مگر بدقسمتی سے ہم اِن کی اہمیت کو آج تک سمجھ نہیں پائے۔ ماں کو گھریلو کام کاج تک محدود کر دیا جبکہ بچوں کی تربیت میں ان کا کردار نمایاں ہے۔ بیٹی رحمت ہے، اس کے پاؤں میں بیڑیاں باندھنے کے بجائے اسے آسمان دیں تاکہ وہ بلندی تک پہنچے۔ اور استانی جس وقار اور احترام کی حقدار ہے اسے وہ نہیں ملتا۔
ماں، بیٹی، اور استانی اگر تعلیم یافتہ، باوقار، اور بااختیار ہوں تو کسی قوم کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جھکا سکتی۔ تصویر: آئی این این
قوموں کی ترقی کی جب بھی داستان لکھی جاتی ہے، تو اکثر ذکر ہوتا ہے سیاستدانوں، صنعتکاروں اور انقلابیوں کا۔ لیکن تاریخ کے پردے کے پیچھے، خاموشی سے، گمنامی میں، ایک تین رخا چراغ ایسا جلتا ہے جو قوم کی روح کو روشنی دیتا ہے: ماں، بیٹی، اور اُستانی۔
یہ تینوں صرف رشتے نہیں، صرف کردار نہیں، بلکہ ایک پوری تہذیب کی بنیاد ہیں۔ یہی وہ تین ستون ہیں جن پر نسلوں کی ذہن سازی ہوتی ہے، جن پر تمدن کا چہرہ نکھرتا ہے، اور جن کی روشنی میں قومیں اپنے راستے تلاش کرتی ہیں۔
ماں: تہذیب کی اخلاقی ریڑھ کی ہڈی
٭ماں صرف وہ نہیں جو بچے کو جنم دیتی ہے، ماں وہ ہے جو اسے انسان بناتی ہے۔ وہ بچے کی پہلی درسگاہ ہے، پہلی محبت، پہلی دعا، پہلی پناہ۔
٭اسکی خاموشیاں سبق دیتی ہیں۔ اس کی قربانیاں کردار بناتی ہیں۔ اسکی آغوش میں خواب، دعائیں، اور درد سب ایک ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔
٭جب وہ رات بھر جاگ کر بخار میں تڑپتے بچے کا ماتھا سہلاتی ہے، تو رحمت کا مطلب سکھاتی ہے۔
٭جب وہ دنیا کے طعنے سہہ کر بھی عزت کا دامن نہیں چھوڑتی، تو غیرت کا مفہوم سمجھاتی ہے۔
٭جب وہ اپنے آرام کو تج کر بچوں کو علم، ادب اور اخلاص سکھاتی ہے تو قوم کی جڑوں کو مضبوط کرتی ہے۔
مگر افسوس! ہم نے ماں کے کردار کو چولہے تک محدود کر دیا، اس کے فہم، اس کے مشاہدے، اس کی تربیت کی طاقت کو کبھی عزت نہ دی۔ یہ بھول گئے کہ جس قوم کی ماؤں کو نظر انداز کیا جائے، وہ قوم کبھی سر نہ اٹھا سکے گی۔
بیٹی: کل کی روشنی
٭بیٹی جب جنم لیتی ہے، تو صرف ایک بچی نہیں آتی، ایک چراغ جلتا ہے.... اُمید کا، تبدیلی کا، روشنی کا۔ مگر ہم اس روشنی کو:
٭ڈرا دیتے ہیں،
٭دبا دیتے ہیں،
٭روک دیتے ہیں۔
ہم اس سے کہتے ہیں:
٭زیادہ ہنسو نہیں،
٭اونچا نہ بولو،
٭خواب نہ دیکھو۔
ہم اسے پیروں میں بیڑیاں پہناتے ہیں، اور امید رکھتے ہیں کہ وہ پرواز کرے گی! لیکن جہاں بیٹی کو تعلیم، عزت، اور آزادی ملی، وہاں انقلاب برپا ہوا۔ وہ صرف بیٹی نہیں رہی.... وہ ماں بنی، قائد بنی، دانشور بنی، رحمت بنی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بیٹی کو دبانا نہیں، سنوارنا ہے۔ اس کے قدموں میں روک نہیں، طاقت بننی ہے۔ کیونکہ وہ قوم کی کل ہے، اور کل کبھی بند نہیں کیا جاسکتا۔
اُستانی: خاموش معمارِ قوم
٭اُستانی صرف ایک مضمون نہیں پڑھاتی.... وہ ذہنوں کو تراشتی ہے، دلوں کو جگاتی ہے، خوابوں کو جنم دیتی ہے۔
٭اس کی ایک مسکراہٹ بچوں کے دلوں میں امید بھر دیتی ہے۔ اس کا ایک جملہ کسی کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔
٭وہ صرف سبق نہیں دیتی، سوچنا سکھاتی ہے۔
٭وہ صرف ہجے نہیں سکھاتی، کردار بنتی ہے۔
٭وہ صرف قلم نہیں پکڑاتی، انسان تراشتی ہے۔
مگر افسوس! ہماری قوم اُستانیوں کو صرف نوکری سمجھتی ہے، ان کی عظمت کو تنخواہوں کے ترازو میں تولتی ہے۔ یہ نہیں جانتی کہ اُستانی کی عزت، پوری نسل کی عزت ہے۔ جو قوم اُستانیوں کی قدر نہیں کرتی، وہ تباہی کی طرف رواں دواں ہوتی ہے۔
تینوں کا مقدس اتحاد
٭ماں اقدار کی بیج بوتی ہے۔
٭بیٹی امید کو پروان چڑھاتی ہے۔
٭اُستانی علم و کردار کی شاہراہ بناتی ہے۔
یہ تینوں اگر تعلیم یافتہ، باوقار، اور بااختیار ہوں تو کسی قوم کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جھکا سکتی۔ یہ خاموش کردار نہیں، یہ ریڑھ کی ہڈی، دل کی دھڑکن، اور روح کی روشنی ہیں۔
قوموں کے لئے پیغام
اگر ہم چاہتے ہیں کہ:
٭ظلم ختم ہو،
٭کردار بنے،
٭عدل کا بول بالا ہو،
تو ہمیں سب سے پہلے ماں کو عزت دینی ہوگی، بیٹی کو مواقع دینے ہوں گے، اور اُستانی کو مقام دینا ہوگا۔
یہ جذباتی بات نہیں.... یہ قومی حکمت عملی ہے۔ یہی وہ راز ہے جو قوموں کو بیدار کرتا ہے، نسلوں کو عظمت بخشتا ہے، اور دنیا کو بہتر بناتا ہے۔
ماں، بیٹی، اور اُستانی
٭یہ صرف رشتے نہیں، یہ امت کی معمار، قوم کی محافظ، اور تہذیب کی علمبردار ہیں۔
٭اگر آج ہم نے ان کی طرف نہ دیکھا، تو کل انکی آنکھوں میں صرف پچھتاوا، زوال، اور اندھیرا ہوگا۔
٭مگر اگر آج ہم نے ان کا ہاتھ تھام لیا، تو کل کی صبح ان ہی کے دم سے روشن ہوگی۔
(مضمون نگار مومن گرلز ہائی اسکول، بھیونڈی کی ہیڈ مسٹریس ہیں۔)