Inquilab Logo Happiest Places to Work

جہیز: کب تک ہم اس رسم کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے؟

Updated: June 23, 2025, 3:22 PM IST | Qamar Sarwar | Mumbai

ابتدائی دور میں جب بیٹی کو والدین چند ضروری اشیاء دے کر رخصت کرتے تھے، وہ خالص محبت اور مدد کے جذبے سے ہوتا تھا مگر آہستہ آہستہ یہ رسم بدلتی گئی، مطالبات بڑھنے لگے، اور پھر وہ دن بھی آیا جب سسرال والے لڑکی والوں کو ’لسٹ‘ تھمانے لگے۔ آج حالات یہ ہیں کہ جہیز نہ دینے پر نکاح رُک جاتا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

There should be serious discussions in our homes on an important topic like dowry. Photo: INN
ہمارے گھروں میں جہیز جیسے اہم موضوع پر سنجیدہ گفتگو ہونی چاہئے۔ تصویر: آئی این این

جہیز ایک ایسا لفظ جس میں بظاہر خوشی، محبت، تحفہ یا تعاون کا تاثر چھپا ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک ایسی سماجی رسم بن چکی ہے جو کئی زندگیوں کو نگل چکی ہے۔ نہ جانے کتنی بیٹیوں کی جوانی اسی کی تیاری میں گزر گئی، کتنے والدین نے سفید بالوں کے ساتھ قرض میں ڈوبے ہاتھوں سے بیٹیوں کی رخصتی کی، اور نہ جانے کتنی بےقصور بہوؤں نے ’کم جہیز‘ کے جرم میں سسرال کی چکی میں پس کر دم توڑ دیا۔ یہ المیہ صرف اخلاقی یا سماجی نہیں بلکہ دینی، نظریاتی اور انسانی سطح پر بھی ہماری اجتماعی ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ یہ رسم آج مسلمانوں کے گھروں میں بھی تقدس کا لبادہ اوڑھ کر پل رہی ہے، حالانکہ اسلام نے نہ صرف اس کی حوصلہ شکنی کی ہے بلکہ نکاح کو سادہ، پاکیزہ اور بابرکت عمل قرار دیا ہے۔
اسلام کا تصورِ نکاح اور حقیقت کا تضاد
 اسلام میں نکاح ایک عبادت ہے، ایک عہد ہے، ایک معاشرتی معاہدہ ہے جو دو انسانوں کے درمیان محبت، عزت، اور مساوات پر قائم ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ میں ہمیں نکاح کی ایسی مثالیں ملتی ہیں جو سادگی، پرہیزگاری، تقویٰ اور خلوص کا پیکر تھیں۔ جب حضورؐ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کیا تو نہ مہنگے ساز و سامان کا اہتمام ہوا، نہ جہیز کے انبار لگے، نہ جہیز کی فہرستیں بنیں، نہ طعنے دئیے گئے۔ صرف چند برتن، ایک چکی، ایک بستر اور دو کپڑوں کے جوڑے، یہی تھا ’جہیز‘۔ اور یہی تھی برکت۔ مگر آج، نکاح کی جگہ تقریب ِ تفاخر نے لے لی اور برکت کی جگہ بازار کی بولی نے۔ حق مہر جو لڑکی کا اسلامی حق ہے، وہ موقوف ہوگیا اور جہیز جو کہ غیر اسلامی ہے، وہ ’لازمی‘ بن گیا۔ یہ وہ المیہ ہے جس پر نہ صرف علما بلکہ ہر باشعور فرد کو صدا بلند کرنی چاہئے۔
جہیز کب تعاون سے تقاضے میں بدل گیا؟
 ابتدائی دور میں جب بیٹی کو والدین چند ضروری اشیاء دے کر رخصت کرتے تھے، وہ خالص محبت اور مدد کے جذبے سے ہوتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ یہ رسم بدلتی گئی، مطالبات بڑھنے لگے، اور پھر وہ دن بھی آیا جب سسرال والے لڑکی والوں کو ’لسٹ‘ تھمانے لگے۔ آج حالات یہ ہیں کہ جہیز نہ دینے پر نکاح رُک جاتا ہے۔ سادہ رخصتی پر مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ ’بڑی گاڑی‘ نہ ہو تو داماد ناراض ہوتا ہے۔ ماں باپ بیٹی کی شادی کے بعد بھی ’کچھ بھیجتے رہنے‘ کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ کیا یہ دین ہے؟ کیا یہ وہ محبت ہے جو نکاح کا تقاضا تھا؟ یا یہ وہ دھوکہ ہے جس نے ہماری نسلوں کو جکڑ لیا ہے؟
جہیز کے مہلک اثرات
غربت کی چکی میں پسے والدین: اکثر غریب والدین بیٹی کی شادی کے وقت اپنی جمع پونجی، زیور، زمین، یہاں تک کہ گھر بیچ دیتے ہیں تاکہ ’عزت سے‘ بیٹی کو رخصت کرسکیں۔ کیا یہ عزت ہے؟ یا ہم نے عزت کو روپے پیسے سے تولنا سیکھ لیا ہے؟
 بیٹی کو بوجھ سمجھا جانا: جب بیٹی کی پیدائش پر ہی والدین کو جہیز کا خوف ستانے لگے تو وہ لمحہ بیٹی کیلئے خوشی کا نہیں، ایک بےنام بوجھ کا لمحہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ناخواندہ یا معاشی طور پر مجبور خاندان بیٹی کی پیدائش پر افسوس کرتے ہیں۔
خواتین پر بعد از نکاح ظلم: جہیز کی کمی کا طعنہ اکثر عورت کو پوری زندگی سہنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ ان طعنوں کا انجام خودکشی، جلادینے، یا طلاق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
نکاح میں تاخیر: سادہ نکاح کو معاشرتی طور پر ’ناکافی‘ سمجھ کر اتنا مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ غریب تو کیا، متوسط طبقہ بھی بیٹی کی شادی کے نام سے ڈرنے لگا ہے۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
شعور کی بیداری: مساجد، مدارس، اسکولوں، کالجوں اور گھروں میں اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو ہونی چاہئے۔ علما صرف نکاح پڑھانے تک محدود نہ رہیں بلکہ اس کے اسلامی اصول بھی بیان کریں۔
عملی مثالیں: خودداری کے ساتھ سادہ شادی کا آغاز کریں۔ اپنی بیٹی کی رخصتی بغیر جہیز کریں اور بیٹے کی شادی پر جہیز لینے سے انکار کریں۔
قانون سازی اور اس پر عمل: کئی ممالک میں جہیز لینا جرم ہے، مگر اس پر عمل کمزور ہے۔ مسلمانوں کو بطور برادری اس پر عمل درآمد کیلئے آواز بلند کرنی ہوگی۔
میڈیا کی ذمہ داری: فلمیں، سیریلز اور سوشل میڈیا جب تک ’عالیشان شادی‘ کو کامیابی کی علامت بناتے رہینگے تب تک عام ذہن اس لعنت کو ’ضروری‘ سمجھتا رہیگا۔ ہمیں نئے بیانیے تخلیق کرنا ہوں گے۔
 بیٹیاں سوال نہیں، نعمت ہیں ، اسلام نے بیٹی کو نعمت کہا، جنت کی کنجی قرار دیا اور نبی کریمؐ نے فرمایا، ’’جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں ادب سکھایا اور ان کی شادی کی، وہ جنت کا حقدار ہوگا۔‘‘ (ترمذی) لیکن آج ہم بیٹی کو خود اپنے ہاتھوں سے بوجھ بنا چکے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں نکاح سادگی سے کرنا ہوگا۔ اور یاد رکھئے جو رشتہ پیسوں سے شروع ہوتا ہے، وہ برکت سے خالی ہوتا ہے۔ جبکہ جو رشتہ سچائی، سادگی اور سنت پر قائم ہو، وہی اللہ کی رضا کا سبب بنتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK