آج کے والدین بچوں کے ’دوست‘ کیا بنے سارا ادب لحاظ طاق پر ہی رکھ دیا ’کول پیرنٹس‘ نے سارا ادب و احترام ’فریز‘ کر دیا۔ ایک بہت اہم وجہ جو ہمارے وقت کی تربیت اور آج کی تربیت میں واضح دیکھی جا سکتی ہے، وہ مشترکہ خاندان اور علاحدہ خاندان کا فرق ہے۔ پہلے سب ساتھ رہتے تھے تو سب مل جل کر بچوں کی اخلاقی تربیت کرتے تھے مگر اب؟
بچوں کو نصیحت کرنے سے پہلے گھر کے بڑوں کو اپنی کوتاہیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تصویر: آئی این این
کسی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ اگر آپ نے اپنے بچّے کو اُردو سیکھا دی تو تمیز وہ اپنے آپ سیکھ جائیگا، ہم لوگوں نے خود ہی اپنے گھروں سے اُردو کو باہر کر دیا، انگریزی کا اخبار شروع کیا، بچوں سے گھر میں بھی انگریزی میں بات کرنی شروع کی کہ وہ انگریزی سیکھیں گے۔ بالکل ٹھیک قدم اٹھایا مگر ہم نے اُردو کیوں چھوڑ دی، اُردو کا اخبار ہی گھر میں آنا بند کر دیا نتیجہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ بہت افسوس ہوتا ہے لوگوں کو رومن انگلش کا استعمال کرتے دیکھ کر، کیا ہم اتنا لکھنا بھی نہیں سکھا سکتے نئی نسل کو۔
پہلے کے دور میں بڑوں کے ساتھ ادب اور چھوٹوں کے ساتھ محبت سے پیش آنے کی بہت سخت تاکید کی جاتی تھی، اور اس پر عمل کرنا لازمی ہوتا تھا، اور ہم لوگ کرتے بھی تھے، بڑے تو بڑے چھوٹوں سے بھی آپ جناب سے پیش آنے کی تاکید کی جاتی تھی۔ ہمت نہیں ہوتی تھی کسی بڑے کے ڈانٹنے پر بولنے کی خواہ وہ گھر کے کاموں کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔ اور کسی بھی استاد کی شکایت کرنے کا تو گھر میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ الٹے اور ڈانٹ پڑے گی کہ غلطی تمہاری ہی ہوگی۔ اور ایسا نہیں تھا کہ ہمارے بڑے ہماری ہر غلطی یا ہر خوبی سے بے خبر تھے، خواہ وہ اسکول کی ہو یا گھر کی مگر بچوں پر فوراً ظاہر کرنے کے بجائے مناسب وقت آنے پر ان کو تنبیہ کی جاتی تھی تاکہ اس کا اثر پڑے۔ اور ان کا یہ حربہ اثر بھی کرتا تھا۔ بچّے لاعلمی میں آگے کوئی غلط کام کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ اور آج کے دور میں والدین پہلے باز پرس کرنے لگتے ہیں چاہے استاد ہو یا گھر کا کوئی بڑا، گھر پر آنے والے استاد کو پہلے ہی باور کروا دیا جاتا ہے کہ اس کی کیا حدود ہیں۔ بچّے اس کا بہت غلط استعمال کرتے ہیں، وہ جھوٹی سچّی کہانی اپنے والدین کو بتاتے ہیں اور والدین ان کی باتوں میں آبھی جاتے ہیں، جبکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بچّہ کہاں غلط ہے اور کہاں صحیح۔ آج کے والدین بچوں کے ’دوست‘ کیا بنے سارا ادب لحاظ طاق پر ہی رکھ دیا ’کول پیرنٹس‘ نے سارا ادب و احترام ’فریز‘ کر دیا۔
ایک بہت اہم وجہ جو ہمارے وقت کی تربیت اور آج کی تربیت میں واضح دیکھی جاسکتی ہے، وہ مشترکہ خاندان اور علاحدہ خاندان کا فرق ہے۔ پہلے سب ساتھ رہتے تھے تو ہر بچّہ بڑا ایک دوسرے کی اچھی بری عادات یا باتوں کو برداشت کرتا تھا۔ آج کے دور میں برداشت کی قوت نہ کے برابر رہ گئی ہے نئی نسل میں۔ گھر میں اگر ۴؍ خواتین ہیں تو ہر ایک میں کچھ نہ کچھ الگ ہنر ہوتا تھا تو سب بچوں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ کئی ہنر سیکھنے کو ملتے تھے، اور ساتھ کے بچوں سے مقابلہ بھی رہتا تھا۔ اُس دور میں کوئی میرا بچّہ تیرا بچّہ نہیں ہوتا تھا سب ایک ہی گھر کے بچّے ہوتے تھے اور آج سب علاحدہ رہنے لگے تو ہر خاتون اپنے بچّے کو معاشرے میں ایک مثبت مقام دلانے کیلئے دن بھر بھاگ دوڑ میں لگی ہوئی ہے تاکہ اس کا بچّہ پڑھائی اور اپنے ہنر کے ساتھ آگے بڑھے۔ بہت اچھی بات ہے مگر ان سب میں وہ وقت کہاں گیا جو ایک بچّے کو اپنی ماں اور گھر والوں کے ساتھ سکون سے اپنے گھر میں گزارتے ہوئے کچھ سیکھنا چاہئے۔ کیونکہ بچّے ہمارے کہنے سے زیادہ ہماری عادات کو اپناتے ہیں۔ پہلے بچّے نانی دادی کے ساتھ وقت گزارتے تھے اُن کی باتوں کو دھیان سے سنتے تھے، سبق آموز کہانیاں، پیغمبروں کے قصے، حدیثیں سنتے تھے، اور اُن پر عمل بھی کرتے تھے۔ دادا نانا سے صبر اور تحمل سیکھتے تھے۔ مگر آج ہم کسی بڑے کے بلانے پر خود ہی کھڑے ہو جاتے ہیں کہ، ’’اس کو پڑھنا ہے آپ کو کیا معلوم کہ آج کل کی پڑھائی کتنی مشکل ہے!‘‘ اس وقت تو بچّے کو بھی موقع مل گیا کام نہ کرنے کا مگر جب کل یہی رویہ بچّہ ہم سے اختیار کرے گا تو ہم کو برا لگے گا، مگر غور کریں کہ اس نے یہ سیکھا کہاں سے؟
پہلے کے دور میں زیادہ تر تقریبات گھروں میں ہی منعقد کی جاتی تھیں، سارے انتظامات بھی سب گھر والے مل کر کرتے تھے، سب کے ذمے کام بانٹ لئے جاتے تھے کسی قسم کی کوئی چپقلش نہیں ہوتی تھی اور بچوں کو سب انتظامات میں شامل کیا جاتا تھا تاکہ بچّے ہر کام کو سیکھیں اور وقت پڑنے پر انہیں کرنے میں مشکل نہ ہو، اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی رہتی تھی کہ کسی بھی مہمان کی تواضع میں کوئی کمی نہ رہے۔ کسی بھی آنیوالے سے ملنا، انہیں اسلام کرنا اور جاتے وقت انہیں دروازے تک چھوڑنے جانا یہ سب کیلئے خاص تاکید رہتی تھی۔ اور آج بچوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کون مہمان گھر میں آیا اور کون چلا گیا کیونکہ ہم نے بچّے کو خود تنبیہ نہیں کی، بچے تو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ان کو موبائل سے ہی فرصت نہیں ملتی، انہیں کیا کہیں وہ سیکھ تو ہم ہی سے رہے ہیں۔ ہم خود اپنا زیادہ تر وقت موبائل کو دے رہے ہیں جس میں وقت ریت کی طرح ہاتھ سے چلا جاتا ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ کام تو صرف ۱۵؍ منٹ ہوتا ہے باقی ۴۵؍ منٹ میں تو خرافات میں نکلتے ہیں۔ پہلے کے دور کی باتیں تو اب صرف ہمارے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ اگر ہمیں حال میں کچھ سدھار لانا ہے تو اس کیلئے خود کو پہلے بدلنے کی ضرورت ہے۔