حال ہی میں دسویں کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس سے قبل بارہویںکا رزلٹ آیا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ امتحانات میں کچھ بچے پاس ہوتے ہیں تو کچھ فیل۔ پاس ہونے والے اگلی منزل کی تیاری کرتے ہیں مگر فیل ہونے والے بچے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس وقت انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور سب بڑا سہارا ماں کا ہوتا ہے۔
زندگی کے اِس موڑ پر ماں کا مضبوط سہارا بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ تصویر: آئی این این
امتحان کا نتیجہ آنے کے بعد جب بچے کا چہرہ اُداس ہو، آنکھیں جھکی ہوں اور آواز ٹوٹ رہی ہو تو ماں کا دل سب سے پہلے لرزتا ہے۔ وہ بچہ جس کی کامیابی کے خواب ماں نے سوتے جاگتے دیکھے، جب وہ کہتا ہے، ’’امی، مَیں فیل ہو گیا ہوں۔‘‘ — تو دل کے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے۔ یہ لمحہ ماں کے لئے بھی ایک امتحان ہوتا ہے.... ایک ایسا امتحان جس میں صرف محبت، حوصلہ اور برداشت ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔
نمبر نہیں، بچہ قیمتی ہے
ہمارے معاشرے میں نتیجہ ہی سب کچھ مان لیا گیا ہے۔ اگر نمبر کم آئیں تو بچہ ناکام، نالائق اور بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے اصل امتحان مارک شیٹ سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور وہ بچے جو ابھی گر گئے ہیں، اگر سہارا ملے تو دوڑنے بھی لگتے ہیں۔
ماں کا رویہ ہی بچے کی زندگی کا رخ بدلتا ہے
اس وقت سب سے زیادہ اہم ماں کا طرزِ عمل ہوتا ہے۔ اگر وہ غصے میں آکر بات کرنا بند کر دے، طعنے دے یا رشتہ داروں کے سامنے شرمندہ ہو.... تو بچہ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر اگر وہی ماں اپنے بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہے، ’’میری نظر میں تم آج بھی کامیاب ہو!‘‘ تو یہی جملہ اُسے نئی زندگی دے سکتا ہے۔
بچے کے دکھ کو محسوس کیجئے، ملامت نہ کیجئے
جب بچہ خاموش ہو جائے، تنہا ہو جائے، یا کسی کونے میں بیٹھ جائے تو وہ صرف غمزدہ نہیں بلکہ ڈپریشن کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ اُسے سنبھالے، قریب بیٹھے، اُس کے اندر کے اندھیرے کو سمجھے۔ یہی وقت ہوتا ہے ماں کے اصل کردار کا.... جب وہ صرف پالنے والی نہیں بلکہ بچانے والی بنتی ہے۔
دوسروں سے موازنہ مت کیجئے، بچے کو قبول کیجئے
’’فلاں کا بیٹا دیکھو، ٹاپ کیا ہے....‘‘ اس جملے سے زیادہ ظالم کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ ہر بچہ ایک الگ شخصیت، الگ صلاحیت اور الگ فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا موازنہ کسی سے نہ کیجئے بلکہ اُسے اس کی خوبی و خامی کے ساتھ قبول کیجئے۔
کامیابی کے اور بھی راستے ہیں
اگر بچہ ڈاکٹر یا انجینئر نہ بن سکا تو زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔ آرٹ، کمپیوٹر، موبائل ٹیکنالوجی، بزنس، لینگویج، فوٹو گرافی، ایونٹ مینجمنٹ، گرافک ڈیزائن.... زندگی کے ہزاروں میدان ہیں۔ بچے کی دلچسپی کو پہچانئے، اُس کی صلاحیت کو سہارا دیجئے اور اُسے نیا راستہ دکھایئے۔
ماں اگر خود مضبوط ہو تو بچہ بکھرتا نہیں
اگر ماں خود صدمے میں آجائے تو بچہ اور ٹوٹ جاتا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ وہ خود کو سنبھالے، دینی اعتبار سے مضبوط ہو، صبر سے کام لے اور بچے کے لئے حوصلہ بنے۔ اگر ماں مایوس نہ ہو تو بچہ بھی مایوسی سے نکل سکتا ہے۔
ماں کی دعا، بچے کی دنیا
ایسے وقت میں جب دنیا مایوس کر دے تو صرف ماں کی دعا ہی ہے جو بچے کے نصیب کو بدل سکتی ہے۔ تہجد کے وقت اُٹھ کر اپنی اولاد کے لئے سجدے میں گرنا، اللہ کے حضور رونا، اور یہ کہنا: ’’یا رب، میرے بچے کی رہنمائی فرما۔‘‘ یہ دعا بچے کو ہر اندھیرے سے نکال سکتی ہے۔
بچے کو یہ یقین دلائے کہ وہ اکیلا نہیں ہے
بچے کو یہ احساس دلائے کہ وہ دنیا کی تنقید کے درمیان اکیلا نہیں۔ ماں اس کے ساتھ ہے۔ اُس کی ہر لڑائی، ہر کوشش اور ہر آنسو میں ماں اُس کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہی وہ یقین ہے جو بچے کو نئی کوشش کے لئے تیار کرتا ہے۔
جب ماں تھام لے
زندگی کے ہر موڑ پر ماں کا ہاتھ سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے۔ جب سب رشتہ دار طعنے دیں، جب دوست دور ہو جائیں، جب دنیا اُنگلی اٹھائے.... تب ماں کا لمس، ماں کی دعا اور ماں کا یقین ہی بچے کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔ ماں! اگر تم نے بچے کا ساتھ نہ چھوڑا تو وہ دنیا کے ہر طوفان سے لڑ جائے گا۔
ایک نئی شروعات
امتحان میں ناکام ہونے پر دنیا ختم نہیں ہوجاتی۔ ماں بچے کو یہ یقین دلائے کہ ایک نئی شروعات ہوسکتی ہے۔ بچے کو آئندہ امتحان کی تیاری کرنے کے لئے آمادہ کیجئے۔ جو ہوا اس بھول جانے میں سب کی بھلائی ہے اس بات کی تاکید سے بچے کو ایک نئی شروعات کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس جانب توجہ دے کہ آخر کہاں کمی رہ گئی ہے؟ اس پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
گھر کا سازگار ماحول
بچے کے فیل ہوجانے کے بعد گھر کا ماحول افسردہ ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلے گھر کے ہر فرد کو اس ماحول سے باہر نکالنے کی کوشش کرے۔ ایک دوسرے کو حوصلہ دے اور بچے کی ذہن سازی کرے۔ بچہ مثبت ماحول میں پُرسکون محسوس کرے گا اور اس غم سے جلد باہر آئے گا۔