Inquilab Logo

رشتوں کیلئے وقت نکالیں اور انہیں مضبوط بنائیں

Updated: May 22, 2024, 1:22 PM IST | Odhani Desk | Mumbai

نیوکلیئر فیملی کے رجحان کی وجہ سے رشتوں میں دوریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ گھر کے بڑوں نے بچوں کو پڑھائی تک محدود کرکے انہیں رشتے داروں سے گھلنے ملنے کا موقع ہی نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ بڑے ہونے کے بعد بھی رشتے داروں سے لگاؤ محسوس نہیں کر پاتے۔ کیا اس صورتحال کو بدلا جاسکتا ہے؟

Visit your relatives including children on holidays and invite them to your home. Photo: INN
چھٹی کے دن بچوں سمیت اپنے رشتے داروں کے یہاں جائیں اور انہیں اپنے گھر بلائیں۔ تصویر : آئی این این

موجودہ دور میں ’فیملی‘ کا مطلب ہے ماں باپ اور بچہ یا ۲؍ بچے۔ لیکن مشترکہ خاندان میں چاچا چاچی، ماما مامی اور ان کے بچے بھی آپ کی فیملی کا حصہ ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ کی ان سے برسوں سے ملاقات نہ ہوئی ہوں اور خاص موقعوں پر بھی فون پر بات ہوتی ہوگی۔ میل جول کم ہو تو بات چیت کا دورانیہ بھی مختصر ہوجاتا ہے اور جن سے ملے برسوں گزر جائیں، ان سے رشتے رسمی رہ جاتے ہیں۔ برسوں بعد کبھی ملیں بھی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ بات چیت کا سلسلہ کس طرح شروع کیا جائے، اپنائیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں قلب کو اطمینان کیسے محسوس ہوگا۔ حقیقی خوشی اپنوں سے ملتے رہنے اور ایک دوسرے سے جڑے رہنے سے ملتی ہے۔ اب متعدد خاندانوں میں ایک ہی اولاد ہوتی ہے۔ گھر میں بچہ تنہا ہوتا ہے اس لئے وہ رشتوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ اس وجہ سے ذہنی، سماجی اور شخصیت سے متعلق مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ موجودہ دور میں ضروری ہوگیا ہے کہ رشتوں کو جوڑ کر رکھا جائے۔ رشتوں کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی اولاد کو بھی سمجھائیں۔
رشتوں میں دوریاں کیوں ہیں؟
 دراصل بیشتر ماں باپ گھر اور دفتر، دونوں ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، وہ خود اپنی زندگی میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس لئے رشتے داروں سے ملنے کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔ اگر رشتے دار اپنے گھر بلاتے ہیں اور بچے جانے کے لئے راضی بھی ہوجاتے ہیں تو گھر کے بڑے مصروفیت کا حوالہ دے کر جانے سے منع کر دیتے ہیں۔ کئی مرتبہ بڑوں کے درمیان ناراضگی دوری کا سبب بن جاتی ہے۔
 یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے والدین انہیں خاندان والوں سے دور کر دیتے ہیں۔ اگر رشتے داروں کے یہاں جانا ہے تو بچوں کو پڑھنے یا امتحان کی تیاری کرنے کا کہہ کر گھر کے بڑے رشتے دار کے یہاں چلے جاتے ہیں۔ گھر پر چاچا یا ماما کی فیملی آئے تو والدین رسمی بات چیت کے بعد بچوں کو دوسرے کمرے میں پڑھنے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔
بچوں کا الگ خاندان
 بچوں یا نوجوان اپنے دوسروں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اس لئے ان کے لئے وہی عزیز ہوتے ہیں۔ ہر مسئلہ ان سے کہتے ہیں۔ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کسی اور شہر یا ریاست میں ان کے بھائی بہن بھی ہیں جو ان کے خاندان کا حصہ ہیں۔ کچھ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ رشتے دار جو ان کی عمر کے ہیں وہی انہیں اور ان کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں، اور خاندان کے سبھی بڑے ان سے مختلف ہیں۔ کئی مرتبہ ماں باپ اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں بتاتے کہ ان کے کن شہروں میں کون کون رشتے دار ہیں یا ان سے کیا رشتہ ہے۔ اس صورت میں بچے بڑے ہو کر بھی اپنے رشتے داروں سے دور ہی رہتے ہیں۔
متحد ہونے کی کوشش کریں
 خاندان ہی ہمیں مضبوطی اور سہارا دیتا ہے۔ خود کو اپنوں سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی رشتے داروں سے رشتے نبھانے کیلئے آمادہ کریں۔
میل جول بڑھائیں
 سال میں کم سے کم ایک بار پورا خاندان ملنے کا پلان بنا سکتا ہے۔ اس میں دادا دادی اور نانا نانی کے ساتھ ساتھ چاچا چاچی، ماما مامی، پھوپھی پھوپھا، خالہ خالو اور ان کا خاندان، سب ہونے چاہئیں۔
گھومنے جائیں
 چھٹیوں میں گھومنے جاسکتے ہیں۔ جگہ کا انتخاب ایسا ہونا چاہئے جس کا خرچ سب کے بجٹ کے مطابق ہو اورسب کی رضا مندی بھی شامل ہو۔ اس پلان کی ذمہ داری گھر کے بڑی عمر کے بچوں کو دی جاسکتی ہے جس سے وہ ایک دوسرے کے رابطے میں رہیں گے۔
اگر مگر کی گنجائش نہیں
 یہ اصول عائد کر دیں۔ ہر فیملی کو طے شدہ پروگرام میں آنا ہی ہوگا۔ جب بھائی بہن اکثر ملتے رہتے ہیں، تو ایک دوسرے کو ہی نہیں، خاندان کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ ان میں صبر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے لئے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ دل سے دل کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ پھر کوئی طوفان بھی رشتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
توجہ طلب باتیں
 جب بچے طویل عرصے کے بعد رشتے داروں سے مل رہے ہوں تو بڑے ان کی پڑھائی یا نوکری کے تعلق سے سوال نہ کریں۔
 خاندان میں کسی ایک شخص کے رنگ یا شکل کی وجہ سے مذاق بالکل نہ اڑائیں۔
 گھر کے بڑے پہلے ہی یہ طے کر دیں کہ بچے جب آپس میں ملیں گے تو موبائل فون یا لیپ ٹاپ دور رکھیں گے۔
 پرانی باتوں یا حساس موضوعات پر بات چیت کرنے یا کسی کو قصور وار ٹھہرانے کی کوشش ہرگز نہ کریں، اس سے معاملہ بگڑ سکتا ہے۔
 بچوں کے چھوٹے موٹے جھگڑوں میں بڑے مداخلت نہ کریں اور نہ ہی اس وجہ سے ماحول میں بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK