Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کے بچوں کا درد جانئے، کس طرح جی رہے ہیں!

Updated: June 11, 2025, 1:09 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کی جانب سے غزہ میں جنگ سے متاثر ہونے والوں کیلئے نفسیاتی اور سماجی معاونت کا اہتمام کیا گیا۔ ان نشستوں میں نوعمر فنکار جو تصاویر اور خاکے بنا رہے ہیں وہ محض رنگوں کا امتزاج نہیں، بلکہ ان پر گزرنے والی قیامت کی عکاسی ہے۔

Seventeen-year-old student Naimat Habib has drawn a portrait of her mother, whom she lost in the recent war. Photo: INN
سترہ سالہ طالبہ نعمت حبیب نے اپنی ماں کی تصویر بنائی ہے جسے انہوں نے حالیہ جنگ میں کھو دیا ہے۔ تصویر: آئی این این

غزہ کی جنگ نے کتنے ہی معصوم چہروں کو اداسی کی چادر میں لپیٹ دیا اور کتنے ہی بھرے پُرے گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں بے گھر فلسطینی بچے مصوری کے ذریعے اپنے درد اور دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ 
فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے زیراہتمام ان بچوں کے لئے نفسیاتی اور سماجی معاونت کی نشستوں میں نوعمر فنکار جو تصاویر اور خاکے بنا رہے ہیں وہ محض رنگوں کا امتزاج نہیں، بلکہ ان پر گزرنے والی قیامت کی عکاسی ہے۔ ان کی بنائی تصویروں میں کہیں کسی فلسطینی شاعر کا غمزدہ چہرہ ہے، تو کہیں ان پیاروں کا عکس ہے جنہیں جنگ نے ان سے چھین لیا۔ کسی کینوس پر بمباری سے سیاہ ہوتا آسمان نظر آتا ہے تو کوئی تصویر ماں کی بے جان لاش پر روتے معصوم بچے کی عکاسی کرتی ہے۔ دل ہلا دینے والی یہ تصاویر ان دنوں غزہ شہر میں ’’انروا‘‘ کے ریمال اسکول میں آویزاں ہیں، جو اب ان بے سہارا بچوں کی عارضی پناہ گاہ ہے۔ 
یادوں کی کسک اور بچھڑنے کا غم

شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون سے بے گھر ہونے والی فاطمہ الزعانین نمائش میں رکھے اپنے فن پارے کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ تصویر: آئی این این

یہ تصویری نمائش ان بچوں اور نوجوانوں کو تقریباً اٹھارہ ماہ کی طویل جنگ کے بعد اپنے جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے سے بات چیت کر کے اپنے دکھ کو بانٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون سے بے گھر ہونے والی فاطمہ الزعانین یو این نیوز کے نمائندے کو اپنی بنائی ایک تصویر کے بارے میں بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ ’’ `میں نے فلسطینی شاعر محمود درویش کی تصویر بنائی، اور یہ دیکھئے، یہ میری ماں ہیں، یہ میرے بابا، یہ میری بہن اور یہ میرے دادا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز شدت غم سے رندھ گئی۔ انہوں نے پینسل سے بنی ایک چھوٹی سی ڈرائنگ کو دیکھا جس پر سرخ دھبے یوں بکھرے تھے جیسے کسی گہرے زخم سے خون رس رہا ہو۔ انہوں نے اپنی چھوٹی سی انگلی سے محمد نامی ایک لڑکے کی بنائی تصویر کی جانب اشارہ کیا اور کہنے لگیں ’’اس کی بس یہی آرزو تھی کہ اس کے خاندان میں کوئی ایک فرد ہی باقی رہ جائے، لیکن اب تو کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ ‘‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے ایک تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا `’’اور یہ دیکھیے، یہ وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے لئے رو کر رہا ہے، جسے اس نے ہمیشہ کے لئے کھو دیا ہے۔ ‘‘
تسکین قلب کی دعا
سترہ سالہ طالبہ نعمت حبیب نے اپنی ایک تصویر کو آہستگی سے چھوتے ہوئے بتایا `’’یہ میرہ والدہ کا چہرہ ہے جنہیں اس جنگ نے مجھ سے چھین لیا۔ میں ان کے بچھڑنے کے غم سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ سبھی ان کے لئے دعا کریں۔ ‘‘نعمت کی انگلیاں اس تصویر پر یوں حرکت کر رہی تھیں جیسے وہ اپنی ماں کے چہرے کو چھونا چاہتی ہوں۔ ’’ `خدا مجھے انہیں اور اپنے بہن بھائیوں کے کھو جانے کا صدمہ سہنے کی ہمت عطا فرمائے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تھی ’’میں اس جنگ میں جو کچھ بھی سہہ چکی ہوں، اس کے بعد اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔ میں محنت کر کے وہ بننا چاہتی ہوں جو میری ماں میرے لئے چاہتی تھیں ‘‘یہ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں دکھ کے ساتھ عزم و امید کا اظہار بھی تھا۔ 
خزاں رسیدہ زندگی، شکستہ امیدیں 

ملک فیاد بتا رہی ہیں کہ جنگ میں ان کا گھر قیمتی سامان سمیت ملبے کا ڈھیر بن گیا جس میں وہ تصویر بھی گم ہو گئی ہے جو انہیں بہت عزیز تھی۔ تصویر: آئی این این

ملک فیاد نامی ایک طالبہ کی بنائی تصاویر بھی اس اسکول میں آویزاں ہیں۔ ایک تصویر میں غزہ کا صاف نیلا آسمان اور سمندر، درخت اور پرندے نظر آتے ہیں۔ دراصل یہ اس تصویر کی نقل ہے جو کبھی ان کے خاندانی گھر کی دیوار پر آویزاں تھی۔ اس نے بتایا کہ جنگ میں وہ گھر ان کے تمام قیمتی سامان سمیت ملبے کا ڈھیر بن گیا جس میں وہ تصویر بھی گم ہو گئی ہیں جو اسے بہت عزیز تھی۔ 
اپنی تصویر کے بارے میں وہ بتاتی ہیں ’’میں نے اسے دوبارہ اس لئے بنایا تاکہ مجھے یاد رہے کہ غزہ کبھی کس قدر خوبصورت ہوا کرتا تھا، اور اس کے ساتھ ہی میں نے ایک اور تصویر بھی بنائی ہے جس میں آسمان پر بموں سے پیدا ہونے والا دھواں دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے اپنی دیگر تخلیقات کی طرف اشارہ کیا، جن میں ایک تصویر یہ ظاہر کرتی ہے کہ بمباری اور تباہی کے بعد غزہ کے باسیوں کی زندگیاں کس قدر تبدیل ہو گئی ہیں۔ اس کی ایک اور تصویر میں ایک فلسطینی مرد کو دکھایا گیا ہے جو اپنے کندھے پر گھر کی شکل کا بیگ اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ تصویر اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ فلسطینی ہمیشہ اپنے ساتھ اپنے وطن کا درد لئے پھرتا ہے، چاہے وہ بے گھر ہی کیوں نہ ہو جائے۔ 
ایک اور نوعمر فنکار ملک ابو عودہ نے دکھی لہجے میں کہا: ’’ غزہ کی اس جنگ نے لوگوں سے بہتر مستقبل کی تمام امیدیں چھین لی ہیں۔ ہمیں صرف تباہی اور بے گھری کا سامنا ہی نہیں، بلکہ اس نے ہم سے ہمارے پیارے لوگ، ہمارے رشتہ دار اور ہمارے چاہنے والے بھی چھین لئے ہیں۔ ‘‘
   غزہ کے معصوم بچوں کی بنائی تصاویر سے ان کے حوصلے اور فن کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے جو اپنے دکھوں کو رنگوں میں ڈھال کر اپنی خاموش چیخیں دنیا کے کانوں تک پہنچا رہے ہیں۔ 
(یو این خبرنامہ کی رپورٹ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK