Inquilab Logo

کیا آپ اپنی ہر بیماری کیلئے ’’انٹرنیٹ ڈاکٹر‘‘ کی مدد لیتی ہیں؟

Updated: September 19, 2023, 7:39 AM IST | Odhani Desk | Mumbai

انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ، خاص طور پر خواتین کسی بھی بیماری کے بارے میں یا اس کے علاج کی بابت جاننے کیلئے انٹرنیٹ کی مدد ہی نہیں لیتیں، اس پر بھروسہ بھی کر لیتی ہیں۔ حالانکہ اس کے سبب غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور مرض بڑھنے کاخدشہ رہتا ہے

Photo: INN
تصویر: آئی این این

بال جھڑ رہے ہیں تو انٹرنیٹ پر اس کا علاج تلاش کرنا شروع کر دیا۔ سانس پھولنے لگی، انٹرنیٹ پر اس سے متعلق معلومات حاصل کرنی شروع کر دی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس پر کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ، خاص طور پر خواتین کسی بھی بیماری کے بارے میں یا اس کے علاج کی بابت جاننے کیلئے انٹرنیٹ کی مدد ہی نہیں لیتیں، اس پر بھروسہ بھی کر لیتی ہیں۔ حالانکہ اس کے سبب غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور مرض بڑھنے کاخدشہ رہتا ہے، یہاں تک کہ مرض سنگین صورتحال اختیار کر لیتا ہے۔ ایک خاتون کی طبیعت خراب تھی، انہوں نے جانچ کروائی، معلوم ہوا کہ انہیں بریسٹ کینسر ہے۔ پھر کیا تھا انہوں نے اس سے متعلق انٹرنیٹ پر موجود معلومات پڑھنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ان کے ذہن میں کئی باتیں گردش کرنی لگیں۔ کینسر کے علاج کے بارے میں پڑھ کر وہ خوف میں مبتلا ہوگئی اور کیمو تھیراپی کے لئے انکار کر دیا۔ پھر کئی دن ان کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ اس کے بعد وہ علاج کیلئے راضی ہوئی۔ خیر بروقت علاج کروانے کی وجہ سے وہ صحتمند ہوگئی۔ اگر انٹرنیٹ کی معلومات پر یقین کرکے علاج نہ کرواتیں تو عین ممکن تھا کہ موجودہ صورتحال مختلف ہوتی۔
مثال سے صورتحال کو سمجھئے
 آپ کو آدھی رات کو پیٹ کے نیچے بائیں جانب درد محسوس ہوتا ہے۔ آپ اٹھتی ہیں اور ٹہلتی ہیں لیکن درد کم نہیں ہوتا۔ آپ علامات ٹائپ کرکے انٹرنیٹ پر تلاش کرتی ہیں۔ بہت سی ویب سائٹس بتائیں گی کہ یہ قبض یا ڈائیورٹیکولائٹس یا گردے کی پتھری یا مثانے میں انفیکشن، گیس وغیرہ کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ آپ کی توجہ سنگین مرض کی جانب جاتی ہے۔ اس کے بعد ذہن پر دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ دوبارہ سونے کی کوشش کرتی ہیں مگر نیند نہیں آتی۔
 کچھ معاملات میں مریض انٹرنیٹ پر اپنی حالت اور علامات کے بارے میں معلومات تلاش کرتا ہے اور پھر ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ وہ اکثر جو کچھ پڑھتا ہے اس کی بنیاد پر بے بنیاد سوالات کرتا ہے۔ اگر ڈاکٹر نے دوائیں لکھی ہیں تو انٹرنیٹ پر ان کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد سوال کرتا ہے کہ اگر یہ دوا کسی اور شکایت کیلئے ہے تو مجھے کیوں دی گئی؟ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ایک دوا کئی طریقوں سے علاج میں مدد کرسکتی ہے، یہ بات تجربہ کار ڈاکٹروں کو اچھی طرح سے معلوم ہوتی ہے۔
انٹرنیٹ پوری بات سے واقف نہیں ہوتا
 ویب سائٹس پر مریض کی میڈیکل ہسٹری اور دیگر علامات کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، جو درست تشخیص کے لئے ضروری ہیں۔ ذیابیطس اور دل کی بیماریاں خاص طور پر ہندوستان میں عام ہیں۔ ایسی صورتحال میں غلط تشخیص مریض کی حالت کو مزید خراب کر سکتی ہے۔
اپنی صحت کے ساتھ کھلواڑ
 سر میں درد اور جسم میں پانی کی کمی تھکان کی علامات ہوسکتی ہیں اور سنگین صورت میں یہ کینسر کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ اس لئے عام آدمی کے لئے انٹرنیٹ پر پڑھ کر اپنی بیماری کی صحیح تشخیص کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی سنگین بیماری کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا بعض صورتوں میں کوئی غیر ضروری طور پر کسی سنگین بیماری کی فکر کرنے لگتا ہے۔
صرف ماہرین ہی صحیح بتا سکتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ٹیسٹ کروانے کے بعد لوگ انٹرنیٹ کی مدد سے اس کے نتائج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ماہرین سے مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ جیسے ہی خون کی رپورٹ آتی ہے، لوگ انٹرنیٹ پر تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے پیرامیٹرز جیسے خون میں گلوکوز، کولیسٹرول اور جگر کے خامروں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم، یہ پیرامیٹرز بہت سے عوامل سے منسلک ہوسکتے ہیں۔ صرف ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر ہی رپورٹ پڑھ سکتا ہے اور صحیح نتیجہ اخذ کرسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ بلڈ شوگر لیول بڑھنا ذیابیطس کی علامت ہو۔ یہ کھانے کی عادات، ذہنی تناؤ اور یہاں تک کہ کچھ ادویات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ ایک ڈاکٹر ہی آپ کی رپورٹ کے بارے میں حتمی رائے دے سکتا ہےکیونکہ وہ آپ کی فیملی ہسٹری، موجودہ صورتحال اور تمام علامات کا جائزہ لیتا ہے۔ اس لئے صرف رپورٹ میں دیئے گئے پیرامیٹرز کو دیکھ کر درست تشخیص نہیں کی جا سکتی۔
چند توجہ طلب باتیں
-فوری حل، دو دن یا دو ہفتوں میں مسئلہ ختم، گھریلو علاج سے ٹھیک ہونے جیسے دعووں پر ہرگز یقین نہ کریں۔
-ایک علامت کے پیچھے متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں اس لئے انٹرنیٹ پر سرچ کرکے کوئی نتیجہ اخذ نہ کریں بلکہ فیملی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
-معمولی بیماری یا فٹ نیس سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے مستند ویب سائٹس کی مدد لیں۔ 
-اپنی بیماری کو نظرانداز نہ کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK