے۔ تقریب ختم ہونے پر دونوں شازی اور سلمان ساتھ ساتھ چل پڑے۔ شازی ہمیشہ کی طرح خوش تھی مگر سلمان چپ چاپ اور خاموش تھا۔
شازی نے فوراً پوچھ لیا، ’’کیا بات ہے سلمان؟ اتنے اداس اور خاموش کیوں ہو؟‘‘
جواب میں سلمان نے کہا، ’’شازی چلو چل کر کینٹین میں چائے پیتے ہیں۔‘‘
دونوں کالج کینٹین میں پہنچے۔ چائے کا آرڈر دینے کے بعد شازی نے خاموشی کو توڑ کر سلمان سے خاموشی اور اداسی کی وجہ جاننے کی کوشش کی۔ سلمان خاموش تھا مگر چہرے کی اداسی کچھ کہنا چاہتی تھی۔ شازی کے بہت اصرار پر سلمان نے خاموشی توڑ بڑے اداس لہجے میں شازی سے کہا، ’’شازی تمہاری دوستی نے میری تنہائی اور اداسی کو دور کرکے مجھ میں زندگی کا حوصلہ پیدا کر دیا ہے۔ میری خوشیاں تم سے وابستہ ہیں۔ مَیں تمہارے بنا جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آج جب ہم زندگی کے اس موڑ پر ہیں جہاں ہمیں اپنی خوشیوں کو حاصل کرنے کا پورا حق ہے، میں ہماری دوستی کو ایک خوبصورت رشتے میں باندھ لینا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں شرعی طور پر اپنا ہم سفر بنانا چاہتا ہوں۔ کیا تم میرا ساتھ دو گی؟‘‘
شازی کا چہرہ شرم سے گلنار ہوگیا۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے والی کیفیت شازی کی بھی تھی مگر جلد ہی اس نے اپنے جذبات پر قابو پایا اور کہا، ’’مَیں تمہاری محبت کا احترام کرتی ہوں مگر مَیں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہوں۔ میرے خاندان کو میری ضرورت ہے۔ اپنی خوشی کے لئے اُٹھایا ہوا کوئی قدم میرے خاندان کو اندھیروں میں دھکیل دے گا۔ میرے بھائی بہنوں کی ساری خوشیاں مجھ سے وابستہ ہیں، میں اپنی دنیا بسا کر اُن کی آنکھوں میں آنسو کیسے دیکھ سکتی ہوں؟ تم جیسا شریک حیات پا کر ہر لڑکی کو اپنی قسمت پر ناز ہوسکتا ہے مگر میں حالات کے ہاتھوں مجبور ہوں۔‘‘
سلمان نے شازی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، ’’شازی تمہاری ہر پریشانی کا احساس ہے مجھے۔ یقین کرو اپنا بنا کر بھی میں تمہیں تمہارے خوابوں کو پورا کرنے کا پورا موقع دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ تایا ابّا اب جلد از جلد کاروبار میرے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ شادی کرکے میں عمان چلا جاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ تم بھی جلد اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر میرے پاس آجاؤ گی۔ میرا تو اس دنیا میں کوئی نہیں ہے تمہارے سوا۔ میں چاہتا ہوں کہ کل ہی تمہاری والدہ سے مل کر تم کو اُن سے مانگ لوں شازی۔‘‘
شازی نے شرما کر سَر جھکا لیا گویا اپنی مرضی ظاہر کر دی۔
سلمان کے تایا ابّا بھی عمان سے آکر اُس کی آرزو پوری کرنے میں جٹ گئے، سلمان جیسا داماد پاکر شازی کے گھر والوں نے خوشی خوشی رشتہ قبول کر لیا اور بڑی سادگی سے دونوں کو شادی کے خوبصورت بندھن میں باندھ دیا۔
شازی کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ سلمان اس کی ہر ادا پر نثار تھا محبت نے شازی کے چہرے کو نکھار دیا تھا۔ دن رات دونوں ایک دوسرے کی محبت میں مگن تھے۔ دونوں کی خوبصورت جوڑی دیکھ لوگ عش عش کرتے تھے ایک دوسرے کو پا کر دونوں کو وقت کا اندازہ ہی نہ رہا کہ سلمان کا عمان جانے کا وقت آگیا۔ شازی نے ایک کالج میں انٹرویو دیا جہاں اُسے جلد ہی پڑھانا شروع کرنا تھا۔ تنخواہ بھی اچھی تھی اس کو تدریس سے دلچسپی بھی تھی اس لئے اُس نے حامی بھر لی۔ اپنی محبت کو چھوڑ کر جانا سلمان کے لئے بہت ناگوار تھا مگر زندگی کے تقاضے بھی پورے کرنے تھے۔ شازی کیلئے بھی سلمان سے دور رہنے کا خیال روح فرسا تھا مگر خاندان کے تئیں اپنے فرض کا خیال اُسے تھامے ہوئے تھا۔ پھر چند دنوں کے بعد تو اُسے سلمان کے پاس جانا ہی تھا۔
ایئر پورٹ پر سلمان کو الوداع کرتے ہوئے شازی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ رات کی فلائٹ تھی صبح ہوتے ہی عمان پہنچنا تھا۔ سلمان نے بھی بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا اور نم آنکھوں سے روانہ ہوا۔
شازی کی آنکھوں سے تو نیند روٹھ گئی تھی۔ ہر پل سلمان کے ساتھ گزارے ہوئے خوبصورت پل اُس کی آنکھوں میں بس گئے تھے۔ تہجد میں سلمان کی حفاظت کی دعائیں مانگتے فجر کی اذان ہوگئی۔ فجر کی نماز پڑھ کر وہ کالج جانے کے لئے تیاری کرنے لگی کہ اُسے گھر میں شور اور چیخیں سنائی دیں۔ معاملہ جاننے کے لئے وہ باہر کے کمرے میں آئی۔ ٹی وی پر نیوز ریڈر کی آواز نے اس کے کان میں سیسہ پگھلا دیا۔
’’ایئر انڈیا کا عمان جانے والا طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا ہے۔ طیارہ آگ کی لپٹوں میں جل کر کریش ہوگیا ہے۔ جہاز پوری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ مسافروں کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ حفاظتی عملہ جائے وقوع پر پہنچ چکا ہے۔‘‘
اس کے آگے کچھ سننے سے پہلے شازی بیہوش ہوکر زمین پر گر پڑی۔ اس کو ہوش میں لانے کی کوشش بے سود ہوئی تو ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ کافی کوشش کے بعد اسے جب ہوش آیا تو وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے آسمان کو تکنے لگی۔ خاموش، بے حس، بے جان سی۔ تھوڑی دیر بعد جب اس کی خالہ اماں نے اس کی ہری چوڑیوں کو توڑنے کی کوشش کی تو اس نے ہاتھ کھینچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ بھی نہ چھوٹا تھا۔ ہر ایک کا دل تڑپ اٹھا۔ ہوائی جہاز کی آگ نے سب کچھ جلا کر خاک کر دیا اور شازی کی زندگی بھی اگرچہ وقت نے اس کے رستے زخموں پر مرہم رکھ دیا تھا مگر سلمان کی یاد اب اس کی زندگی کی ساتھی تھی۔
تدریس کے شوق میں اس نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ سلمان کی یادیں اُس کی زندگی کی ساتھی تھیں۔
’’میڈم آپ کی چائے۔‘‘ کامن روم کے پیون نے چائے کا کپ اُس کے سامنے رکھ کر آواز دی تو اس کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا۔ اگلے لیکچر کی گھنٹی نے اسے خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا اور وہ سب کچھ ذہن سے جھٹک کلاس روم کی طرف چل پڑی۔
(افسانہ نگار برہانی کالج، ممبئی سے وابستہ رہی ہیں)