اسلام کی راہ میں اپنی خدمات انجام دینے والی خواتین با ادب، باعلم و عمل تھیں۔ انہوں نے اپنےعلم و استعداد، عمل اور قابلیت سے انسانی معاشرے میں ایک انقلاب برپا کیا۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عورت گھر کی زینت ورونق تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ رفیق سفر کی مشیر کار بھی ہے، سیاست،ایڈمنسٹریشن اور شعبہ تعلیم میں بھی اس کی خدمات اپنی مثال آپ ہیں.
موجودہ دور میں خواتین گھر کی باگ دوڑ کے ساتھ ساتھ باہری ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھا رہی ہیں۔ تصویر:آئی این این
اللہ رب العزت نے اس کائنات میں مختلف مخلوقات کی تخلیق کی اور انہیں مختلف گروہوں میں اپنے اوصاف کے مطابق منقسم کر دیا۔ مختلف گروہوں پر مختلف فرائض عائد کئے اور ان فرائض پر عمل کرنے کے لئے درکار جسمانی اور دماغی صلاحیتیں انہیں عطا کیں۔ انسانوں کے دو گروہ مرد اور عورت کو الگ الگ اوصاف، الگ الگ ذمہ داریوں اور الگ الگ فرائض سے سرفراز کیا۔ زندگی گزارنے کے لئے اور نسل نو کی تکمیل کے لئے دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ٹھہرے۔
کہا جاتا ہے کہ عورت صفات و کمالات کا متضاد مجموعہ ہوتی ہے۔ اگر یہ باشعور ہو تو زندگی کو گلزار بنا دیتی ہے اور بے شعور ہو جائے تو زندگی کو بے کار بھی کرسکتی ہے۔ نرمی پر آئے تو گل سے زیادہ نرم و نازک ہے اور سختی میں چٹان ہے۔ ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی متعدد مثالیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں عورتوں نے کمال فن سے تخت و تاج کو سنبھالا، جنگ وجدل میں دشمن کا مقابلہ کیا، اس کی ہمت و استقلال نے دشمن کو سرنگوں ہونے پر مجبور کیا، سلطنتیں ان کے اشارۂ چشم و ابرو پر چلتی رہیں ، ان کے تدبراور فہم وفراست نے سلطنتوں میں نئے قوانین وضع کئے۔
مذہب اسلام نے عورت کے مقام و مرتبے کو جس طرح سے متعین کیا کسی بھی مذہب اور ضابطۂ حیات نے عورت کی حقیقت اور اس کے مقام کو نہیں سمجھا ہے۔ اسلامی افکار و تمدن کی وجہ سے عورت کے مقام و مرتبے کے بارے میں انقلاب رونما ہوا۔ انسانی حقوق کے بارے میں مذہب اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان کسی طرح کا امتیاز نہیں کیا گیا بلکہ قرآن مجید میں عورتوں اور مردوں سے یکساں طور پر خطاب کیا گیا ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو وہ مقام اور مرتبہ دیا ہے کہ وہ بیٹی ہوئی تو والدین کے جگر کا ٹکڑا ہوئی، بیوی ہو کر قابل محبت ٹھہری، ماں بن کر اس قدر قابل احترام کر دی گئی کہ اللہ نے اس کے قدموں میں جنت رکھ دی۔اسلام نے عورت کو جو حقوق اور آزادی دی ہے اس میں علوم منافع کے حصول کی آزادی بھی شامل ہے کہ وہ جس قدر چاہے علم حاصل کرے۔ عورت کو وراثت میں حق دیا گیا ہے اور رفیق زندگی کے انتخاب میں بھی خودمختاری دی گئی ہے۔ قرآن نے زندگی گزارنے کے لئے احسن تعلیمات دی ہیں ، جن میں اس کی بہتری کیلئے حدود کا تعین اور برتری کے لئے راہ عمل بھی ہے۔ حضرت فاطمہؓ اور ازواج مطہرات کے کردار، ان کا اسلوب زندگی ہمارے لئے مشعل راہ رہا ہے۔ اسلام کی راہ میں اپنی خدمات انجام دینے والی خواتین با ادب، باعلم و عمل تھیں ۔ انہوں نے اپنےعلم و استعداد، عمل اور قابلیت سے انسانی معاشرے میں ایک انقلاب برپا کیا۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عورت گھر کی زینت ورونق تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ رفیق سفر کی مشیر کار بھی ہے، سیاست، ایڈمنسٹریشن اور شعبہ تعلیم میں بھی اس کی خدمات اپنی مثال آپ ہیں اور خواتین نے اپنے فضل و کمال اور علم و ہنر سے اپنا لوہا منوایا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ان اشعار میں عورت کی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ؎
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
ان اشعار میں علامہ اقبال عورت کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا کی تصویر میں رنگ صرف عورت کی ہی وجہ سے ہیں ۔ عورت اس ساز کی طرح ہے جس سے نکلنے والے نغمے زیست میں اندرونی سوز برپا کر دیتے ہیں ۔ عورت بنی تو خاک سے ہے لیکن وہ برتری میں ثریا سے بھی بڑھ کر ہے یعنی عورت سر بلندی اور عظمت کا بلند مینار اور سرچشمہ ہے۔ آخری شعر میں اقبال نے افلاطون کا ذکر کیا ہے جو ایک عظیم یونانی فلسفی تھا اور اس کی کتاب ’’مکالمات فلاطوں ‘‘ فلسفے پر مبنی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کہتے ہیں کہ بھلے ہی عورت نے کتاب ’’مکالمات فلاطوں ‘‘ نہیں لکھی ہے لیکن جس شخص نے یہ عظیم تصنیف رقم کی ہے اسے ایک عورت نے ہی جنم دیا ہے۔ (اس میں افلاطون کی ماں کی طرف اشارہ ہے) ایک عظیم شاعر نے ان الفاظ میں ایک عظیم ہستی (عورت) کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ مذہب اسلام کے ذریعے دیئے گئے حقوق و فرائض کی پاسداری کریں ، اللہ کے احکامات پر عمل کریں ، اپنی حدود میں رہ کر علم حاصل کریں ، اپنے افعال کی انجام دہی کریں ، زندگی کے تمام شعبہ جات میں اپنی ذمہ داریوں کو قرآن کی مقرر کردہ حدود میں نبھائیں ، زندگی میں اعتدال کو قائم رکھیں ، اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگواریت اور فہم و تدبر کے ساتھ گزاریں تو ان شاء اللہ کائنات کی اس تصویر کے یہ خوبصورت رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑیں گے۔