Inquilab Logo

بھیونڈی کی عائشہ قاضی جو محکمہ دفاع میں سینئر سائنٹسٹ کے عہدہ کی حقدار بنی ہیں

Updated: February 21, 2024, 12:27 PM IST | Shaikh Akhlaque Ahmed | Mumbai

اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والی عائشہ نے ایم ٹیک کے بعد سول سروس امتحان کی تیاری کی، اسٹاف سلیکشن امتحان کامیاب ہوئی اور ملازمت کرتے ہوئے مذکورہ بھرتی امتحان کامیاب کیا۔

Ayesha Qazi can be seen outside the UPSC headquarters. Photo: INN
عائشہ قاضی یوپی ایس سی کے صدر دفتر کے باہر دیکھی جاسکتی ہیں۔ تصویر : آئی این این

آج آپ کی  ملاقات قوم کی اس ہونہار بیٹی سے کروارہے ہیں جو یوپی ایس سی کا ایک امتحان کامیاب کرکے’سینئر سائنٹسٹ‘ کے عہدہ کی حقدار بنی ہیں۔  پارچہ بافی کی صنعت کے لئے مشہور شہر بھیونڈی سے تعلق رکھنے والی بچی نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کو اپنا بنیادی ہدف بنایا اور اردو میڈیم اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی اوراب  شہر بھیونڈی کی اولین مسلم افسر کا اعزاز حاصل کرنے جارہی ہیں۔ جی ہاں عائشہ ایاز احمد قاضی وہ فی الحال حکومت ہند کے ٹیکسٹائل منسٹری میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں  اور جلد ہی وہ محکمہ دفاع میں سینئر سائنٹسٹ ہوں گی۔ 
عائشہ قاضی نے ٹیکسٹائل انجینئر میں ویرماتا جیجابائی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ ممبئی سے بی ٹیک اور بعد ازیں دو سال ایک پرائیوٹ فرم میں ملازمت کی۔  بعد ازیں پھر سے VJIT کالج جوائن کرکے  ایم ٹیک کی ماسٹر ڈگری مکمل کی۔  فی الوقت وہ سروس میں رہتے ہوئے گجرات ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی احمد آباد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ عائشہ نے سروس کے دوران ہی IGNOU سے پوسٹ گریجویشن ڈپلوما اِن انٹرنیشنل بزنس آپریشن کی ڈگری بھی مکمل کی ہے۔ 
عائشہ قاضی کا یہ تعلیمی سفر کیسا رہا؟
عائشہ قاضی کا تعلیمی سفر رفیع الدین فقیہ گرلز پرائمری اسکول سے شروع ہوا بعد ازیں اقصیٰ گرلز اسکول سے دسویں کا امتحان۸۱؍ فیصد نمبرات سے کامیاب کیا اور رئیس ہائی اسکول جونیئر کالج میں داخلہ ہوا۔ عائشہ کے بقول ’’یہاں ماہر اساتذہ کی رہنمائی ملی بالخصوص ضیاء الرحمٰن سر و دیگر اسٹاف کی رہنمائی سے میں نے بارہویں کا امتحان ۷۸؍ فیصد نمبرات سے کامیاب کیا۔‘‘ 
ٹیکسٹائل شعبہ میں اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل کی ؟
 عائشہ نے بتایا کہ’’ کچھ ہٹ کر کر دکھانے کی چاہ، والد صاحب کی بھیونڈی شہر کی پاورلوم انڈسٹری کو مضبوط کرنے کی خواہش اور ٹیکسٹائل میں کرئیر بنانے کے شوق نے مجھے VJIT پہنچا دیا، چند مسائل کی وجہ سے چار سال کی ڈگری پانچ سال میں مکمل ہوئی۔‘‘
مقابلہ جاتی امتحان کی طرف کیسے راغب ہوئیں؟
ایم ٹیک کے بعد مقابلہ جاتی امتحان کی طرف متوجہ ہونے سے متعلق عائشہ نے بتایا کہ’’ ایم ایم ٹیکسٹائل میں ویونگ سپروائزر ایک سال، بھوپالی گروپس میں اسسٹنٹ پروڈکشن انچارج۲؍ سال، ڈیورا ٹیکس سلک مل انڈیا لمیٹڈ، ممبئی میں بطور اسسٹنٹ مینیجر ان ویونگ اینڈ پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ۲؍  سال ان کمپنیوں میں ملازمت کے بعد مجھے اچھا خاصہ تجربہ حاصل ہوا۔ اسی دوران ایک روز اخبار میں حج ہاؤس کوچنگ کا اشتہار نظروں سے گزرا، انٹرنس امتحان دیا اور کامیابی ملی اور میں چند مہینوں کے لئے جج ہاؤس پہنچی یہیں سے ذہن کے دروازے کھلے اور مقابلہ جاتی امتحان کا شوق پیدا ہوا۔‘‘
پریلیم میں ناکامی کے بعد عائشہ نے کیا کیا؟
  عائشہ نے بتایا کہ ’’ یو پی ایس سی امتحان کی پہلی کوشش میں پریلیم میں ناکامی ملی، پوسٹل سروس کا امتحان دیا کامیاب ہوئی  لیکن پوسٹنگ نہیں ہوئی چونکہ میں نے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں پروفیشنل کورس کیا تھا اسلئے میں نے اس سے ریلیٹیڈ محکموں میں جاب تلاش کرنے کا فیصلہ کیا، پھراسٹاف سلیکشن کمیشن امتحان  کا فارم آیا امتحان اَپیئر کیا ، انٹرویو ہوا اور مجھے مرکزی حکومت کی ٹیکسٹائل منسٹری کے ماتحت ویورس سروس سینٹر میں ملازمت کا موقع ملا ۔ والدین کی رضا مندی کے بعد میں احمد آباد آئی اور یہاں مختلف پروجیکٹس پر کام کیا، کئی تحقیقی پیپر پریزنٹس کئے،’’ہندوستان کی ہینڈلوم ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خواتین ہینڈلوم بنکروں کا کردار‘‘پر آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام نشر کیا۔ اسی دوران یو پی ایس سی کا اشتہار نظروں سے گزرا جس میں شریک ہوئی،  میرٹ اور ورک پروفائل کی بنیاد پر مجھے گزشتہ سال دسمبر میں انٹرویو کا موقع ملا، اسی ماہ الحمد میرا نام سلیکشن لسٹ میں  آیا،  میرا انتخاب دفائی محکمہ کے DGAQA ڈائریکٹر جنرل آف ائیروناٹیکل کوالیٹی اشورنس کے شعبہ میں بطور سینئر سائنٹفک اسسٹنٹ(ٹیکسٹائل) گیزیٹیڈ گروپ بی پوسٹ کے لئے ہوا ہے۔
طلبہ کے نام پیغام
 عائشہ نےاس ضمن میں کہا کہ’’ اپنا نصب العین طئے کریں، مشکل لگنے پر کسی چیز کو چھوڑ نہ دیں نہ ہی ہمت ہاریں بلکہ اپنے دوستوں اساتذہ اور گھر والوں سے بغیر شرمائے اپنے مسائل بیان کریں ، ان کی  مدد لیں۔ یاد رکھئے کامیابی کیلئے منصوبہ بندی اور مستقل مزاجی بہت اہم ہے۔‘‘  عائشہ نے اپنی فیملی سے متعلق بتایا کہ’’ ہمارا آبائی وطن جُنّر(پونے)  ہے، داداجان بھیونڈی میں ٹیچر تھے والد بھارت سنچار نگم میں ملازم تھے چند سال قبل سبکدوش ہوئے ہیں۔  میں والدین کی شکرگزار ہوں جنہوں نے ہم  بہنوں پر اعتماد کیا ہمیں اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور اس کیلئے بھیونڈی کو خیرآبادکہہ کر کلیان میں سکونت ختیار کر لی۔ میں بالخصوص لڑکیوں سے کہنا چاہوں گی کہ وہ اپنے والدین کا بھروسہ قائم رکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور سرکاری ملازمتوں کے مواقع تلاش کریں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK