Inquilab Logo Happiest Places to Work

بچوں پر اتنا دباؤ نہ ڈالیں کہ وہ سکون سے سوبھی نہ سکیں

Updated: October 10, 2023, 12:18 PM IST | Odhani Desk | Mumbai

کم عمری ہی میں بچوں کو بتادیا جاتا ہے کہ انہیں کیابننا ہے؟ گھر والےاپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے دن رات ایک کردیتےہیں۔ بچہ دلچسپی نہیں لیتا تو اس کے پیچھے پڑجاتےہیں ، ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے، اسے ہر وقت کتابوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں اور پڑھنے پر اصرار کر تے ہیں۔

Don`t stop children from playing, let them live their childhood for the rest of their lives, this way their mental development takes place. Photo: INN
بچو ں کو کھیلنےسے نہ روکیں ،انہیں جی بھر کے اپنا بچپن بھی جی لینے دیں ، اس طرح ان کی ذہنی نشو ونما ہوتی ہے۔ تصویر:آئی این این

ماہرین تعلیم نے اس پر بہت لکھا ہے کہ بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے پر اصرار مت کیجئے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے بہت سے کو رسیز ہیں جو بچوں کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ خیر موضوع گفتگو یہ نہیں  ہے۔ اصل موضوع یہ ہے کہ آ پ اپنے بچے پر امیدوں کا بوجھ نہ ڈالئے۔ آپ بچے کے مستقبل کیلئے جو بھی طے کیجئے ، اس پر اڑ مت جائیے ، اس میں گنجائش چھوڑیئے۔ ہمارے ہاں کم عمری ہی میں بچوں کو بتادیا جاتا ہے کہ انہیں کیا بننا ہے؟ پھر گھر والےاپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے ا یڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں ، دن رات ایک کردیتے ہیں۔ بچہ دلچسپی نہیں  لیتا تواس کے پیچھے پڑجاتےہیں ، اسے ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے ،اسے ہر وقت کتابوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے زبر دستی پڑھانے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس زور زبر دستی کا شاذو نادر ہی فائدہ ہوتا ہے۔ بچے کی عمر کے ابتدائی مراحل ہی اندازہ لگائیے کہ وہ آپ کی اُمیدوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس کیلئے تیار نہ ہو تو اس کی دلچسپی معلوم کیجئے ، کسی ماہر سے مشورہ کیجئے کہ آ پ کا بچہ کیا کرسکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے ماہرین کی مدد لیجئے جو بچوں کے ساتھ تھوڑی دیر رہ کر ان کی دلچسپیوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں اور ان کے مستقبل کا رخ طے کر دیتے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو بعد میں پچھتا ئیں گے اور افسوس کریں گے ، کیونکہ آپ کا بچہ امیدوں  کے بوجھ تلے اتنا دب جائےگا کہ اس کی رات کی نیند بھی پوری نہ ہوسکے گی۔ وہ سکون سے رہ نہیں  سکےگا۔ جہاں بھی رہے گا، اُمید وں کا پہاڑ اسے پریشان کرتا رہے گا۔ اس طرح اس کی صحت متاثر ہوگی۔ اس وقت اس کی مثال ایسی ہوتی جیسے کسی پودے میں  پانی کی ضرورت ہو اور کوئی اس میں  کھاد ڈال دے تو وہ سوکھ جاتاہے۔ تنا ور درخت نہیں بن پاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح بچوں کے ساتھ زبر دستی نہ کیجئے اور انہیں درخت بننے پہلے ہی مرجھانے سے بچائیے۔ 
بارہا بچوں کو دلچسپی نہ ہونے کے باوجود انہیں ان کا ہدف اتنی مر تبہ یا ددلایا جاتا ہے کہ وہ ان کیلئے ڈراؤنا خواب بن جا تا ہے۔ وہ جہاں  بھی جاتےہیں ، انہیں بس اپنے گھر والوں کی پڑھائی لکھائی کی نصیحتیں اور مشورے ہی یاد آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ان کے کان بھی بجنے لگتے ہیں۔ انہیں  ایسا لگتا ہےکہ ان کی امی کہہ رہی ہیں ،’’بیٹا پڑھ لو ، ورنہ ایم بی بی ایس نہیں  نکال سکو گے۔ ‘‘ 
  ذرا غور کیجئے کہ جو بچہ بالکل ابتدائی جماعت میں ہے ، اسے ایم بی بی ایس کا سبق یاد دلا نا کتنا مناسب ہے؟ کیا اس سے وہ ترقی کرے گا ؟ یا اسی کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوگا ۔ گھر والے کم ازکم نو یں  اور دسویں جماعت میں اس طرح کا کوئی ہدف طے کریں۔ وہ بھی اُن کا رجحان اور دلچسپی دیکھ کر ، یو ں ہی نہیں ہے ۔ دیکھئے دکاندار دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بہت سے دکاندار پہلے ہی سے یہ طے کر لیتے ہیں کہ فلاں چیز کی دکان کھولنی ہے ، بس ، کچھ بھی ہوجائے۔ اس کے مقابلے میں کچھ دکاندار ایسے ہوتے ہیں جو دکان کی جگہ دیکھ کر طے کرتے ہیں کہ کس چیز کی دکان کھولنی ہے ؟ دوسرے قسم کے دکاندارا کثر کامیاب ہوتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح بچوں کی تعلیم میں  ہوتا ہے، جن گھروں  میں کچھ سوچے سمجھے بغیر بچوں کیلئےکوئی ہدف طے کردیاجاتا ہے ، ان گھروں کے بچے پریشان ہوجا تےہیں اور نتیجےکی فکر میں رہتے ہیں۔ راتوں کو سونا کم کردیتے ہیں۔ ان کی خوراک بھی کم ہوجاتی ہے ۔ ناکامی کی صورت میں  یہ بچے انتہائی قدم بھی اٹھالیتےہیں۔ ایسے بچوں کے والدین جب کبھی اپنے بچے کو خالی بیٹھا دیکھتے ہیں تو پریشان ہوجاتے ہیں بلکہ کڑھنے لگتے ،یہ چیز بچوں کو حساس بنا دیتی ہے اور قدرتی طور پر پریشان بھی کر دیتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ پر سکون اور آرام سے رہنے کی عادت کو بھولنے لگتے ہیں۔ صبح اٹھ کر اسکول کی تیاری کر نا پھر اسکول کی بس پکڑ کر اسکول جانا، اس دوران بچے سخت دباؤ کا شکار رہتے ہیں اور وہ اس وقت تک دباؤ کا شکار رہتے ہیں جب تک وہ گھر نہیں آجاتے۔ انہیں گھر اور اسکول کہیں بھی سانس لینے کا مو قع نہیں ملتا۔ وہ گھر میں آکر ہو م ورک ختم کر نے کی جلدی میں رہتے ہیں اور جب انہیں کھیلنے کا کچھ وقت ملتا ہے تو وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بہت بری طرح  تھک اور اکتا چکے ہو تے ہیں۔ یہ مصروفیت ان کے دماغ اور جسم کو تھکا دیتی ہے اور ان کی راتوں کی نیند اڑا دیتی ہے ۔ لوگ سوچتےہیں  کہ بچہ جتنا تھکا ہو گا اس کو اتنی ہی گہری نیند آئے گی لیکن ایسا جسمانی محنت کی صورت میں ہوتا ہے۔ جب بچہ جسمانی اور ذہنی دونوں طور پر تھکا ہوگا توسکون سے سونہیں   سکےگا۔ ماہرین کے مطابق بچہ ذہنی طور پر تھکا ہوا ہوگا تو جلدی سوجائے گا مگر کب تک ؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا، باربار اس کی نیند کھلے گی۔ان کے مقابلے میں جن خاندانوں میں رجحان اور دلچسپی دیکھ کر بچے کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا ہے، ان  کے بچے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے اور خطے بھی نام روشن کرتے ہیں اور اکثر کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK