Inquilab Logo

انتخابات اور خواتین: ہر رَنگ ہمارا ہے ہر رَنگ میں ہم ہیں

Updated: June 11, 2024, 12:59 PM IST | Principal Jawaria Qazi | Mumbai

’’صنف ِ نازک‘‘ کے تعلق سے یہ رجحان رہا ہے کہ ان کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن نہ پہلے ایسا تھا اور نہ اب ہےبلکہ ان کی شرکت کے ساتھ ہی کوئی بھی کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ ذیل کی سطور میں حالیہ انتخابات میں خواتین کی شرکت اور ان سے متعلق موضوعات کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے

In recent elections, women have also asserted their status by exercising their right to vote. Photo: INN
حالیہ انتخابات میں خواتین نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے اپنی حیثیت کو بھی منوا لیا ہے۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان کی قدیم ثقافت سے لے کر آج کے مصنوعی ذہانت کے دور تک خواتین نے اپنا مضبوط سماجی کردار ادا کیا ہے ملک کی سلطنت سے اقوامِ متحدہ تک، جمہوری گلیاروں سے کاروباری کمپنیوں تک، کھلیانوں سے شیئر بازاروں تک، طب اور قانون کے ساتھ ملک کی انتطامیہ سے دفاعی نظام کے ساتھ خلائی سائنس کے کامیاب تجربات، دواساز ریسرچ، زرعی ریسرچ، صحافت اور مواصلاتی تکنیکی شعبوں تک، گاؤں کی پگڈنڈیوں سے اسمارٹ سٹی کی شاہراہوں تک ایسی خاموش محنت جسے سراہنے کا چلن ہمارے سماج میں نہیں رہا۔ حالیہ انتخابات سے قبل اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ خواتین ووٹرس کی تعداد زیادہ ہے شاید اس وقت یہ بات غیر اہم لگی ہو لیکن جنہوں نے انتخابات کی مہم کا بغور مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہوں گے کہ انہوں نے اپنا خاموش کردار جمہوریت کی بقا کے لئے نبھایا ہے جو قابلِ ستائش بھی ہے اور قابلِ غور بھی۔ 
 ایک اصطلاح رائج ہے صنف ِ نازک کی جو سراسر غلط ہے۔ کیونکہ جو تخلیق کے کرب سے آشنا ہو وہ کمزور کیوں کر ہو سکتا ہے۔ بہت کم لوگ واقف ہیں کہ ٹاٹا سفاری کا پلانٹ ایسا ہے جہاں  ساری خواتین ملازمت کرتی ہیں۔ تکنیکی ماہرین سے لے کر ٹیسٹ ڈرائیو تک سب خواتین کرتی ہیں اور یہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ بنیے اور صنعت کار میں کیا فرق ہوتا ہے، مشن مدارِ مر یخ سےچاند کے تاریک حصے میں بھیجے جانے والے سٹیلائٹ سے ادیتیہ ایل ون تک کی قیادت میں اسرو کی خاتون سائنسداں پیش پیش رہی ہیں۔ کچھ نکات پر ایک سرسری نگاہ کی ضرورت ہے تا کہ ہم اس بات کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیں۔ 
ووٹنگ میں حصہ داری : آبادی کے تناسب سے تو یہ بڑھی ہی ہے لیکن مختلف سماجی اور فلاحی تنظیموں نے خواتین نے ووٹ ڈالنے کی ترغیب بھی دی۔ شدید موسم کے باوجود جسمانی طور پر معذور خواتین نے وہیل چیئرکی مدد سے پولنگ بوتھ پہنچ کر اپنے جمہوری حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ یہ اور بات ہے کہ جیتنے والی لوک سبھا امیدواروں کی تعداد ۷۳؍ہے جو پچھلے چناؤ سے کم ہے۔ 
خواتین کے لیے ریزرویشن بل: یہ بل جو پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں ۳۳؍فیصد نشستیں خواتین کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو خواتین کی سیاسی حصہ داری میں بڑا فرق دکھائی دے گا جب کہ بطور ووٹر خواتین کی تعداد ہندوستان کی آبادی کے نصف سے زیادہ ہے تو ان کی نمائندگی کا حق بھی ملنا چاہئے۔ اس میں ایک بات اور قابلِ غور ہے کہ جس وقت پارلیمانی ممبران کی تعداد طے ہوئی تھی س وقت سے اب تک آبادی کتنی بڑھی ہے اس لحاظ سے نمائندگی نہیں ہو پارہی ہے۔ 
 انتخابی مسائل : خواتین سے متعلق مسائل جیسے تحفظ، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع، انصاف صنفی نابرابری گھریلو تشدد ذہنی اور جذباتی تناؤ جیسے کئی معاملات توجہ کے مستحق ہیں جو آنے والے وقت میں سیاست اور سماج دونوں کے لئے سوالیہ نشان بن سکتے ہیں۔ 
 سیاسی آگاہی اور با اختیاری : خواتین سیاست میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہیں اور مختلف تنظیموں کی طرف سے انہیں با اختیار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انتخابی نتائج میں یہ نظر بھی آرہا ہے۔ 
 اہم با اختیار خواتین :بھارت کی تاریخ میں ان کے نقش پا ایسے ثبت ہیں کہ سماجی تنگ دلی اور پدری معاشرے کی سنگ دلی بھی انہیں دھندلا نہیں کر پائی ہے۔ رضیہ سلطان، چاند بی بی، بھوپال کی بیگمات، ساوتری بائی، اہلیہ بائی، بی اماں، بیگم حضرت محل، رانی لکشمی بائی، نشاط النسا بیگم، اقبال النساء بیگم، گوری لنکیش، اروندھتی رائے، کملا باسِن، پہلی خاتون وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر نجمہ خاتون، ممتا بنرجی، اور حالیہ انتخابات میں فاتح کیرانہ سے اقراءحسن اور کئی سیاسی جماعتوں کی ترجمان بتارہی ہیں کہ جگنو تو اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں۔ 
 سی ای سی راجیوکمار نے پریس ریلیز میں یہ معلومات دی ہے کہ کل ۶۴؍کروڑ ووٹ ڈالے گئے جس میں ۳۱؍ کروڑ سے زائد خواتین نے ووٹ ڈال کر تاریخ رقم کی ہے جو اب تک دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے ستائشی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔ ــــاس کے ساتھ قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ ملک میں خاتون وزیر ِاعظم اور صدور رہنے کے باوجود خواتین کی صورتِحال میں خاطر خواہ بہتری نہیں دکھائی دیتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اراکین کی تعداد بہت کم ہے اوران میں بیشتر مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ خواتین نمائندگی کے عالمی درجہ بندی میں ہندوستان کا مقام نیچے سے بیسویں نمبر پر ہے جب کہ مسلم خواتین کی نمائندگی برائے نام ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے کسی بھی سیاسی جماعت نے ایک وقت میں تین سے زیادہ مسلم خواتین کو ٹکٹ نہیں دیا۔ یہ ہمارے لئے ایک لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ 
 یہ ایک عام غلط فہمی ہے اور مفروضہ ہے کہ مسلم خواتین قدامت پسند اور معاشی، ثقافتی اور معاشرتی طور پر پسماندہ ہیں جب کہ دیگر کئی عوامل بنیادی طور پر انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں کی تنظیموں میں بھی اسے نظر انداز کیا گیا ہے جب کہ حال ہی میں شہریت قانون پر منظم اور حوصلہ مند احتجاج درج کر مسلم خواتین نے اپنی فراست اور استقامت کا عملی ثبوت پیش کیا اس احتجاج میں سیاسی اور مذہبی پیشوا نہیں تھے لیکن زندگی کے ہر شعبے سے منسلک خواتین نے اپنے سیاسی شعور کا احساس کروایا تھا۔ 
ملا ہے حق مجھے بھی وقت کے ہمراہ چلنے کا 
خود اپنے خواب بننے کا انہیں تعبیر دینے کا 
یہ دنیا میرے ہاتھوں سے قلم جو چھین لیتی ہے 
ہمیشہ چولھے چوکے تک ہی بس محدود رکھتی ہے 
اسے شاید یہی خدشہ ستاتا رہتا ہے ہر دم 
میری یہ آگہی مجھ کو نئی پہچان دے دے گی 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK