سویاں بنانے میں مہارت نہ ہو تو عید کا مزا خراب ہوسکتا ہے اس لئے خواتین کو اس جانب خاص توجہ دینی چاہئے مگر یہی سب کچھ نہیں ہے۔ عید کی خریداری سے لے کر گھر کی سجاوٹ تک گرہستی کا ایک ایک شعبہ خواتین کی توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی ان کا امتحان ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 27, 2025, 11:19 AM IST | Farah Haider | Mumbai
سویاں بنانے میں مہارت نہ ہو تو عید کا مزا خراب ہوسکتا ہے اس لئے خواتین کو اس جانب خاص توجہ دینی چاہئے مگر یہی سب کچھ نہیں ہے۔ عید کی خریداری سے لے کر گھر کی سجاوٹ تک گرہستی کا ایک ایک شعبہ خواتین کی توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی ان کا امتحان ہوتا ہے۔
رمضان کے پورے مہینے بہت شوق سے روزہ، عبادتیں، صدقات، خیرات اور مغفرت طلب کرنے کے بعد جو عید کی خوشی ہوتی ہے، اسے لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ بچّے، بڑے، خواتین اور مرد ہر ایک عید کی تیاریوں میں مشغول نظر آتا ہے، جہاں ایک طرف مردوں پر باہر کے کاموں کی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں خواتین کے اُوپر ہر قسم کے کام ہوتے ہیں، کیا پکانا ہے، کس فرد کو کیسے کپڑے پہننے ہیں وہ کہاں ملیں گے، گھر کو کیسے سجانا ہے، کون سے برتن اس بار نکلیں گے۔
ہر عید میں ایک خاص مہم جس کی بڑی ذمہ داری خواتین پر ہوتی ہے وہ ہے سیوئیوں کو صحیح صحیح پکا لینا جو نہ کچّی رہ جائے، نہ مٹھاس زیادہ ہو، اور نہ چپکی ہو، یہ ان لوگوں کے لئے تو کوئی بڑی بات نہیں ہوتی جو لوگ سیوئیں پکانے میں ماہر ہوتے ہیں مگر جنہیں اس کا تجربہ نہ ہو ان کیلئے یہ کام جوئے شیر لانے کے برابر ہوسکتا ہے، جب تک میکے میں رہی سوئیں کی ذمہ داری امی کی رہی سسرال میں بھی مشترکہ خاندان کی وجہ سے کبھی نہیں پکائی مگر جب علاحدہ خاندان ہوا تو اس ہنر کی کیا قیمت ہے سمجھ آئی اس لئے اُن سب خواتین کے لئے میری دل سے ہمدردی ہےجو اس مرحلے سے گزرتی ہیں۔
اس پوری بھاگ دوڑ میں بھی خواتین میں ایک الگ ہی جوش دیکھنے کو ملتا ہے اور یہ جوش عید کے کچھ عرصہ قبل سے لے کر کچھ عرصہ بعد تک برقرار رہتا ہے، عید میں ہر آنے والے مہمان کا خوش اسلوبی سے خیر مقدم کرنا، ان کی خاطر تواضع کرنا اور رشتےدار، دوستوں کے گھروں میں عید ملنے جانا۔
خواتین عید کی خریداری تو پہلے سے ہی کچھ کچھ شروع کر دیتی ہیں مگر عید کا دن قریب آتے آتے ان تیاریوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے، خواتین اپنے گھر کا ایک ایک کونا سجانا چاہتی ہیں، چادریں پردے، کشن غلاف، مسند غلاف، میزپوش، اسٹول پوش یہاں تک کہ روٹی کے کپڑے بھی چاہتی ہیں کہ نئے ہی ہوں۔ لاکھ بازاروں میں ہر قسم کا سامان مل جائے مگر اس دن وہ اپنے ہنر کا کوئی نہ کوئی نمونہ ضرور پیش کرتی ہیں۔ کچھ تو اپنے گھر کے رنگ و روغن کا کام بھی خود ہی انجام دے ڈالتی ہیں۔ گھر کا ایک ایک کونا چمکانے کے بعد اس کو بار بار پر ستائش نظروں سے دیکھنا کہ کہیں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی اور کمی نکلنے پر پھر سے اس کو اس وقت تک ترتیب دینا جب تک وہ اپنی سوچ کے مطابق نہ ہو جائے۔ دوسری طرف باورچی خانہ بڑی بےصبری سے اپنی خاتون خانہ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہاں بھی ایک افرا تفری کا منظر ہوتا ہے، ایک وقت کے بعد خود کو بھی احساس ہوتا ہے کہ کتنا وقت اِدھر ہی نکل گیا اب سب وقت پر کیسے ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ صبح سب کے پہننے والے کپڑوں کو بھی تیار کرنے کی فکر رہتی ہے کہ صبح زیادہ چپقلش نہ ہو۔
مشترکہ خاندانوں کا یہی فائدہ رہتا تھا، کسی ایک کے اُوپر زیادہ کام نہیں پڑتا تھا، اگر گھر کی سب خواتین نے اپنے اپنے ہاتھ کے کچھ خاص ایک یا دو بھی پکوان بنا لئے تو انواع اقسام کے پکوان تیار ہو جاتے تھے۔ یہی معاملہ گھر کی صفائی کا بھی رہتا تھا، کسی نے باورچی خانہ سنبھالا، کسی نے دالان تو کسی نے آنگن اور پیڑ پودے، لیجئے ہوگئی صفائی۔ یہی محبت عید ملنے جانے میں بھی نظر آتی تھی۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو خواتین اگر گھر پر آنے والے مہمانوں کی تواضع کے لئے رکتی تھیں کہ گھر خالی نہ ملے اور دو لوگ خاندان میں عید ملنے جاتی تھیں، یہی چھوٹی چھوٹی باتیں سب کی عید پرکشش بنا دیتی ہیں اور خاص عید کے دن کے کھڑے ماش چاول تو فراموش کئے ہی نہیں جا سکتے۔ آج بھی پکتے ہیں مگر امی کے ہاتھ کا ذائقہ ابھی بھی ہم لوگوں کی زبانوں پر تازہ ہے۔
جب بچّے چھوٹے ہوتے ہیں تو خواتین کا خاصا وقت اُن کی تیاریوں میں صرف ہوتا ہے، خاص کر لڑکیوں کا، کیونکہ ان کی مہندی تو بے انتہا ضروری ہوتی ہے اور میچنگ چوڑیاں، بالوں کے کلپ بینڈز، جویلری اور دوپٹہ نہ ہو سوٹ کی رونق ادھوری ارے اُن کا پرس تو رہ ہی گیا۔ عید کے دن کی جان پرس نہیں ہوگا تو عیدی کہاں رکھی جائے گی۔ یہی بیٹیاں جب بڑی ہو جاتی ہیں تو آدھا کام اپنے ذمہ کر لیتی ہیں۔ انہی سب موقع پر اُن کی تربیت ہوتی ہے، آگے ایک خاتون خانہ کی شکل میں انہیں کیسے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔
چھوٹی بچیوں کو گھر کے ان سارے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کی تربیت دی جائے تو آگے چل کر وہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوں گی اور رمضان میں بچیوں کو اس طرح کی تربیت دینا عام دنوں کی بہ نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔
ہر گھر میں عید کے سب کام ہی بہترین ہوتے ہیں، بات تو تب ہے جب سب کام ہنسی خوشی دل سے کئے جائیں۔