دنیا میں سب سے پاکیزہ اور بے غرض رشتہ ’ماں‘ کا ہے۔ محبت، ایثار اور قربانی اگر کسی ایک لفظ میں سمیٹی جاسکتی ہے تو وہ ’ماں‘ ہے۔
EPAPER
Updated: August 21, 2025, 3:55 PM IST | Noor Fatima Siddiqui | Mumbai
دنیا میں سب سے پاکیزہ اور بے غرض رشتہ ’ماں‘ کا ہے۔ محبت، ایثار اور قربانی اگر کسی ایک لفظ میں سمیٹی جاسکتی ہے تو وہ ’ماں‘ ہے۔
دنیا میں سب سے پاکیزہ اور بے غرض رشتہ ’ماں‘ کا ہے۔ محبت، ایثار اور قربانی اگر کسی ایک لفظ میں سمیٹی جاسکتی ہے تو وہ ’ماں‘ ہے۔ بچے کی زندگی کا پہلا لمس ماں کی گود ہے، پہلا لفظ ماں کی زبان سے ادا ہوتا ہے، اور پہلی تربیت ماں کی آغوش سے ملتی ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے، ’’ماں کی گود بچّے کی پہلی درسگاہ ہے۔‘‘ ماں کی گود پہلی درسگاہ، پہلا مکتب ہے بچہ بولنے سے پہلے ماں کی مسکراہٹ پڑھ لیتا ہے، چلنے سے پہلے ماں کی انگلی تھام لیتا ہے۔ گویا ماں ہی وہ پہلی استاد ہے جو الفاظ کے بغیر بھی تربیت دیتی ہے۔ اس کی گود علم و محبت کی یونیورسٹی ہے، جہاں نصاب کتابوں سے نہیں بلکہ کردار اور عمل سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر ماں کا دامن ایمان، اخلاق اور علم سے بھرا ہوا ہے تو بچہ خود بخود ان اوصاف کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔
تاریخ عظیم ماؤں کی قربانیوں اور تربیت کی روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امام بخاریؒ کی والدہ کی دعا سے ان کی کھوئی ہوئی بینائی واپس آگئی اور وہ آگے چل کر دنیا کے سب سے بڑے محدث بنے۔ امام ابن تیمیہؒ کی والدہ نے صبر و حوصلے سے بیٹے کی پرورش کی، اور ان کی یہی تربیت نے انہیں دین کا عظیم مجاہد اور مجتہد بنا دیا۔ اسی طرح حضرت شافعیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور علامہ اقبال کی عظمتوں کے پیچھے بھی ماؤں کی دعائیں اور رہنمائی کارفرما تھیں۔ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ اگر ماں سنور جائے تو نسلیں نکھر جاتی ہیں۔
آج کا دور فتنوں کا دور ہے۔ جہاں ایک طرف علم و ٹیکنالوجی نے ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں، وہیں دوسری طرف مغربی تہذیب، سوشل میڈیا اور لامحدود آزادی کے نعرے نے نئی نسل کو اپنے جال میں جکڑ لیا ہے۔ ایسے میں اگر ماں غافل ہو جائے تو بچہ اپنی اصل پہچان، اپنے دین اور اپنے مقصد ِ حیات سے دور ہو جاتا ہے۔ آج کی ماں کے لئے سب سے بڑی آزمائش یہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس ہجومِ فتن میں غرق نہ ہونے دے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں خود علم و دین سے جڑی رہے، تاکہ اپنی اولاد کو صحیح سمت دکھا سکے۔ یاد رکھئے! بچے وہی بنتے ہیں جو ماں انہیں بناتی ہے۔ بچے نصیحت سے کم اور کردار سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اگر ماں دیندار، بااخلاق، علم دوست اور صابرہ ہے تو بچے بھی انہی خوبیوں کے امین ہوں گے۔ اس لئے ماں کی زندگی کا ہر عمل اور ہر بات دراصل ایک درس ہے جو نسلوں کے دلوں پر ثبت ہو جاتی ہے۔
ماں ایک فرد نہیں بلکہ ایک پورا ادارہ ہے۔ وہ گھر کی درسگاہ بھی ہے اور تربیت گاہ بھی۔ اس کے لمس میں سکون ہے، اس کی دعا میں تاثیر ہے، اور اس کی گود میں آنے والی نسلوں کی تقدیر چھپی ہے۔ یقیناً ایک نیک ماں، ایک صالح معاشرے کی بنیاد ہے۔