Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوڑھنی اسپیشل: کسی کی منفی تنقید کا جواب آپ کیسے دیتی ہیں؟

Updated: February 15, 2024, 7:19 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Reacting immediately to negative criticism can be counterproductive. Photo: INN
منفی تنقید پر فوراً ردعمل ظاہر کرنا نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این

تنقید کو چیلنج سمجھئے


 کسی کی  تنقید کو خاموشی سے سنئے، اس کی بات پر غور کیجئے اور اگر آپ غلط ہیں تو اس غلطی کی اصلاح  کیجئے۔ تنقید کو کھلے دل سے قبول کیجئے۔جذباتی ہوکر فوراً  بھڑکئے نہیں۔ تنقید کو چیلنج سمجھ کر براہ راست تنقید کرنے والوں  ہی سے  مشورہ کیجئے ۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ بلا وجہ تنقید کرنے والوں کو احساس ہو کہ کون غلط ہے؟ تنقید کرنے والوں کو ہمیشہ مثبت جواب دیجئے کیونکہ تنقید ہماری ذات کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ یاد رکھئے کہ آپ کو اپنی شخصیت خود تعمیر کرنی ہے۔ خود اعتمادی پیدا کر کے بھرپور شخصیت کے ساتھ زندگی کا مقابلہ کیجئے یا پھر منفی بیانات کا نشانہ بن کر اپنی زندگی گھٹ گھٹ کر جینے کے عادی بن جائیے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
تسنیم کوثر انصار پٹھان  (کلیان، تھانے)
سمجھداری سے ردعمل ظاہر کیجئے


تنقید کا مطلب ہمیشہ منفی نہیں ہوتا بلکہ بعض تنقید کے پیچھے اچھے  تاکید اور اصلاح  جذبہ چھپا ہوتا ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم جائزہ لینے کا بعد جواب دینے کی کوشش کریں۔ بعض  دفعہ لوگ تنقید کا جواب منفی انداز میں دیتے ہیں جو  دشمنی  کا باعث بن جاتا ہے، ہمیشہ خاموشی رہئے۔ کہتے ہیں کہ  باصلاحیت انسان ہمیشہ اپنے کام سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ خاص طور پر منفی اور بے بنیاد تنقید کے جواب میں آپ حسن اخلاق سے پیش آئیے۔ ڈیل کارنیگی   معروف امریکی مصنف ہے، ان کے یہ  الفاظ  ذہن میں رہنے چاہئیں،’’کوئی بھی بے وقوف، نکتہ چینی، بے بنیاد مذمت اورشکایت کر سکتا ہے۔ اب یہ آپ کی ضبط کی صلاحیت اور کردار پر منحصر ہے کہ آپ اسے سمجھتے ہوئے معاف کر دیتے ہیں۔ ‘‘خلاصہ یہ کہ تنقید پر ردعمل انتہائی سمجھداری سے ظاہر کرنا چاہئے۔ آپ کی بہتری کیلئے کی جانے والی تنقید ایک چھلنی کی مانند ہوتی ہے۔ یہ ہماری ذات کو بہتر بنانے میں  مدد کرتی ہے۔ حسن اخلاق سے پیش آنا  ہمارے نبیوں کا طریقہ تھا۔ انہوں نے  بے جا تنقید پر بھی کسی  کو بُرا بھلا  نہیں کہا۔ دشمنی نہیں کی، انتقام نہیں لیا۔  آپ حسن اخلاق سے پیش آئیں گی تو  یہ تنقید کرنے والے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہوگا۔ آپ جواب میں اگر صرف مسکرائیں گی ، نرم لہجہ اختیار کریں گی یا خاموش رہیں گی تو یہ عمل نہ صرف حسن اخلاق کے ضمن میں شامل  ہوگا بلکہ یہ عمل تنقید کرنے والے کو شرمندہ بھی کر سکتا ہے۔
آفرین عبدالمنان شیخ  (شولاپور، مہاراشٹر)
 ’’منفی سوچ والوں سےدور رہتی ہوں‘‘


منفی تنقید نتیجہ ہوتی ہے کسی غلط فہمی یا رنجش  کا۔کچھ لوگوں کی تو یہ عادت ہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تنقید حقیقت پر بھی مبنی ہو سکتی ہے۔ میں صبر سے تنقید سن کر تجزیہ کرنے کے بعد غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ تنقید  جائز ہو تو اپنے آپ میں تبدیلی لانے کی کوشش بھی کرتی ہوں۔ ایسے منفی سوچ والوں سےدور رہتی ہوں جو دوسروں میں خامیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ 
شگفتہ راغب احمد (نیرول، نوی ممبئی)

’’تعمیری تنقید کو قبول کرتی ہوں‘‘


تنقیدوں سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ مجھے بھی آئے دن تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تنقیدیں تعمیری بھی ہوتی ہیں اور تخریبی بھی۔ کوئی اگر تعمیر کی نیت سے مجھ پر تنقید کرتا ہے تو میں کھلے دل سے اسے قبول کرتی ہوں اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتی ہوں۔ اس کے برعکس بہت سی منفی تنقیدیں بھی ہوتی ہیں جس کا مقصد ہمیں نیچا دکھانا ہوتا ہے یہ ازراہِ تمسخر بھی ہوتی ہیں۔ ایسی تنقیدوں پر میں کان نہیں دھرتی ہوں ۔ ان باتوں کو اس قابل نہیں سمجھتی  کہ ان پر غور کیا جائے۔ صرف ایک بیمار ذہنیت کی اپج سمجھ کر انہیں نظر انداز کر دیتی ہوں۔ زندگی میں خوش رہنے کیلئے یہی بہتر ہے کہ ایسی باتوں کو نظرانداز کر دیا جائے
انصاری آصفہ بدرالزماں (بھیونڈی، تھانے)
مہر بان نکتہ چیں کی قدر کرتی ہوں


نکتہ چینی ! یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں کوئی مثبت تاثر نہیں پیدا ہوتا، در پردہ اس سے رقابت اور حسد کی بُو آتی ہے کہ اس میں عیب جوئی کا عنصر نمایاں رہتا ہے۔ بلا جواز نکتہ چینی کرنے والے افراد معاشرے میں پسندیدہ نہیں ہوتے کیونکہ انسانی مزاج اور فطرت میں تنقید و تنقیص برداشت کرنے کی سکت بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ لوگوں کی زندگی اور کاموں کی ٹوہ میں رہنا اور اپنی راہ مسلط کرنا کوئی شریفانہ عمل نہیں، ذاتی طور پر میں خود بھی اس عمل کو دخل در معقولات بلکہ دخل در معمولات سمجھتی ہوں اور دوسروں کی کارکردگی، اُن کی عادات اطوار اور طرززندگی پر تنقید کرنے یا کسی بھی درجے میں تضحیک کرنے سے گُریز کرتی ہوں۔ جب کوئی میری ذات اور میرے قول وعمل پر غیر واجب ایسی نکتہ چینی کرے جس میں رقابت اور حسد کا پہلو ہوتو اُن افراد سے تعلقات میں ایک محفوظ فاصلہ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ ایسے بد نیّت  افراد کو جواب دیتے رہنا وقت اور توانائی کا ضیاع ہے۔
  دوسری جانب اگر کوئی ایسا مہر بان نکتہ چیں ہو جو میری خامیوں اور غلطیوں کی اصلاح کی نیت سے میرے قول و عمل پر تنقید کرے تو شُکر اور احسان مندی کے ساتھ اس نکتہ چینی کو بطور نصیحت قبول کرتی ہوں اور اُن افراد کی بہت قدر کرتی ہوںکیونکہ ایسے اصلاح پسند اور مُخلص لوگ اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ 
خالدہ فوڈکر (ممبئی)
معقول اورمہذب جواب دینا چاہئے


کسی بھی منفی تنقید کا مکمل جائزہ لئے بغیر برہم ہوکر ردِّ عمل میں جلدبازی کرنا اکثر نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ میں تنقید کے اغراض و مقاصد کو سمجھنا ضروری مانتی ہوں۔ اگر تنقید کرنے والے کا منشا ہماری شبیہ خراب کرنا یا نقصان پہنچانا  ہے تو اس سے تصادم کا راستہ اپنائے بغیر احتیاط برتنا بہتر ہے۔ اگر اس منفی تنقید سے نقصان لاحق ہے تو مناسب چینل کے ذریعے اُسکا محتاط اور شائستہ انداز میں جواب دینا چاہئے۔ مثلاً اگر کسی رسالے یا اخبار میں یہ تنقید چھپی ہے تو اسی جریدے میں اس تنقید کا معقول اور تہذیب کے دائرے میں جواب بھی شائع ہونا چاہئے۔ ہمیں محض تعریفیں سننے کا شوقین نہیں ہونا چاہئے۔ غرض یہ کہ جھگڑے اور بدگمانی سے ہر صورت میں بچنا ضروری ہے اور جہاں ضروری ہو وہاں مثبت طور پر معقول صفائی بھی مناسب ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے پیش کی جانی چاہئے۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
تنقید کے بعد کام  پر مزید توجہ دیجئے


تنقید جب کی جاتی تو سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ تنقید برائے تعمیر ہے یا تنقید برائے تخریب، اس غوروفکر کیلئے تحمل ضروری ہے۔ کسی بھی تنقید پر مشتعل ہونایا فوری ردعمل ظاہر کرنا عقلمندی نہیں۔ دراصل تنقید کرنے والا ہمارا خیر خواہ یا بد خواہ، اسی پر سارا معاملہ منحصر ہوتا ہے۔  مثلاً میرے درس قرآن  دینے پر کچھ افراد نے پوچھا کہ کیا آپ نے عالمہ کا کورس کیا  ہے؟ آپ  نےکس  مدرسہ سےفضیلت کی ڈگری حاصل کی ہے؟ یا آپ کس مسلک سے تعلق رکھتی ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ہماری بڑھتی ہوئی مقبولیت کسی کو نہ بھائی ہو اور  یہ سوالات اسی کا نتیجہ ہوں۔ جب کوئی تنقید کرے تو ہمیں اپنے کام کے تئیں مزید سنجیدہ ہو جانا چاہئے۔  اس کام کو اپنی ذمہ اری سمجھ کر اس کو نکھارنے کی سعی کریں تا کہ کوئی کوئی خامی  باقی نہ رہے۔ تنقید پر سیخ پا ہونے کے بجائے اسکے مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھنے سے کامیابی کی مزید سیڑھیاں چڑھنے میں  مدد ملے گی۔ بعد میں ان سے مل کر  بتائیے کہ آپ کی تنقید کے بدولت ہی میرے اندر مزید خوبیاں پیدا ہوئی ہیں اور میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ اب میں اپنا کام میں  بہت دل لگا کر کر پا رہی ہوں۔ 
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)

منفی تنقید، ذاتی اصلاح کا موثر ذریعہ
تنقید انسانی رویوں کی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ منفی تنقید میں بسا اوقات خوبیوں سے صرف نظر کر کے خامیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم منفی تنقید پر اکثر برہم ہو جاتے ہیں جبکہ اگر دیکھا جائے تو منفی تنقید حقیقتاً کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ ہماری ذات کو پرکھنے کی ایک بہترین کسوٹی ہے۔ روز مرہ زندگی میں ہر فرد کو کسی نہ کسی طور پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ اسے خوشدلی سے قبول کرتے ہیں جبکہ کچھ ناگواری کا اظہار کرتے ہیں ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر تنقید کوئی اصلاحی پہلو ضرور لئے ہوتی ہےلہٰذا ہمیں چاہئے کہ تنقید کو فراخ دلی سےبطور اصلاح  قبول کریں۔ ہرتنقید میں کوئی نہ کوئی تعمیری پہلو اور ہماری بہتری کا کوئی عنصر لازماً موجود ہوتا ہے، اسے کبھی نظر انداز نہیں کریں۔ منفی تنقید کو مثبت رویے سےنمٹنے کی عادت ڈالیں، برداشت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنقید کا سامنا کریں، اسے اپنی اصلاح کی جانب پہلا قدم جانیں۔
فوڈکر ساجدہ (جوگیشوری، ممبئی)
’’تنقید  پر کبھی بھی برا نہیں مانتی‘‘


تنقید کوئی بری بات نہیں ہے۔ تنقیص بری بات ہے۔  تنقید میں ہمیشہ اصلاح کا پہلو پوشیدہ ہوتا ہے۔ تنقید سے خود احتسابی کا موقع ملتا ہے۔ کسی شخص میں جو خامیاں، کمیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں ان کو دور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تنقید کا میں ہمیشہ اسقبال کرتی  ہوں۔ اس کے رد عمل میں کبھی بھی غصے کا اظہار نہیں کرتی۔ صرف یہی کہتی ہوں کہ میں اس پر غور کروں گی اور اصلاح کرنے کی کوشش کروں گی۔ یہی وجہ ہے کہ شروع سے اب تک میں نے تنقید سے بہت سبق سیکھا ہے اور اپنے بچوں کو بھی ہمیشہ یہی سکھایا ہے کہ اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو سمجھو کہ تم خوبیوں کے مالک ہو اور جو تنقید کرتا ہے تو سمجھو کہ وہ خود احساس کمتری کا شکار ہے اور خواہ مخواہ  کامیاب انسان پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ تنقید ہمیشہ کامیاب انسان ہی  پر کی جاتی ہے۔  ناقد سے کبھی رشتے  بگاڑنے  نہیں چاہئیں بلکہ رشتے استوار کر کے رکھنے چاہئیں۔ ایسا نہ ہو کہ رشتے بگڑ جائیں اور بعد میں ان سے ملاقات پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔ تنقید اپنے ملنے جلنے والے ہی کرتے ہیںکیونکہ وہ ہمارے نشیب و فراز سے واقف ہوتے ہیں، اس لئے تنقید  پر کبھی بھی برا نہیں مانتی۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
 ’’کسی کی دل آزاری نہ ہو‘‘


اکثر اوقات ہم سے کچھ ایسے کام ہو جاتے ہیں جو ہماری نظر میں تو صحیح ہوتے ہیں مگر دوسرے اس  کے خلاف اپنی رائے  پیش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں میں بات کی نوعیت پر یا پھر مزاج کے مطابق رد عمل ظاہر کرتی ہوں۔ کبھی منفی تنقید کے ذریعے کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے تو خوشی محسوس ہوتی ہے یا پھر کسی کو’ کنونس‘ کرنے کی جگہ خاموشی بہتر ہتھیار ہوتی ہے۔ کبھی مسکرا کر بات کو رفع دفع کر دیتی ہوں۔ کوشش رہتی ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ میرے کسی بھی طرح کے رد عمل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔بھلے ہی ان کی منفی تنقید سے میرا دل دکھا ہو، میں خدا کے سامنے رو لیتی ہوں مگر کوشش کرتی ہوں کہ ان کیلئے میرے دل میں کوئی تلخی نہ ہو بلکہ میرے رد عمل سے وہ یہ سوچے کہ ہمارے اس  رویے کے باوجود اس نے تلخی سے کام نہیں لیا۔ یہی میرے لئے سب سے بڑی مسرت کی بات ہوتی ہے۔ 
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
منفی سوچ اُداسیوں کا پہلا باب
میں کوشش کرتی ہوں کہ جو منفی سوچ کے حامل ہیں،ان کا جواب مثبت سوچ سے دوں اور انہیں  مثبت سوچ کا حامل بناؤں، مثبت پہلو  نہ صرف ذہنی انتشار کو ختم کرتا  ہے بلکہ بہت سی غلط فہمیوں کو  دور کرتاہے، منفی سوچ باہمی تعلقات کی تلخیوں کا باعث ہے اگر تنقید کے بجائے اسی کو مثبت انداز میں سوچیں تو بہت سی الجھنوں کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے لوگوں سے بھی سامنا ہوتا ہے جو ہرمعاملے میں خود کو ہی سب سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ وہ خود پریشان ہوتے ہیں اور پریشانی کا سبب بھی بنتے ہیں اور انکی منفی سوچ انکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔  سوچ و افکار انسانی معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں اور اپنی مثبت سوچ سے ہم اس معاشرے کی بنیاد کو ٹھوس اور مضبوط بنا سکتے ہیں۔ 
ماریہ ممتاز اعظمی(اعظم گڑھ، یوپی)
جواب جاہلاں باشد خموشی 
 تنقید برائے تعمیر ممدوح اور مطلوب ہے۔ اسی سے افراد اور قوموں کی ترقی ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر چیز تغیر پذیر ہے، انہی تغیرات سے انسان سیکھتا ہے اور غلطیوں  پرہونے والی تنقید سے اپنی اصلاح بھی کرتا ہے جبکہ تنقید برائے تخریب منفی اور مخالف خیالات کا نتیجہ ہوتی ہے، ایسے میں اس کو برداشت کرنے کیلئے  صبر و تحمل چاہئے  اور کئی بار یہ تنقیدیں انسان کو پست ہمتی کی طرف لے جاتی ہیں۔    تنقید برائے تعمیر بسر و چشم قبول کرتی ہوں لیکن تنقید برائے تخریب سے ابھی کچھ زیادہ سامنا نہیں ہوا، کسی لمحے تھوڑا بہت محسوس کیا بھی ہے تو اس پر خاموش رہی۔ 
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)
تنقید کرنے والے کا شکرگزار ہونا چاہئے


تنقید کے لغوی معنیcritical appreciation ہوتے ہیں جس کے تحت مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں تنقیدیں اکثر لوگوں کو شرمندہ کرنے اور نیچا دکھانے کی لئے کی جاتی ہیں۔ پھر بھی کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہماری کارکردگیوں پر خلوص دل سے تنقید کرتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ہماری اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں اگر ہم تنقید کو مثبت سمجھیں تو یہ ہمارے لئے مفید ثا بت ہوگی۔ کیونکہ یہ تنقید ہماری ان کمیوں کو اجا گر کرتی ہے جن پر يا تو ہماری نگاہ نہیں  جاتی یا پھر ہم انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، اس لئے ہمیں تنقید کرنے والے کا  شکرگزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہماری کمیوں کی نشاندہی کی اور ہم اپنی کچھ اصلاح کر پائے۔
ڈاکٹر صبیحہ ناہید (نئی دہلی)

’’جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتی‘‘


تنقید دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک مثبت تنقید ہوتی ہے جس سے ہماری اصلاح ہو تی ہے، اس میں ہماری بھلائی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہےـ دوسری منفی تنقید ہوتی ہے جو کسی کو نیچا دکھانے اور اسکی عزت نفس پر چوٹ کیلئے ہوتی۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ اس وقت میں صبر سے کام لیتی ہوں اس منفی تنقید کو نظرانداز کر نے کی کوشش کرتی ہوں اور اس کا کوئی جواب نہیں دیتی کیونکہ فضول باتوں کا جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتی۔
شیخ نسیم بانو رضوان (کرلا، ممبئی)
’’نظرانداز کرتی ہوں‘‘
میں تنقید کرنے والوں کو نظرانداز کرتی ہوں اور لوگوں کی منفی باتوں پر دھیان نہیں دیتی۔ اگر کوئی بری عادت سے متعلق تنقید کرے تو اپنی عادت بدلنے کی کوشش کرتی ہوں، ورنہ اسے فضول سمجھ کر چھوڑ دیتی ہوں۔ 
سید نویرا گلریز اختر (جلگاؤں، مہاراشٹر)
منفی تنقید کا بھی مسکرا کر خیر مقدم کریں
ناقد کی نیت، لہجہ اور الفاظ کچھ بھی ہوں، یہ اس کا معاملہ ہے لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی منفی تنقید کا بھی مسکرا کر خیر مقدم کریں۔ اس سے کہیں کہ جناب ہم ممنون ہیں اور اس پر ضرورغور کریں گے۔ وہ اتنا شیریں جواب سن کر اگلی بار تنقید کرتے ہوئے خود محتاط ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اس کی تنقید کا جواب تلخ کلامی سے دینا خود کو اضطراب میں مبتلا کرنا ے اور اسے جری بنانے میں مددگار ہوگا۔ 
عنبر برکاتی (بھیونڈی، تھانے)
بے جا تنقید پر بحث نہ کریں
پہلے تو ہمیں ایسے  افراد اور ان کی تنقید کو بھی نظر انداز کرنا چاہئے۔ کسی کی منفی تنقید کا بھی خوش اسلوبی سے جواب دینا چاہئے اور ایسی تنقید پر بحث نہ کریں کیونکہ ان سے صرف رشتے خراب ہوتے ہیں اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
شبانہ حسن فاطمی (چھپرا، بہار)
 خاموش ہی  رہنا بہتر ہے


تنقید بہر حال تنقید ہے اور تنقید کیسی بھی ہو؟ ہر انسان کو بری لگتی ہے تنقید اگر منفی ہو تووہ دل پرلگتی ہے، ایسی تنقید کا جواب خاموشی ہی  سے دینا بہتر ہے ۔میرامعمول یہ ہے کہ میں منفی تنقید کا جواب بہت حکمت کے ساتھ اور صبر و ضبط کے ساتھ دیتی ہوں جس سے ماحول پر سکون رہتا ہے۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
مسکرا ہٹ سے اچھا کوئی جواب نہیں
مسکراہٹ ہر منفی تنقید اور ہر منفی سوال کا بہترین جواب ہے۔ مسکرا کر ہر فضول بحث کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے غصّے پر بھی کنٹرول رکھنا چاہئے اور فوری رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ہر تنقید منفی نہیں ہوتی ،کچھ برائیاں ہمارے اندر موجود بھی ہوتی ہیں تو پہلے غور کرنا چاہئے اور اگر وہ برائی ہمارے اندر ہے تو اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اگر منفی تنقید ہے تو مسکراہٹ سے اچھا جواب کوئی نہیں۔ 
شازیہ رحمٰن (غازی آباد، یوپی)
  فضول تنقید کا جواب دینا لاحاصل
کسی کی فضول تنقید کا جواب دینے کا کوئی مطلب نہیں  ہے، ایسے  افراد سے بحث کرنے  کا کوئی  فائدہ نہیں ہے۔ ان سے دھیرے دھیرے  دور ہوجائیں۔ 
مرزا تقدیس جاوید بیگ (غیبی نگر، بھیونڈی)
منفی تنقید کا مثبت انداز میں جواب 
تنقید معمولی ہی سہی مگر کوئی بنیاد ضرور ہوتی ہے۔ منفی تنقید جسے عام طور پر نکتہ چینی کہا جاتا ہے۔ اس میں ہمارے سیکھنے کا موقع پوشیدہ ہوتا ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ الغرض کچھ لوگ منفی تنقید کو دل و دماغ میں بیٹھا لیتے ہیں اور اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں کرتی بلکہ میں منفی تنقید کو کھلے دل سے قبول کرتی ہوںاور خود اعتمادی کے ساتھ مثبت جواب دیتی ہوں۔ 
گلناز مطیع الرحمٰن قاسمی (مدھوبنی، بہار)
’’سہولت سے جواب دیتی ہوں‘‘


جب کوئی مجھ پر تنقید کرتا ہے تو میں سہولت سے جواب دیتی ہوں، اپنا نظریہ اس کے سامنے پیش کرتی ہوں ،اگر سامنے والا سمجھ گیا تو ٹھیک ، ورنہ اس پر زیادہ بحث نہیں کرتی بلکہ بعد میں اس پر سوچتی ہوں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہےکہ کبھی کبھی کسی کی تنقید بڑے کام کی ہوتی ہے۔
 ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
حسن اخلاق اور مسکراہٹ بہترین حل
منفی تنقید کے ردعمل میں فوری طور پر غصہ نہیں ہو نا چاہئے۔ اس کا جواب خوش اخلاقی اور مسکرا ہٹ کے ساتھ دیں، اس طرح تنقید کرنے والا  زیر ہو جائےگا۔ حسن اخلاق اور مسکراہٹ کسی بھی مسئلہ کا بہترین حل ہے۔ اس  طرح ہم سرد مہری کو ختم کر کے تعلقات کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔
سمیرہ گلنار (ناندیڑ مہاراشٹر)
 مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہوں
منفی تنقید کرنے والا در اصل حاسد اور ذہنی مریض ہوتا ہے۔ اسی کے پیش نظر میں مطمئن رہتی ہوں اور منفی تنقید کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہوں۔ منفی تنقید کرنے والوں سے  الجھتی ہوں اور نہ ہی شکوہ شکایت کرتی ہوں۔ دلبرداشتہ یا احساس کمتری کا شکار بھی نہیں ہوتی ہوں۔
مومن ناہید کوثر جاوید احمد(مالیگاؤں، ناسک)
منفی تنقید کا مثبت جواب
ہر شخص کو  تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر افراد منفی تنقید  پر دل  برداشتہ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے اُس کا جواب بھی ہمیں مثبت طریقے سے دینے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ جہاں تک ہو سکے اپنی اُن خامیوں کو دور کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ تنقید کرنے والے بھی ہماری اصلاح کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیں صرف منفی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں،ان کی باتوں پر دھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 
سارہ فیصل (مئو، یوپی)
کمی دور کرنے کی کوشش


تنقید چاہے تعمیری ہو یا تخریبی دونوں صورتوں میں اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ مثبت انداز میں کی گئی تنقید انسان کے عزم و ہمت اور حوصلوں کو جلا بخشتی ہے تو منفی تنقید اُس کی ذات کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ میں اپنے اوپر ہونے والی منفی تنقید کو صبر و تحمل کے ساتھ، ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے، بغور سنتی ہوں۔ مخاطب شخصیت کا احترام کرتے ہوئے اُس کی باتوں پر عمل کرنے کا یقین دلاتی ہوں اور تشکر کا اظہار بھی کرتی ہوں۔ تنہائی میں اُس کی باتوں پر غور و خوض کرتی ہوں اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
شہزادی بشریٰ (ناسک، مہاراشٹر)
تجربہ کم ہے


الحمدللہ بہترین آشنا ملے ہیں۔ اکثر و بیشتر ساتھیوں کے ساتھ شغل و مزاح کا معاملہ رہا ہے۔ بہت کم مواقع ایسے آئے کہ منفی تنقید کا سامنا ہوا۔ الحمدللہ بیشتر اوقات مثبت انداز میں تصحیح کی گئی اور میں بھی شکر گزار رہی۔ بات رہی منفی تنقید کی تو، انسان تجربات سے سیکھتا ہے اِس معاملے میں تجربات کم ہیں۔
ارجینا انصاری (بھیونڈی، تھانے)
خوش اخلاقی سے


کسی کی تنقید ہماری شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے کا بھی کام کرتی ہے۔ ہمیں کسی کی منفی تنقید پر مشتعل ہونے کے بجائے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے۔ اس لئے میں ہمیشہ تنقید کرنے والے کے ساتھ بھی خوش اخلاقی، ملنساری، نرم گفتاری اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آتی ہوں۔ کسی کی تنقید سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنی خامیوں کو تسلیم کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ 
شاہین بیگم (اٹاوہ، یوپی)
درگزر کرنا


کسی کی منفی تنقید کا جواب مَیں مثبت انداز میں دیتی ہوں۔ اگر سامنے والا بار بار تنقید کرتا ہے تو ایسے شخص کو معاف کر دیتی ہوں۔ اس قسم کے لوگوں سے دوری اختیار کر لیتی ہوں۔ اسی کے ساتھ اپنی شخصیت کا بھی جائزہ لیتی ہوں اور خود کو بہتر بنانے کی مسلسل کوشش کرتی رہتی ہوں۔
شیخ تحسین حبیب (گھنسولی، نوی ممبئی)
محبت سے پیش آتی ہوں


صبر و تحمل اسلام کا شیوہ ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کچھ اچھا کر رہے ہیں تو چاروں طرف حاسد بھی ضرور پیدا ہو جائیں گے۔ اس کا بہترین ردعمل یہ ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی، اخلاص اور محبت سے پیش آئیں۔ یہی عمل ہمارا سامنے والے کو ضرور شرمندہ کرے گا۔
منصوری رومانہ تبسم (شہادہ، نندوربار)
اپنے عمل سے


کچھ لوگوں کا تنقید کا مقصد آپ کی بہتری ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ آپ کو پیچھے ڈھکیلنے کیلئے تنقید کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی پہچان کر یں اور دیکھیں آپ کے اندر وہ کمی واقعی ہے یا آپ کی تنقید کر سامنے والا آپ کو روکنا چاہتا ہے۔ اپنا محاسبہ کریں اور اگر اصلاح کی ضرورت ہے تو درست طریقہ اپنائیں۔ دراصل یہ معاشرہ مختلف اور منفرد کام کرنے والوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ سب سے بہترین طریقہ یہی ہے ان کو جواب نہ دیا جائے اور اپنے کام کو بہتر سے بہترین کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں یہی سیکھا ہے۔ میں تنقید کا جواب زبان کے بجائے اپنے عمل سے دیتی ہوں۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
محبت اور اخلاص سے


اگر آپ اپنے اندر صبر و تحمل کو اجاگرکریں گے تو سامنے والا ہمارا گرویدہ ہوجائے گا۔ دین کا دوسرا نام اخلاص ہے۔ محبت اور اخلاص سے ہم ہر کسی کے دل میں بخوبی جگہ بنا سکتے ہیں۔ منفی تنقید کا جواب مثبت انداز میں ہی دیں، ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ اپنی اصلاح کرے گا۔
شگفتہ منصوری (شہادہ، نندوربار)
صبر کر لیتی ہوں


جب بھی کوئی ایسی منفی تنقید ہمارے سامنے آتی ہے تب اگر مجھے کوئی اچھا سا جواب سجھائی دیتا ہے تو بول دیتی ہوں مگر پیارسے۔ ورنہ اگر حالات کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو میں خاموشی کا مظاہرہ کرتی ہوں۔ اکثر تو صبر سے کام لیتی ہوں حالات اور وقت کا انتظار کرتی ہوں کیونکہ وقت ہر مرہم کی دوا ہوتا ہے۔ رب کریم نے ہمارے لئے کیا سوچ کر رکھا ہے اس کی حکمت وہ خوب جانتا ہے۔ اس لئے صبر میں ہی عافیت ہے۔ 
قریشی فردوس (گلبرگہ، کرناٹک)
معاف کر دینا چاہئے


تنقید کرنا ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں کی خوشی و سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہمیں نظر انداز کر دینا چاہئے۔ آج کے زمانے میں سامنے والا ہمیں جان بوجھ کر تنقید کرتا ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو خود سمجھا لیں۔ زندگی جینا ہے تو پھر حالات سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ کسی کی تنقید کو دل میں رکھنے کے بجائے ہمیں اس انسان کو معاف کر دینا چاہئے۔ برے سلوک کا بہترین جواب اچھا سلوک ہے۔
فرح عمیر انصاری (آگری پاڑہ، ممبئی)
منفی تنقید کا جواب خاموشی


جب کوئی بے بنیاد تنقید کرتا ہے تو مَیں نظر انداز کرکے خاموشی اختیار کر لیتی ہوں یا مسکرا دیتی ہوں جس سے سامنے والا سرد پڑ جاتا ہے اور اپنی غلطی کا احساس کرنے لگتا ہے۔ یہ مصنوعی مسکراہٹ تنقید کرنے والے شخص کو اپنے لہجے اور منفی تنقید پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
زائرہ بانو (نواب گنج، دہلی)
مسکرا کر جواب دیتی ہوں


ہمارے اطراف ایسے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں جو بلاوجہ تنقید کرتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی باتوں سے سامنے والوں کو دکھ پہنچ رہا ہے لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ ان سے دوری ضروری ہے۔ اگر کوئی مجھ پر تنقید کرتا ہے تو مَیں مسکرا دیتی ہوں۔ اس سے سامنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
مثبت انداز اپناتی ہوں


میں منفی تنقید کو ہمیشہ مثبت لیتی ہوں۔ اس بابت ایک واقعہ سنانا چاہوں گی۔ جب میں ۱۲؍ ویں جماعت میں تھی میری ایک کلاس فیلو مجھے کہتی تھی کہ میں اساتذہ کو ’’امپریس‘‘ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی۔ مجھے اس کی یہ بات گراں گزرتی لیکن اس کی اس منفی تنقید کے جواب میں میں نے مزید محنت کی۔ نتیجتاً سارے اساتذہ مجھ سے امپریس رہیں، ساتھ ہی مجھے محنت کرنے کی، مثبت سوچنے کی اپنی اصلاح کرنے کی اور ہر کام کو دلچسپی سے کرنے کی عادت ہوگئی۔
فردوس انجم (بلڈانہ مہاراشٹر)
اپنی امی کی تقلید کرتی ہوں


کسی کی منفی تنقید کا جواب مَیں بہت محبت اور خلوص سے دیتی ہوں کیونکہ میرے ماں باپ نے میری تربیت ایسی کی ہی نہیں کہ مَیں کسی کی بھی منفی باتوں کا جواب ان کو انہیں کے انداز میں دوں۔ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ میری امی نے کسی کو پلٹ کر جواب دیا ہوں۔ ہر کسی کی اچھی بری بات بس سن کر چپ رہی۔ مَیں نے اپنی ازدواجی زندگی میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے میرا سسرال اور میکے کے خاندانوں میں اچھا رتبہ ہے۔
سمیرہ اظہر سرگروہ (نوی ممبئی)
نرم لہجہ اور مسکراہٹ


جب کسی کی جانب سے مجھے منفی تنقید کا سامنا ہو تو مَیں خاموشی اختیار کرتی ہوں۔ صبر و تحمل اور سمجھداری سے جواب دینے کو مناسب سمجھتی ہوں۔ نرم لہجے اور مسکراہٹ کےساتھ جواب دینے پر یقین رکھتی ہوں۔ تنقید ہمیشہ بری نہیں ہوتی اسے اپنی توہین نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس میں ہماری بہتری کے لئے مواقع پوشیدہ ہوتے ہیں۔ تنقید کا ردعمل انتہائی سمجھداری سے دینا چاہئے۔ یہ ہماری ذات کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کرتی ہے۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
پسندیدہ رد عمل: مسکراہٹ


میرا جب منفی تنقید سے سامنا ہوتا ہے تو میں منفی رد عمل یا کسی قسم کے اختلاف کی قائل نہیں ہوں۔ منفی تنقید کا بروقت اور پسندیدہ رد عمل ایک مسکراہٹ ہے۔ ہم مسکرا دیں تو نکتہ چیں کا حوصلہ یہیں سے پست ہونا شروع ہو جائے گا۔ میں منفی تنقید سے کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوتی ہوں۔ وہ ایک لمحہ جو ہمیں غیظ و غضب میں لے آتا ہے اگر ہم نے اس پر قابو پا لیا تو ناقدین کا مقصد دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ میں وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ بھی کرتی ہوں۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں)
اپنی بات واضح کرتی ہوں


منفی تنقید کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ مجھے بھی نہیں۔ پھر بھی یہ دنیا ہے۔ مختلف لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ تنقید کرنے والوں سے بھی۔ اگر کوئی منفی تنقید کرے تو پہلے تو مجھے غصہ آجاتا ہے پھر فوراً ہی سوچتی ہوں کہ واقعی وہ شخص سچ تو نہیں کہہ رہا۔ اپنا محاسبہ کرتی ہوں کہ مَیں کہاں غلط ہوں۔ تنقید کرنے والے سے کچھ نہیں کہتی کہ بحث و مباحثے سے دور بھاگتی ہوں۔ پھر بھی اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہی میرا وطیرہ ہے۔
ناہید رضوی (جوگیشوری، ممبئی)
اپنے کام پر توجہ دیتی ہوں


تنقید دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک مثبت اور دوسری منفی۔ منفی تنقید پر مَیں ناراض ہونے کے بجائے اپنے کام میں بہتری لانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس طرح میری شخصیت بہتر ہوتی جاتی ہے۔
انصاری شفاء عابد علی (نائیگاؤں)
صبر کا دامن


فطری طور پر انسان ایک دوسرے پر تنقید کرتا ہے۔ اگر مجھ پر کوئی تنقید کرتا ہے تو مَیں اس کا جواب خاموشی سے دیتی ہوں۔ بعد میں اس تنقید کا جائزہ لیتی ہوں کہ فلاں کی تنقید میرے لئے صحیح تھی یا غلط۔ اگر صحیح رہتی ہے تو مَیں اپنی اصلاح کرتی ہوں۔ اگر غلط رہتی ہے تو اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ مجھے صبر دے۔
فرحانہ نبی احمد (پوائی، ممبئی)
بحث کرنا پسند نہیں


ہر انسان کا تنقیدی انداز مختلف ہوتا ہے اور ہم ایسے معاشرہ کا حصہ ہیں جہاں ہمیں کئی لوگوں کی منفی تنقید کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو جواب مَیں پیار و خلوص سے دیتی ہوں۔ ان کی میرے بارے میں جو رائے اور خیالات ہوتے ہیں اچھے یا برے، ان کو اپنے ذہن پر حاوی نہیں ہونے دیتی اور نہ ہی بحث کرتی ہوں۔ لوگوں کی رائے تبدیل نہیں کی جاسکتی مگر ان سے دوری تو بنائی جاسکتی ہے۔
انصاری رفعنا حفیظ الرحمٰن (نائیگاؤں)
اپنا موقف واضح کرنا


ذاتی طور پر مَیں تنقید کو پسند نہیں کرتی ہوں خواہ مثبت ہو یا منفی کیونکہ مَیں ان لوگوں میں شامل ہوں جو اپنے کام سے کام رکھنا پسند کرتے ہیں تو ظاہر ہے جب مَیں کسی کے امور میں مداخلت نہیں کرتی ہوں تو سامنے والوں سے بھی یہی اُمید کرتی ہوں۔ کوئی تنقید کرتا ہے تو میری بہترین پالیسی ہے نظرانداز کرنا۔ انتہائی مختصر الفاظ میں اپنا موقف واضح کرنا یا پھر مکمل طور پر نظرانداز کرنا، اسی پر عمل پیرا ہوں۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
نظرانداز کرنے میں بہتری


اگر کوئی مجھ پر منفی تنقید کرتا ہے جس کا مقصد میرے حوصلے کو پست کرنا ہو تو ایسی تنقید کو مَیں نظرانداز کر دیتی ہوں۔ جب ہم اس بات سے واقف ہے کہ سامنے والا کس مقصد کو ذہن میں رکھ کر ہم کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے تو سب سے بہتر یہی ہے کہ ہم ایسے انسان کی بات کو پوری طرح سے نظرانداز کر دیں۔
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی)
اس شخص سے بات کرتی ہوں
کسی کے منفی رویے یا تنقید پر مَیں خاموش رہنا پسند کرتی ہوں۔ اور ضرورت پڑنے پر اُس انسان سے بات کرکے دل صاف کر لینا بھی میرا اپنا ایک طریقہ ہے۔ ایسے حالات میں اگر میری سوچ اگلے انسان سے مشابہت رکھتی ہے تو میں ضرور اسے صلح کرنے کا موقع دیتی ہوں۔ اور اگر سوچ میں اختلافات ہوں تو میں خود کو ایسے لوگوں سے دور رکھنا مناسب سمجھتی ہوں کیونکہ میرے لئے ہر انسان کی سوچ کے مطابق اس کے ساتھ برتاؤ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
ساریہ انصاری شفیق احمد (مالیگاؤں ناسک)
خاموشی ہزار بلا کو ٹالتی ہے
منفی تنقیدوں کا جواب خاموش رہ کر یا نظرانداز کرکے دیتی ہوں کیونکہ خاموشی ہزار بلا کو ٹالتی ہے۔ زیادہ بحث کرکے ہم اپنے رشتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر کوئی منفی تنقید کر رہا ہو تو پرسکون رہ کر سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں وہ سچ تو نہیں کہہ رہا ہے۔ واقعی میں غلطی تو نہیں کر رہی اس طرح سے مَیں اپنے آپ میں یا کام میں بہتری لانے کی کوشش کرتی ہوں۔ کوئی منفی تنقید جس سے مَیں بالکل متفق نہ رہوں تو اپنے آپ کو جذبات ردعمل ظاہر کرنے، توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے اور ذاتی حملے کرنے سے روکتی ہوں۔ منفی تنقید سے تکلیف تو ہوتی ہے لیکن مَیں کوشش کرتی ہوں کہ ایسا رویہ اختیار نہ کروں کہ اسے بھی دکھ پہنچے۔
ش خاتون (مالیگاؤں، ناسک)
سامنے والے کو احساس دلاتی ہوں
دورانِ گفتگو کوئی ہماری بات کاٹ کر اپنے انداز میں بتانے کی کوشش کرتا ہے تو مَیں صبر کرتی ہوں۔ اس کی بات سننے کے بعد محبت بھرے انداز میں اس کو مثال دے کر احساس دلاتی ہوں کہ یہ عمل غلط ہے۔ منفی تنقید کرنے والوں کو احساس دلانا ضروری سمجھتی ہوں کہ اس کے عمل سے مجھے تکلیف پہنچی ہے۔
شمع پروین (کوچہ پنڈت، دہلی)
مثبت پہلو اختیار کریں
کوئی مجھ پر تنقید کرتا ہے تو صبر کا دامن تھام لیتی ہوں اور اس کا جواب مثبت انداز میں دیتی ہوں اور مسکراہٹ کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرتی ہوں اور انتہائی خوش دلی اور خوش اسلوبی کے ساتھ منفی تنقید کا جواب دیتی ہوں۔
اریبہ بنت اسرار احمد (بیریڈیھ، یوپی)
مثبت انداز میں جواب دیتی ہوں
کوئی کتنا ہی کڑوا کسیلا اور منفی انداز اختیار کرے مَیں اس سے ہمدردی سے پیش آتی ہوں۔ مثبت انداز میں اس کا جواب دیتی ہوں۔ برا نہیں مانتی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اچھے ڈھنگ سے سمجھاتی ہوں تاکہ اس کے دل و دماغ سے منفی طرز عمل نکل جائے اور اس کی مناسب اصلاح ہو جائے۔ ساتھ ہی ہمارا طرز عمل دوستی کرنے والا اور سبق آموز ہو۔
فاطمہ عابد حسین (مالیگاؤں، ناسک)
نظرانداز کرتی ہوں
منفی تنقید مجھے اندرونی طور پر کئی دنوں تک پریشان رکھتی ہے۔ شاید یہ میری خامی ہے۔ اس وقت خود پر نظرثانی بھی کرتی ہوں کہ تنقید کی وجہ میرا کوئی عمل تو نہیں۔ بہرحال زندگی کو دوام نہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جانا ہی دانائی ہے۔ جیسے رات کی سیاہی کو آفتاب کی کرنیں زائل کر دیتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح منفی تنقید میں مثبت پہلو تلاش کرتی ہوں۔
بنت شبیر احمد (ارریہ، بہار)
خاموشی اختیار کریں
خاموشی ایک ایسی نعمت ہے جو تمام مسائل کا حل ہے۔ جب مجھےکوئی غلط الفاظ سے تنقید کرتا ہے تو میں صبر کرتی ہوں اور اس معاملہ کو اللہ پر چھوڑ دیتی ہوں۔ میرا جب کوئی دل دکھاتا ہے تو میں اس کی اچھائیوں کو یاد کر کے اسے اللہ کیلئے معاف کر دیتی ہوں۔ میں اپنی خاموشی پر کبھی نہیں پچھتائی جتنا کہ اپنے بولنے پر پچھتائی ہوں۔ ہمیں ہمیشہ مثبت پہلو کو اختیار کرنا چاہئے کیونکہ مثبت پہلو کو اختیار نہ کرنے کی صورت میں سوائے آپسی دشمنی اور خلفشار سے کوئی حل نہیں نکلتا۔
عفیفہ اسرار احمد (بیریڈیھ، یوپی)
مسکرا کر نظرانداز کرتی ہوں
آپؐ نے حسن سلوک کی تلقین کی ہے۔ اسی پر عمل کرنا چاہئے۔ منفی رویوں اور تنقیدوں کو نظر انداز کرنا چاہئے۔ اگر کوئی ہمیں تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم ان کو مسکرا کر نظرانداز کر دیں اور بہت سے طریقے ایسے ہیں جن سے ہم منفی سوچوں یا باتوں کو نظر انداز کرسکتے ہیں، جیسے کہ ہم خاموشی بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
حافظہ سنجیدہ فاطمہ (اعظم گڑھ، یوپی)

اگلے ہفتے کا عنوان: کچھ لوگ بڑی مایوسی کا شکار رہتے ہیں، انہیں کیسے سمجھائیں؟ 

اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK