حمیرا سلطانہ قریشی نے شوہر کے انتقال کے بعد اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم پر دی اور ان کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑا بیٹا انجینئر اور چھوٹا بیٹا ڈاکٹر ہے۔
EPAPER
Updated: June 25, 2025, 1:00 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai
حمیرا سلطانہ قریشی نے شوہر کے انتقال کے بعد اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم پر دی اور ان کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑا بیٹا انجینئر اور چھوٹا بیٹا ڈاکٹر ہے۔
شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ وہ تنہا کس طرح بچوں کی پرورش کرے؟ حالانکہ معاشرے میں بے شمار مثالیں ایسی ہیں کہ خواتین محنت مشقت کرکے تنہا اپنے بچوں کو پالتی ہیں اور بہتر تربیت دے کر انہیں معاشرے کا باعزت فرد بناتی ہیں۔ ایسی خواتین میں حمیرا سلطانہ شاکر حسین قریشی بھی ہیں جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ ان کے شوہر بھی ڈاکٹر تھے۔ ۲۰۰۶ء میں حرکت قلب بند ہوجانے سے ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اُس وقت ان کا بڑا بیٹا دوسری جماعت جبکہ چھوٹا بیٹا پہلی جماعت میں تھا۔ حمیرا سلطانہ کی محنت ہی کا پھل ہے کہ اب ان کا بڑا بیٹا انجینئر ہے اور جاب کر رہا ہے اور چھوٹا بیٹا ایم بی بی ایس مکمل کر چکا ہے اور اب ریڈیولوجی میں پی جی کر رہا ہے۔ دراصل یہ ایک ماں کی لگن تھی جس نے اپنی اولاد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے ہی دم لیا۔
وہ کہتی ہیں کہ، ’’میرے شوہر کے انتقال سے قبل ہم لوگ گوونڈی (ممبئی) میں کرایے کے مکان میں رہتے تھے اور ہم دونوں کلینک جو کرایہ کا تھا، میں پریکٹس کرتے تھے۔ جب بچے چھوٹے تھے تو مَیں پریکٹس نہیں کرتی تھی مگر جب بچے اسکول جانے لگے تب کلینک جانے لگی۔ شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا۔ وہ وقت بڑا تکلیف دہ تھا۔ اس وقت میرے میکے اور سسرال، دونوں نے بچے سنبھالنے کی ذمہ داری اٹھانا چاہی تاکہ میں دوسری شادی کرسکوں لیکن مَیں اس کے لئے راضی نہیں ہوئی۔ مَیں نے تنہا بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کی۔ چونکہ مکان اور کلینک دونوں کرایے کے تھے اور ممبئی میں کرایہ زیادہ تھا اس لئے مَیں بچوں سمیت بھیونڈی منتقل ہوگئی۔ ایک نئی شروعات کی۔ کلینک جانا شروع کر دیا۔ اس دوران میری کوشش ہوتی تھی کہ مَیں ہر وقت بچوں کے پاس موجود رہوں، اسی لئے انہیں کلینک بھی اپنے ساتھ لے جاتی تھی۔ میرے بچے دسویں تک ٹیوشن نہیں گئے۔ مَیں نے انہیں پڑھایا۔ جب تک بچے آٹھ دس سال کے تھے تب تک وہ گھر، اسکول اور کلینک تک محدود تھے۔ مَیں نے اپنے بچوں کو باہر کے ماحول سے دور رکھا۔ اب سمجھدار ہوگئے ہیں تو انہیں آزادی حاصل ہے اب وہ اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں۔‘‘
شوہر کے انتقال کے بعد حمیرا سلطانہ قریشی نے اپنی مکمل توجہ بچوں کی جانب دی، وہ کہتی ہیں کہ، ’’شوہر کے انتقال کے بعد میرے بچے ہی میری دولت تھے۔ چونکہ مَیں تعلیم یافتہ ہوں اس لئے مَیں نے اپنے بچوں کو بھی اچھی تعلیم دینے کی کوشش کی۔ بچوں کو بارہا تعلیم پر توجہ دینے کی تلقین کی۔ مجھے اس بات کی فکر لاحق تھی کہ کل کو کوئی میری تربیت پر انگلی نہ اٹھائے اس لئے مَیں نے ان کی تربیت پر خاص توجہ دی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے بچوں نے زندگی کا اہم مرحلہ پار کر لیا۔‘‘ کیا بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے میں مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ، ’’بحیثیت ڈاکٹر میری اچھی آمدنی تھی۔ ہاں تعلیم کا پورا خرچ اٹھا پانا مشکل ضرور تھا۔ اس دوران میرے والدین، بھائی، دوست اور رشتہ داروں نے بھرپور تعاون دیا جن کی میں شکر گزار ہوں۔‘‘
اتنے برسوں میں کبھی محسوس ہوا کہ اب ہمت ٹوٹ گئی ہے؟ اس پر وہ کہتی ہیں کہ، ’’پہلے مجھ میں برداشت کرنے کی قوت تھی مگر گزرتے وقت کے ساتھ ہمت ٹوٹنے لگی تھی لیکن میرے بچوں نے مجھے حوصلہ دیا۔ ایک اہم بات مَیں کہنا چاہوں گی کہ میرا کلینک نچلے متوسط طبقے کے علاقے میں ہے۔ مَیں جن مریضوں کا علاج کرتی ہوں وہ انتہائی غریب ہیں۔ جب مَیں ان کی تکلیف دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی تکلیف حقیر محسوس ہوتی ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے صبر آجاتا ہے کہ معمولی تنخواہ حاصل کرنے کیلئے سخت محنت کرتے ہیں ساتھ ہی بچوں کی پڑھائی کیلئے جدوجہد کرتے ہیں، اس کے باوجود ان کی کئی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں۔ یہ دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میرے تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے میرے بچوں کو ایک مضبوط سہارا ملا ہے، کبھی ان کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ ان کے درد کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ ہماری زندگی بہت بہتر ہے۔ ہاں جب مَیں بیمار پڑتی تھی تب مجھے ڈر محسوس ہوتا تھا کہ میرے جانے کے بعد بچوں کا کیا ہوگا؟ وہ مشکل وقت تھا مگر بچوں کو کامیاب دیکھ کر مَیں ساری پریشانی بھول گئی ہوں۔‘‘n