زندگی اتار چڑھاؤ کا نام ہے۔ ہر دن ایک نئے آغاز کا امکان رکھتا ہے۔ جہان سے برابری کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتے رہنا ایک مسلسل امتحان ہے جس کا نتیجہ اکثر مایوسی ہوتا ہے لہٰذا اپنے آپ پر رحم کرتے ہوئے وہ طرز عمل اختیار کریں جو قناعت اور صبر کرنے والوں کا طریقہ ہے۔
اپنی زندگی دوسروں کو ’دکھانے‘ کیلئے نہیں بلکہ اپنے لئے جئیں۔ تصویر: آئی این این
ہمارے اطراف میں رونقیں ہیں، رنگ ہیں، خوشیاں اور مسکراہٹیں بھی مگر ہمارے اندر ایک خاموشی، بیزاری اور ویرانی ہے۔ آج ہر کسی کے پاس وسائل ہیں، سہولیات ہیں، علم و دانش کے اعلیٰ معیار تک رسائی ہے۔ دنیا کے ہر خطے تک رابطے میسّر ہیں، تیز رفتار انٹرنیٹ، تفریح کے بےشمار وسائل، آرام دہ طرز زندگی، سائنس و تکنیک کا عروج، پلک جھپکتے ہی پوری ہوجانے والی خواہشات کے امکان کے باوجود ہمارے دل مطمئن کیوں نہیں؟ ہم خوش دکھائی دیتے ہیں مگر اداسی کا کوئی اندرونی احساس ہے جو دل اور ذہن کو مضطرب رکھتا ہے۔ اس مقام پر رک کر ایک لمحے کو ہم سوچ تو لیں کہ آخر مسئلہ کہاں ہے؟ اگر ہم اپنے معمولات اور زندگی کو برتنے کے اطوار کا جائزہ لیں تو عیاں ہو جائیگا کہ مسئلہ ہمارے اپنی ذات کیساتھ برتاؤ اور ترجیحات میں ہے، ہماری بےاطمینانی کا محرک ہمارا ہی طرز عمل ہے۔ گویا ہم آپ اپنے دشمن ہیں، جانتے بوجھتے یا نادانستہ اپنے ذہن، دل اور وقت کیساتھ مسلسل بے رحمانہ سلوک کر رہے ہیں وہ اس طرح کہ:
چھوٹی چھوٹی خوشیاں جو ہماری دسترس میں ہیں ان میں موجود راحت اور آسودگی کو محسوس کرنا، مطمئن اور قانع رہنا ہمارے دل کے سکون کے لئے کافی ہے مگر ہم دوسروں سے موازنہ اور مقابلہ آرائی میں ہلکان ہوتے رہتے ہیں، دوسروں کو حاصل نعمتوں کی حسرت ہمیں اپنی نعمتوں سے خوشی اور سکون محسوس کرنے کے قابل نہیں رکھتی۔ ان بے جواز، غیر صحتمند موازنے کا لازمی نتیجہ کڑھن اور بےچینی کے سوا کچھ نہیں ہوتا!
قریبی رشتوں میں بگاڑ، ناراضگی اور قطع تعلقی بھی بے سکونی اور اضطراب کی ایک اہم وجہ ہے۔ اندر ہی اندر ہمیں مضطرب رکھنے والی اس بے چینی کو دور کرنے کی خاطر کیوں نہ ٹوٹے ہوئے رشتوں اور تعلقات کو جوڑنے کی ابتدا ہماری جانب سے ہوجائے؟ خطا کسی کی بھی ہو معافی مانگنا اور معاف کر دینا اعلیٰ ظرفی ہے، معافی تلافی میں پہل کرنیوالوں کی خدا کے یہاں بھی بڑی قدر ہے۔ اگر ہماری چھوٹی سی کوشش سے دلوں کے رشتے بچ جائیں تو یہ بڑی نعمت ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم نمائشی اور مادّی اغراض پر مبنی تعلقات سے اجتناب کرتے ہوئے پُرخلوص اور بے ریا رشتوں کو اپنی زندگی میں قائم رکھنے کی کوشش کریں، حقیقی تعلقات قائم کریں اور ان کی ہمیشہ قدر کریں۔
زندگی کی بھاگ دوڑ اور صبح شام کی بے تحاشا مصروفیات ہمیں اپنی ذات کے بارے میں سوچنے کا کم ہی موقع دیتی ہیں، ہمارا جسم کوئی دھاتی مشین نہیں۔ گوشت پوست سے بنا یہ جسم بھی کچھ پل کا آرام اور فراغت کے چند لمحوں کا حقدار ہے۔ اگر ارادہ کر لیا جائے تو خود کیلئے تھوڑا وقت نکالنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ اپنے گھر میں ایک پرسکون گوشہ، آرام دہ نشست، کوئی پیاری سی کتاب، دل پسند موسیقی، گرم چائے کا کپ، بس یہ چند عام سے لوازمات ہمارے فارغ وقت کو خوبصورت بنانے کیلئے کافی ہیں۔ ذہن کو ساری فکروں سے آزاد کرکے اپنی معیت میں بتایا ہوا یہ وقت ہماری مضمحل ذہنی و جسمانی توانائی کو دوبارہ چارج کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ مصروف رہنا ایک کار زیاں ہے، سنسنی خیز خبریں، انسٹاگرام اور یوٹیوب کی بے مقصد بے فائدہ ویڈیوز ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ مضطرب اور پریشان ہی رکھتی ہے لہٰذا اپنے دل و دماغ پر یہ غیر ضروری بوجھ ڈالتے رہنے کے ظلم سے اپنے آپ کو روکنا ضروری ہے۔
جسم کی مانند ہمارے ذہن اور دل کو بھی خوراک کی حاجت ہے، جس طرح ہم اپنے جسم کے لئے بہتر غذا منتخب کرتے ہیں اسی طرح اپنے ذہن کے لئے بھی صاف غذا کا انتخاب کریں۔ ذہن کو مثبت مواد فراہم کرنا، نفیس سوچ و فکر کے لوگوں سے جڑنا، اپنی توانائی اور وسائل کار خیر میں صرف کرنا، مفید و مثبت لٹریچر اور سیرت طیبہ کے مطالعہ جیسی چند احسن عادتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے بہتر نتائج ہم خود محسوس کرلیں گے۔
ان سب کے علاوہ ہماری اپنے آپ پر ایک اور سختی یہ ہے کہ ہم اکثر اپنے عام سے احساسات پر بھی شرمندگی محسوس کرتے ہیں جیسے تھک جانے پر آرام کرنا، کسی ناپسند چیز کو ’نہ‘ کہنا یا اپنی ذہنی صحت کیلئے مدد لینا.... لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب اپنے ذہن و دل کا خیال رکھنے کی نشانیاں ہیں۔ جب ہم اپنے جذبات اور حد کا احترام کرتے ہیں، خود سے جڑنے کے لئے تھوڑا رک جاتے ہیں تو یہ بہتری کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ اپنی غلطیوں پر خود کو کوسنا اپنی کمزوریوں پر شرمندگی محسوس کرنا، ذمہ داریوں اور توقعات کے وہ بوجھ بھی اپنے اوپر لاد لینا جن کے ہم اہل نہیں، جو کام ہماری استطاعت سے باہر ہیں ان پر توانائی صرف کرنا ذہنی تھکن اور ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم خود پر بھی کچھ شفقت اور رحم کریں، کسی غلطی کمزوری پر اپنے آپ کو ملامت نہ کریں، ہم میں سے کوئی غلطیوں سے مبرا نہیں کہ ہم انسان ہیں روبوٹ نہیں!