• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بچوں میں اے ڈی ایچ ڈی: علامات، مسائل اور علاج

Updated: September 25, 2024, 3:15 PM IST | Tayyaba Israr Ahmed | Mumbai

ایک نیورو ڈیولپمنٹل ڈس آرڈر ہے۔ یہ دماغ کی نشوونما اور دماغی سرگرمیوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے متاثر ہونے والے کے، رویے، جذبات اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ باقاعدگی سے جسمانی ورزش، مراقبہ، بھرپور نیند اور صحت بخش غذا کا استعمال اس مسئلہ کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے

Praise and encourage the child at every step. This will increase self-confidence. Photo: INN
ہر قدم پر بچہ کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ تصویر : آئی این این

اگر ہم اپنے اطراف کا جائزہ لیں تو بچوں میں توجہ کی کمی، بے صبری، بغیر سوچے سمجھے فوری جواب دینا، زیادہ دیر تک مطالعہ نہ کر پانا، کسی کام سے جلد بور ہو جانا جیسی عادتیں عموماً نظر آتی ہیں۔ مائیں ان باتوں کو عام (نارمل) خیال کرکے خاطر خواہ توجہ نہیں دیتیں۔ جبکہ کسی بچے میں ان عادات کا پایا جانا ایک دماغی مسئلہ کی طرف اشارہ ہے، جسے اٹینشن ڈیفسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) توجہ کی کمی بیش فعالیت کہتے ہیں۔
اے ڈی ایچ ڈی کیا ہے؟
 اے ڈی ایچ ڈی ایک نیورو ڈیولپمنٹل ڈس آرڈر ہے۔ یہ دماغ کی نشوونما اور دماغی سرگرمیوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے متاثر ہونے والے کے،  رویے، جذبات اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اگرچہ اے ڈی ایچ ڈی میں چند نفسیاتی پہلو شامل ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر دماغی افعال اور ساخت سے متعلق ہے۔ اس اعصابی خلل سے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے متاثر بچوں کو حصول تعلیم اور سماجی رابطوں میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے جذباتی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اے ڈی ایچ ڈی کا شکار بچے اضطراری رویوں پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ اس سے ان کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس کے بنیادی سبب کا تعین اب تک نہیں ہو پایا ہے۔ تاہم، یہ موروثی ہوسکتا ہے۔ قبل از وقت پیدائش، دماغ کی سوجن اور دماغ کی چوٹ کو ای ڈی ایچ ڈی کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔
 تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں اسکول جانے والے بچوں میں اے ڈی ایچ ڈی کی شرح تقریباً ۷؍ فیصد ہے۔ ماؤں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اے ڈی ایچ ڈی کی علامات پہچانیں اور اس کے سدباب کی کوشش کریں:
اے ڈی ایچ ڈی کی علامات
٭عدم توجہی/ کسی کام پر توجہ مرکوز کرنے میں دشواری ٭کسی کام سے جلد بیزار ہو جانا ٭کاموں کو منظم طریقے سے انجام نہ دینا ٭روز مرہ کی سرگرمیوں کو بھول جانا ٭کام کی تکمیل میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنا ٭ضرورت سے زیادہ باتیں کرنا ٭نتائج پر غور کئے بغیر کام کرنا ٭غیر مناسب تبصرے کرنا ٭جذبات کو قابو نہ کر پانا ٭بہت زیادہ متحرک ہونا ٭تناؤ محسوس کرنا۔
درپیش مسائل
تعلیمی مشکلات: توجہ کی کمی کے سبب نئی چیزوں کو سیکھنے کے عمل میں دشواری پیدا ہوتی ہے جس سے وہ ساتھی طلبہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
سماجی مشکلات: اضطراری طبیعت کی وجہ سے بچوں کو سماجی تعلقات اور دوستی برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ سماجی تنہائی اور احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔
جذباتی مشکلات: اے ڈی ایچ ڈی کا شکار بچے اپنے جذبات قابو میں نہیں رکھ پاتے جس کی وجہ سے جذباتی اشتعال پیدا ہوتا ہے، یہ خاندان کے افراد، اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ ان کے تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔
مائیں کیا کریں؟
 بچہ میں اے ڈی ایچ ڈی کی علامات ظاہر ہونے پر ماہرین سے رجوع کرنا چاہئے۔ ان کی تجاویز پر عمل کرکے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ باقاعدگی سے جسمانی ورزش، مراقبہ، بھرپور نیند اور صحت بخش غذا کا استعمال اس مسئلہ کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ اے ڈی ایچ ڈی سے متاثرہ بچے تعلیمی میدان میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے مائیں مختلف حکمت عملی سے بچوں کیلئے ایک معاون ماحول فراہم کر سکتی ہیں۔
 ایک روٹین قائم کریں۔ روزانہ کی سرگرمیوں کیلئے ایک مستقل شیڈول بنائیں، اور سختی سے اس پر عمل کریں۔ ہوم ورک، کھیل کود، مطالعہ اور دیگر سرگرمیوں کیلئے وقت مقرر کریں۔ یہ بچوں کو منظم رہنے میں معاون ثابت ہوگا۔
 کاموں کو چھوٹے چھوٹے مراحل میں تقسیم کریں اس طرح وہ جلد بیزار نہیں ہوں گے۔ اور کام مکمل ہونے پر انہیں کوئی انعام دیں۔
 شور و غل سے پاک اور پر سکون ماحول فراہم کریں تا کہ بچہ یکسوئی سے مطالعہ کر سکے اور دیگر سرگرمیاں اطمینان سے انجام دے سکے۔ ذہن کو منتشر کرنے والے عوامل بچوں سے دور رکھیں۔ 
 معلومات کو دلچسپ انداز میں پیش کریں تا کہ بہتر طریقے سے سمجھنے اور یاد رکھنے میں آسانی ہو۔
 ہر قدم پر بچہ کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ 
دیگر تدابیر 
ایسے ورکشاپس کا انعقاد جس میں اے ڈی ایچ ڈی سے آگاہی، اس کی علامات اور چیلنجز سے لوگوں کو روشناس کرایا جا سکے۔
 پوسٹرس اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے متعلق بیداری پیدا کی جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK