یہ خواتین رات کے آخری پہر بیدار ہو جاتی ہیں، اور ماہی گیری کیلئے نکل جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہی بازاروں کی خاک چھانتی ہیں۔ اور رات ہونے پر گھر جاتی ہیں۔ دن کے تقریباً دس گھنٹے کام کرتی ہیں یہ وصف انہیں دیگر خواتین سے مختلف بناتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں انہیں کئی مسائل بھی درپیش ہیں۔
کولی خواتین خاندان کے معاشی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تصویر: ستیج شندے اور پردیپ دھیور
مہاراشٹر ہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہے۔ خاص کر معاشی راجدھانی کہا جانے والا ممبئی شہر اور اس کے اطراف کا ساحلی علاقہ مرکز توجہ بنا رہتا ہے۔ مہاراشٹر کا ساحلی علاقہ یہاں بسی ہوئی کولی برادری کی وجہ سے بھی اہم ہے۔
’کولی‘ (Koli) برادری دراصل ایک ماہی گیر (فشنگ) ذات ہے، جو بنیادی طور پر مہاراشٹر کے ساحلی علاقوں میں آباد ہے جیسے ممبئی، تھانے، رائے گڑھ، رتناگیری، پال گھر، اور دیگر کوکن پٹی کے علاقے۔ مہاراشٹر کے وسیع ساحل سمندر پر بسی اس برادری کا اہم پیشہ ماہی گیری ہے۔ ساتھ ہی اس سماج کو تاریخی و ثقافتی اہمیت بھی حاصل ہے۔ ان کی اپنی روایتیں ہیں اور ’کولی ناچ‘ جو دنیا بھر میں مقبول ہے۔ ممبئی شہر کی اصل بانی کولی برادری ہی ہے، اس شہر کا نام انہی کی دیوی ’ممبا‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس بات سے بھی اس سماج کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان روایات اور ثقافت کو برقرار رکھنے کا سہرا کولی خواتین کے سَر جاتا ہے۔ جو مخصوص نسلی و ثقافتی شناخت رکھتی ہیں۔ آئیے ان خواتین کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں:
معاشی کردار
کولی خواتین خاندان کے معاشی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ ماہی گیری میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔ کشتیوں پر جانا، جال ڈالنا اور مچھلی پکڑنا یہ سب کامبحسن و خوبی انجام دیتی ہیں۔ پھر ان مچھلیوں کو نہ صرف بازاروں بلکہ ریلوے اسٹیشنوں، فٹ پاتھوں اور گلی کوچوں میں بھی بیچنے کا کام کرتی ہیں، اور کئی مرتبہ یہ کام وہ تنہا سنبھالتی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ مچھلی بیچنے والی مضبوط اور خودمختار خواتین سمجھی جاتی ہیں۔
گھریلو ذمہ داریاں
یہ خواتین گھر کی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال، انتربیت اور تعلیم پر توجہ دیتی ہیں۔ یہ رات کے آخری پہر بیدار ہو جاتی ہیں، اور ماہی گیری کے لئے نکل جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہی بازاروں کی خاک چھانتی ہیں۔ اور رات ہونے پر گھر جاتی ہیں۔ دن کے تقریباً دس گھنٹے کام کرتی ہیں یہ وصف انہیں دیگر خواتین سے مختلف بناتا ہے۔
روایتی لباس
کولی خواتین کا مخصوص لباس ان کی پہچان ہے۔ نوواری ساڑی سے قدرے مختلف (بارہ گز کی ساڑی) جو وہ خاص کولی انداز (کمر کے گرد مضبوطی سے لپیٹ کر) پہنتی ہیں، تاکہ حرکت کرنے میں آسانی ہو۔ اور ’سارقہ‘ جو ایک لمبا کپڑا ہوتا ہے کولی مرد اور خواتین کمر اور ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ رنگین ساڑیاں، بھاری چوڑیاں، ناک میں نتھ، اور گلے میں مختلف ہار، پاؤں میں پائل اور ماتھے پر کشیدہ بندی (بندیا) لگاتی ہیں۔
ثقافت اور لوک روایت
کولی خواتین روایتی لوک گیت اور رقص (خصوصاً ’کولی ناچ‘) میں ماہر ہوتی ہیں، یہ رقص تہواروں اور شادی بیاہ کے موقعوں پر کیا جاتا ہے۔ ان کی مادری زبان مراٹھی ہے۔ اسکے ساتھ مقامی بولیاں بھی شامل ہیں۔ کولی خواتین شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں خصوصی رسومات اور گیت گاتی ہیں۔
سماجی حیثیت
کولی خواتین مضبوط، خود مختار اور صاف گو ہوتی ہیں۔ ان کا معاشرے میں کردار روایتی صنفی کرداروں سے کچھ ہٹ کر ہے۔ انہیں اکثر ماحول دوست اور زمینی حقیقتوں سے جڑی ہوئی خواتین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
چیلنجز
حالیہ برسوں میں شہروں (خصوصاً ممبئی) میں اربنائزیشن، اور موسمیاتی تبدیلیوں نے ان کے روایتی طریقۂ معاش کو نقصان پہنچایا ہے۔ مچھلی کے بازار کم ہوتے جا رہے ہیں، اور بڑی کمپنیاں ماہی گیری کو کنٹرول کر رہی ہیں۔ کچھ کولی بستیاں (Koliwadas) بے دخل کئے جانے کے خطرے میں ہیں، جس سے خواتین کی روزی روٹی متاثر ہو رہی ہے۔
سیاسی و سماجی بیداری
کولی خواتین اب مختلف کوآپریٹو سوسائٹیوں، سیلف ہیلپ گروپس اور مچھیرن یونین کی رکن ہیں۔ وہ ماحولیاتی حقوق، سمندری پٹی کے حقوق، اور شہری جگہ کے تحفظ کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں۔ لیکن یہ سب اطمینان بخش نہیں ہے۔ پدرانہ معاشرے میں زیادہ تر ہندوستانی خواتین کے برعکس، کولی خواتین گھر اور کام دونوں جگہوں پر فیصلے کرتی ہیں۔ لیکن اپنی کمیونٹی سے باہر، انہیں اب بھی بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ انہیں معاشرتی دھارے سے جوڑنے کیلئے مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔
سچ یہ بھی ہے
کولی خواتین معاشرے کو پیغام دیتی ہیں کہ نہ روکنا ہے نہ تھکنا ہے۔ واقعی کولی خواتین محنت و جفا کشی کی عمدہ مثال ہیں۔ آج ان کے سامنے مختلف چیلنجز ہیں، پھر بھی کولی خواتین اپنی برادری اور اپنی ثقافت کو بچانے کے لئے پر عزم ہیں۔