کوئی اچھی بات ہو تو انسان مسکرا دیتا ہے اور غم آنے پر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ ہر احساس ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ یہی توازن ہمیں ذہنی سکون اور حقیقی خوشی سے ہمکنار کرتا ہے۔ زندگی میں ہر جذبے کو قبول کریں۔ اس سے آپ مطمئن زندگی جی پائیں گی۔
ہم انسان ہیں اور ہمیں انسان ہی رہنا چاہئے۔ دکھ میں ہم افسردہ ہوسکتے ہیں اور خوشی کے موقع پر ہنس سکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
زندگی خوشی اور غم، راحت اور تکلیف، امید اور مایوسی کے امتزاج کا نام ہے۔ مگر آج کے دور میں ایک غیر محسوس دباؤ ہر شخص پر چھایا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ مسکرائے، ہر حال میں پرجوش رہے اور دکھوں کو چھپا کر صرف خوشی کا اظہار کرے۔ یہ رجحان بظاہر مثبت دکھائی دیتا ہے لیکن دراصل یہ ایک ایسی نفسیاتی زنجیر ہے جو انسان کے فطری جذبات کو جکڑ لیتی ہے۔ اسے ہی ہم ’ٹاکسک پازیٹویٹی‘ کہتے ہیں۔ یہ رویہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب معاشرہ یا فرد اپنے دکھ، خوف اور کمزوریوں کو تسلیم کرنے کے بجائے انکار کی راہ اختیار کرتا ہے۔ ہر غم کو مصنوعی مسکراہٹ کے پردے میں چھپانا دراصل حقیقت سے فرار ہے۔ انسان جب اپنے زخموں کو لفظوں میں ڈھالنے کے بجائے ان پر خوشی کا ملمع چڑھانے لگے تو وہ آہستہ آہستہ اپنی اصل کیفیات سے کٹنے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اس کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی سکون کو بھی غارت کر دیتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دکھ اور مایوسی بھی بعض اوقات زندگی کے توازن کیلئے اتنے ہی ضروری ہیں جتنے خوشی اور امید۔ رونا، ٹوٹنا، خاموش رہنا یا کسی کرب کو بیان کرنا بھی انسانی ذہن کے صحتمند ہونے کی علامات ہیں۔ لیکن جب آپ ہر دکھ کے جواب میں خود سے یہ جملہ دہرانے لگیں کہ ’’مثبت سوچو، سب بہتر ہے‘‘، تو یہ الفاظ تسلی نہیں بلکہ دباؤ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
ٹاکسک پازیٹویٹی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو اپنے احساسات پر شرمندہ کر دیتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ دکھ یا غم محسوس کرنا کمزوری ہے حالانکہ یہ جذبات انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ جب انسان اپنے دکھ کو دبا دیتا ہے تو وہ لاشعور میں زخموں کو گہرا کرتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب یہ زخم ذہنی بیماریوں، بے چینی اور تنہائی پسندی کی شکل میں پھوٹ پڑتے ہیں۔ حقیقی مثبتیت وہ ہے جو دکھ کو تسلیم کرے، کمزوریوں کو قبول کرے اور پھر امید کی کرن ڈھونڈنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ یہی سچائی پر مبنی خوشی ہے۔ ٹاکسک پازیٹیویٹی کو مندرجہ ذیل مثالوں کے ذریعے بھی سمجھا جاسکتا ہے:
خوشی کی مصنوعی تلاش
انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ سکون اور خوشی کا متلاشی رہتا ہے۔ لیکن خوشی کے حصول کی یہ خواہش جب حد سے بڑھ جائے تو انسان اپنے دکھ اور کرب کو جھٹلانے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا، اشتہارات اور جدید طرزِ زندگی نے اس رجحان کو اور بڑھا دیا ہے۔ ہر چہرہ مسکراتا دکھائی دیتا ہے، ہر تصویر میں خوشی بکھری ہوتی ہے اور ہر جملہ امید سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ مصنوعی مسکراہٹیں اور زبردستی کے خوشنما جملے حقیقت میں انسان کو ایک ایسے دائرے میں قید کر دیتے ہیں جہاں دکھ اور مایوسی کو جگہ ہی نہیں ملتی۔ انسان اپنے دل کی چیخ کو دبانا سیکھ لیتا ہے اور اندر ہی اندر ٹوٹتا رہتا ہے۔ آج کے ڈجیٹل دور میں ہر دوسرا شخص ’ریل لائف‘ کو ’ریئل لائف‘ سمجھ بیٹھتا ہے اور اوروں کی سی زندگی کے دکھاوے میں یہ سب اقدامات کرتا ہے۔
احساسات کی نفی کا انجام
جب انسان کو ہر حال میں مثبت رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اپنے حقیقی جذبات سے کٹ جاتا ہے۔ غم اور دکھ کو دبانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ختم ہو گئے ہیں بلکہ وہ لاشعور میں اور بھی گہرے ہو جاتے ہیں۔ یہ دبی ہوئی کیفیات وقت کے ساتھ ذہنی امراض، اضطراب، بے خوابی اور تنہائی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ کئی بار انسان اپنی پہچان کھو بیٹھتا ہے کیونکہ وہ اپنی اصل کیفیات کو جاننے اور ماننے ہی نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف وہ دنیا کے سامنے مسکراتا ہے اور دوسری طرف تنہائی میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتا ہے۔
سماجی دباؤ اور جھوٹی تسلیاں
ہمارے معاشرے میں دکھ کے لمحوں میں اکثر لوگ یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ ’’سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘، ’’غم کرنے سے کیا فائدہ‘‘ وغیرہ۔ یہ جملے سننے میں حوصلہ افزا لگتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ متاثر شخص کے احساسات کی نفی کر دیتے ہیں۔ غم کے لمحے میں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ رکے، روئے، سوگ منائے، اپنی کیفیت بیان کرے اور سکون حاصل کرے۔ لیکن جب اس کی آواز کو ’مثبت رہو‘ کی گونج میں دبایا جائے تو وہ شخص اپنی کمزوری کو عیب سمجھنے لگتا ہے اور یوں اپنی ہی فطرت کے خلاف بغاوت پر مجبور ہو جاتا ہے۔
حقیقی پازیٹویٹی کی پہچان
یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ مثبت سوچ کا مطلب کبھی بھی دکھ سے فرار نہیں۔ حقیقی پازیٹویٹی ہے کرب کو تسلیم کرنا، دکھ کو جگہ دینا اور پھر اس دکھ سے نکلنے کی امید دلانا۔ اگر انسان اپنی کمزوری کو قبول کرے اور اسے انسانی وجود کا حصہ سمجھے تو وہ زیادہ مضبوط بنتا ہے۔ مصنوعی مسکراہٹ اور بناوٹی جملے وقتی طور پر سکون تو دے سکتے ہیں لیکن دیرپا راحت صرف سچائی میں ہے۔