• Mon, 15 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ذہن پُرسکون تو زندگی پُرسکون، مگر یہ کیسے ممکن ہے؟

Updated: December 15, 2025, 3:44 PM IST | Foadkar Sajidah | Mumbai

اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کی بڑی نعمتوں میں ذہنی و دلی سکون بہت اہم ہے۔ جسے یہ نعمت حاصل ہوگئی گویا وہ فاتح زمانہ ہو گیا۔ موجودہ دور کی نسبت سے یہ سوال معنی خیز ہے کہ کیا ہم ذہنی و جذباتی طور پر پُرسکون ہیں اور اسے کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟

Measures such as adopting a healthy lifestyle and understanding coping strategies can be beneficial for physical and mental health. Picture: INN
صحتمند طرزِ زندگی اپنانے اور مشکل حالات سے نمٹنے کی حکمت ِ عملی کا ادراک رکھنے جیسی تدابیر جسمانی و ذہنی صحت کیلئے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ تصویر: آئی این این
جذباتی اور ذہنی سکون زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ ہمیں مثبت تعلقات، اطمینان، تناؤ سے نمٹنے اور ہمارے مقصد حیات کا احساس دلاتا ہے۔ یہ جذباتی، ذہنی و جسمانی استحکام ہم خواتین کیلئے اور بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ موجودہ دور میں مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کی دوڑ میں شامل اکثر خواتین پر دہری ذمہ داریاں ہیں۔ خواتین کیلئے زندگی کے مختلف مراحل اور معاملات کے نشیب و فراز میں پرسکون اور ثابت قدم رہنا تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب وہ اپنی جسمانی و ذہنی صحت کی اہمیت سے باخبر ہوں اور انکی بہتری کو فوقیت دیتی ہوں۔
کسی ناکامی یا شکست کو اپنی صلاحیتوں کا امتحان سمجھ کر دوبارہ نئے عزم و ہمت سے اٹھ کھڑے ہونا، ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور بہتر فیصلے کرنے کی اہلیت، مفاہمت اور لچکدار رویے کیساتھ خود اعتمادی، مثبت سوچ اور استقامت جیسے اوصاف اس بات کی دلیل ہیں کہ ہماری ذہنی و جذباتی صحت کے معاملات درست ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم جسمانی طور پر بھلے ہی صحتمند ہو مگر اپنی دانستہ یا نادانستہ غلطیوں اور بشری و صنفی کمزوریوں سے دل شکستہ ہو کر ہمیشہ احساسِ جرم میں مبتلا رہیں، مایوسی و دل گرفتگی اور منفی سوچوں کے حصار میں قید رہیں تو یہ جذباتی کمزوری کی علامتیں ہیں، اس جانب ہمیں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عموماً ہوتا یہی ہے کہ ظاہری جسمانی صحت کو تندرستی کا معیار ماننے اور اسی کی زیادہ فکر کرتے رہنے سے اکثر ذہنی و جذباتی صحت کے معاملات نظر انداز ہو جاتے ہیں اور یہ جذباتی کمزوری بالآخر جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ عمر کے ہر دور کے مختلف تقاضوں کے مطابق صحتمند طرزِ زندگی اپنانا، اپنے قریبی رشتوں اور دوستوں سے بہتر تعلقات استوار رکھنا، تناؤ اور مشکل حالات سے نمٹنے کی حکمت ِ عملی کا ادراک رکھنا جیسی خصوصیات جسمانی و ذہنی صحت کی بہتری میں معاون ہونے والی کارآمد تدابیر ہیں۔
خواتین کے ذہنی و جذباتی طور پر کمزور ہونے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں: ماضی کی تلخ یادیں، کوئی جسمانی نقص، سختی اور ہراسانی میں بیتا ہوا بچپن، بےجا روک ٹوک اور تنقیدی ماحول، کوئی ناکامی یا محرومی، برداشت سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ یا مالی مشکلات سہتے رہنے والی خواتین کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر عدم تحفظ، ڈپریشن اور اضطراب جیسی نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ایسی خواتین اور نوعمر بچیاں اپنے مسائل، خوف اور مشکلات کا اظہار نہیں کر پاتیں اور اندرہی اندر گھٹتی رہتی ہیں۔ اسلئے ان کے اپنے قریبی لوگوں کا فرض ہے کہ اپنے گھر اور معاشرہ میں موجود ایسی خواتین اور بچیوں کے مزاج اور رویوں پر نظر رکھیں کہ کہیں کوئی کسی جذباتی الجھن، نفسیاتی پریشانی، افسردگی یا بےچینی کا شکار تو نہیں ! کسی کو مدد تو درکار نہیں؟ اگر ہو تو خدارا مدد کا ہاتھ ضرور بڑھائیں۔ ایسے افراد کی شناخت ان کے طرزِ عمل سے بخوبی ہو جاتی ہے مثلاً:
٭ ایسے افراد کسی نئی تبدیلی کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں۔
٭ اعتماد کی کمی کا شکار اور نادیدہ خطرات کے خوف میں رہتے ہیں۔
٭ قوتِ فیصلہ سے عاری ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔
٭ حال کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے بجائے ماضی کی آسودہ پناہ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
٭ ایک بار کی ناکامی ان کے حوصلے پست کر دیتی ہے اور وہ دوبارہ کوشش کرنے سے گھبراتے ہیں۔
ایسے افراد ہمارے آس پاس ہوتے ہیں، کبھی وہ ہمارے بہت قریبی عزیز ہوتے ہیں، اور کبھی وہ ہم خود ہی ہوتے ہیں مگر ہمیں اپنی اس حالت کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ بقول شاعر: ’’اپنی حالت کا خود احساس نہیں ہے مجھ کو/ میں نے اوروں سے سنا ہے کہ پریشان ہوں مَیں!‘‘
اگر ہم غصے، اداسی، بے اعتمادی، شک، الزام تراشی، حد سے زیادہ خاموش رہنے یا کام ٹالنے کی عادت کے ساتھ جیتے ہیں تو یہ سب منفی عادتیں ہماری شخصیت کا حصہ بننے لگتی ہیں۔ تواگر کوئی بصد خلوص وہمدردی ہمیں اپنی اس حالت سے آگاہ کرے تو ان سے ناراض نہ ہوں، برا نہ منائیں بلکہ ان کی محبت اور خیر خواہی کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی بہتری کی سبیل کریں کہ سارے کاموں اور فرائض کی ادائیگی اپنی جگہ لازم مگر ہمارا اپنی ذات کے حوالے سے سوچنا بھی مقدم ہے، دنیاداری اور سب کی خیر خواہی میں اپنا آپ نظر انداز نہ ہو جائے اسلئے اپنے مصروف اوقات کار میں سے اپنے آرام اور اپنی دلچسپیوں کی تکمیل اور اپنے شوق کی آسودگی کیلئےبھی کچھ وقت ضرور نکالنا چاہئے۔ ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنی جذباتی و جسمانی صحت کو سنبھالیں، اپنی غلطیوں کا ادراک کریں، ان کا ازالہ کریں، اپنے اندر کے دباؤاور ذہنی پراگندگی کو کم کریں۔ اپنے رویے کو درست کریں۔ اپنی ذات کے تئیں یہی ہماری ذمہ داری بھی ہے اور حق بھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK