Inquilab Logo Happiest Places to Work

مستقل مزاجی، ایثار اور محبّت: بچوں کی تربیت کے اہم پہلو

Updated: June 16, 2025, 4:20 PM IST | Faiqa Hammad Khan | Thane

بچپن کی ابتدائی تربیت کا میدان ماں کی گود سے ہی شروع ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچے کی شخصیت کے خدوخال بنتے ہیں۔ ماں اگر اپنی ذمہ داری کو دینی، اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے سمجھ کر ادا کرے تو ایک صالح، بااخلاق اور کارآمد انسان پروان چڑھتا ہے۔

Mothers should exercise patience and wisdom while training their children. Photo: INN
بچوں کی تربیت کے دوران ماں کو صبر اور حکمت سے کام لینا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ بچہ اپنی ماں کی حرکات، سلوک، بات چیت اور انداز سے سیکھتا ہے۔ لہٰذا ایک ماں کو چاہئے کہ وہ خود کو اخلاقی لحاظ سے بہتر بنائے تاکہ اس کا بچہ بھی اعلیٰ صفات کا حامل بنے۔ اگر ماں دیندار، صابر، نرم خو، سچ بولنے والی اور شکر گزار ہو تو یہ اوصاف غیر محسوس انداز میں بچے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
بچوں کی تربیت کے بنیادی اصول
وقت دینا: ماں کو چاہئے کہ وہ بچے کے ساتھ وقت گزارے۔ بچے کی بات سنے، اس کے سوالات کے جوابات دے اور اسے محسوس ہونے دے کہ وہ اس کے لئے اہم ہے۔ صرف کھانے، کپڑے، اور اسکول بھیج دینا کافی نہیں۔ تربیت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ بچے کے ساتھ جذباتی تعلق قائم رکھا جائے۔
محبت اور شفقت: نبی کریمؐ بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ البتہ محبت میں توازن ہونا چاہئے تاکہ وہ بگاڑ کا باعث نہ بنے لیکن محبت کے بغیر تربیت بھی اثر نہیں دکھاتی۔
نظم و ضبط: بچوں کو وقت کی پابندی، صفائی، ترتیب اور سلیقے کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی اگر بچے کو معمولات میں نظم سکھایا جائے تو وہ زندگی بھر فائدہ اٹھاتا ہے۔
تنقید سے پرہیز: بچوں کو ہر وقت ڈانٹنے یا تنقید کا نشانہ بنانے سے ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ مثبت انداز میں سمجھانے اور اصلاح کی طرف مائل کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔
سیکھنے کا موقع: ماں کو چاہئے کہ بچے کو سیکھنے کا شوق دلائے۔ کتب بینی، سیرت النبیؐ کے قصے، نیک لوگوں کی کہانیاں اور اچھی صحبت کا اہتمام کیا جائے۔
عملی نمونہ بننا: ماں جو کچھ بچے کو سکھانا چاہتی ہے، اسے اپنی ذات میں نافذ کرے۔ اگر ماں نماز کی تلقین کرے مگر خود نہ پڑھے یا جھوٹ سے روکے مگر خود بولے تو تربیت کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔
منفی ماحول سے حفاظت: ٹی وی، موبائل، انٹرنیٹ اور گیمز وغیرہ سے بچے کو مکمل روکنا ممکن نہیں لیکن محتاط نگرانی کے ساتھ حدود کا تعین کیا جائے تاکہ بچہ غلط اثرات سے محفوظ رہے۔
صبر و استقامت: بچوں کی تربیت میں مشکلات اور آزمائشیں آئیں گی۔ ماں کو صبر، دعا اور حکمت سے کام لیتے ہوئے مسلسل محنت کرنا ہوگی۔ کبھی کبھی نتائج دیر سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن ثابت قدمی کامیابی کی کنجی ہے۔
انفرادیت کا احترام: ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ان کے مزاج، صلاحیت اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تربیت کا انداز اپنایا جائے۔ سب بچوں سے ایک جیسا سلوک نہ کیا جائے بلکہ ہر ایک کو اس کی انفرادیت کے مطابق سمجھا اور سکھایا جائے۔
شکر گزاری اور قناعت کی تعلیم: بچوں کو سکھایا جائے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر شکر گزار بنیں اور دوسروں کی چیزوں پر نظر نہ رکھیں۔ ماں اگر خود قناعت پسند ہو تو بچہ بھی وہی سیکھے گا۔
جھوٹ اور چغلی سے نفرت: بچوں کو شروع ہی سے جھوٹ بولنے، چغلی کرنے اور بدگمانی جیسے گناہوں سے روکا جائے۔ ان کی برائیوں پر فوری اصلاح کی جائے اور اچھے رویے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔
رزقِ حلال کی اہمیت: ماں باپ اگر رزق حلال کماتے ہیں تو بچوں کی روحانیت اور تربیت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ حلال و حرام کی تمیز بچوں کو سکھائے۔
گھر کا سازگار ماحول: ماں باپ کے آپسی تعلقات، جھگڑے، محبت یا بے توجہی بچوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماں کو چاہئے کہ گھریلو ماحول کو پُرسکون، مہذب اور خوشگوار رکھے۔
بچوں کے سوالات کو نظر انداز نہ کریں: بچوں کا سوال کرنا ان کی ذہانت کی علامت ہے۔ ماں کو چاہئے کہ وہ ہر سوال کا مدلل اور نرمی سے جواب دے تاکہ بچہ الجھن کا شکار نہ ہو۔
بچوں کے دوستوں پر نظر: ماں کو بچوں کے دوستوں کے انتخاب میں محتاط رہنا چاہئے اور ان کی صحبت پر نظر رکھنی چاہئے تاکہ غلط صحبت سے بچا جا سکے۔
خود احتسابی کا شعور: بچوں کو سکھایا جائے کہ وہ اپنے عمل کا جائزہ خود لیں، غلطی پر معذرت کریں اور آئندہ کے لئے سبق حاصل کریں۔ یہ شعور ماں کی تربیت سے ہی جنم لیتا ہے۔
سادہ طرزِ زندگی: سادگی اور میانہ روی کی عادت ماں ہی ڈال سکتی ہے۔ فضول خرچی، دکھاوا اور بے جا آسائش کی خواہش بچوں کو بے راہ روی کی طرف لے جاتی ہے۔
شوق اور دلچسپی کی اہمیت: اگر بچے کو کسی خاص کام میں دلچسپی ہے جیسے خطاطی، مطالعہ، مصوری یا کھیل – تو ماں کو چاہئے کہ اسے مثبت انداز میں فروغ دے تاکہ وہ اپنی صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کرسکے۔
 ماں کی تربیت ہی معاشرہ کی بنیاد ہے۔ ایک ماں اگر اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر سمجھے، اپنی اولاد کی دینی، اخلاقی، ذہنی اور جسمانی نشوونما پر توجہ دے تو آنے والی نسلیں بہتر، مہذب اور بااخلاق بنیں گی۔ تربیت صرف چند اصولوں پر مبنی مشق نہیں بلکہ مستقل مزاجی، ایثار اور محبّت کا مجموعہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK