• Sat, 27 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل کو مغربی کنارہ ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا: ڈونالڈ ٹرمپ

Updated: September 26, 2025, 12:01 PM IST | Washington

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دیں گے جس سے فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات ختم ہوسکتے ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب نیتن یاہو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیلئے نیویارک پہنچے ہیں اور اسرائیلی حکومت اندرونی و بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔

Donald Trump. Photo: INN.
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے (West Bank) کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے اسرائیل کے بعض انتہا پسند سیاستدانوں کی ان اپیلوں کو مسترد کر دیا جو اس علاقے پر خودمختاری بڑھانے کے خواہاں ہیں اور اس طرح فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’میں اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ نہیں، میں اجازت نہیں دوں گا۔ یہ ہونے والا نہیں ہے۔ اب بہت ہو گیا، اب وقت ہے کہ اسے روکا جائے۔ ‘‘ٹرمپ نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا جب بنجامن نیتن یاہو جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیلئے نیویارک پہنچ رہے تھے۔ اسرائیل اور دنیا بھر میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس ہفتے برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس، کنیڈا اور پرتگال کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد نیتن یاہو کس طرح ردعمل ظاہر کریں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مائیکروسافٹ نے اسرائیلی فوج کی کلاؤڈ اور اے آئی خدمات معطل کر دیں

یروشلم میں حکام نے کہا ہے کہ نیتن یاہو جو بھی اقدام کریں گے وہ پہلے ٹرمپ سے منظوری لیں گے۔ ماہرین کے مطابق ان اقدامات میں مکمل طور پر مغربی کنارے کا انضمام، یا صرف اس کے کچھ حصے مثلاً اردن کی سرحد کے ساتھ ایک پٹی، یا پھر مشرقی یروشلم میں برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کے قونصل خانوں کو بند کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے برطانوی حکام نے کہا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ٹرمپ برطانیہ اور دیگر ممالک کے اقدام کے جواب میں مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں پر اسرائیلی کنٹرول کو تسلیم کر لیں گے۔ عرب اور یورپی لیڈران نے سخت سفارتی دباؤ ڈالا تاکہ ٹرمپ مغربی کنارے کی بستیوں کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ نیتن یاہو کو اپنی اتحادی حکومت میں شامل انتہا پسند دھڑوں کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کیلئے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ اس پر عرب لیڈران نے تشویش ظاہر کی اور منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ 

یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ میں اسپین کا بھی اسرائیل پر شدید حملہ

عرب اور مسلم ممالک نے ٹرمپ کو خبردار کیا کہ مغربی کنارے کے انضمام کے سنگین نتائج ہوں گے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کے مطابق امریکی صدر یہ پیغام ’’بخوبی سمجھتے ہیں ‘‘۔ اسرائیل نے۱۹۶۷ء کی جنگ میں اردن سے مغربی کنارہ قبضے میں لیا اور پھر وہاں فوجی قبضہ مسلط کیا۔ اس کے بعد سے اسرائیلی آباد کاریاں بڑھتی گئیں اور اب وہاں سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کا ایک ایسا نظام موجود ہے جو اسرائیلی کنٹرول میں ہے اور زمین کو مزید تقسیم کرتا ہے۔ اگست میں اسرائیلی بستیوں کے ایک متنازع منصوبے ای ون (E1) کو حتمی منظوری دی گئی جسے بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ یہ منصوبہ مغربی کنارے کو دو حصوں میں کاٹ دے گا اور اسے مشرقی یروشلم سے الگ کردے گا۔ یہ علاقہ فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے تجویز کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی وزیر خزانہ اور انتہائی قوم پرست سیاستداں بیزلیل اسموترچ نے اس وقت کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کو ’’دستور سے مٹا دیا گیا ہے‘‘۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایران نے کبھی جوہری بم بنانے کی کوشش نہیں کی ، اور نہ کبھی کرے گا: ایرانی صدر

فی الحال تقریباً ۷؍ لاکھ اسرائیلی آباد کار مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں، جہاں تقریباً۲۷؍ لاکھ فلسطینی بھی آباد ہیں۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو ضم کر رکھا ہے، لیکن یہ اقدام زیادہ تر ممالک تسلیم نہیں کرتے۔ بین الاقوامی برادری کی اکثریت مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ اسرائیل اس سے اتفاق نہیں کرتا اور تاریخی و مذہبی رشتوں کے ساتھ ساتھ سیکوریٹی کے دلائل پیش کرتا ہے۔ اسی دوران جب عالمی لیڈران اقوام متحدہ میں جمع ہیں، امریکہ نے تقریباً دو سال سے جاری غزہ جنگ کو ختم کرنے کیلئے ۲۱؍ نکاتی مشرقِ وسطیٰ امن منصوبہ پیش کیا ہے۔ ٹرمپ، جو دنیا کے سامنے اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی سمجھے جاتے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے جمعرات کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کے نمائندوں اور نیتن یاہو سے بات کی ہے اور غزہ پر ایک معاہدہ جلد ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا:’’ہم یرغمالوں کو واپس چاہتے ہیں، ہم لاشوں کو واپس چاہتے ہیں اور ہم اس خطے میں امن چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہماری بہت اچھی بات چیت ہوئی ہے۔ ‘‘بتا دیں کہ غزہ میں جاری جنگ کے باعث اسرائیل کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK