Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: ایک تفریحی مقام کی میری یادیں

Updated: November 30, 2023, 5:08 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Photo: INN
بھاگتی دوڑتی زندگی سے دور پُر کیف فضا میں کچھ وقت گزارنا ذہن کو سکون بخشتا ہے اور ہماری یادوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ تصویر: آئی این این

مروڈ جنجیرہ کا قلعہ


مہاراشٹر کے رائے گڑھ میں واقع ایک قلعہ جس کا اپنا ہی جلوہ ہے وہ جنجیرہ کا قلعہ ہے۔ یہ سمندر کے درمیان واقع ہے اور مضبوطی کی علامت ہے۔ یہ قلعہ مہاراشٹر کے علی باغ سے کم و بیش ۵۵؍ کلومیٹر کی دوری پر مروڈ کے ساحل پر ہزاروں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس قلعہ کی سب سے اہم اور خاص بات اس کا مضبوط حصار ہے۔ اس قلعہ تک جانے کے لئے باد بانی کشتی کا استعمال کیا جاتا ہے جو ہوا کے رخ سے اپنی سمتوں کو پار کرتے ہوئے قلعہ تک پہنچتی ہے۔ یہ قلعہ کسی عام جگہ پر واقع نہیں ہے بلکہ چاروں طرف سے کھارے پانی کے سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا فن تعمیر اور ڈیزائن  ایسا ہےکہ دشمن اس قلعے میں داخل ہونے سے پہلے ہی الجھ جاتے تھے۔ اس قلعہ کی کشش اور اطراف کے مناظر اب بھی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
تاریخی مقامات کی سیر


عنوان پڑھتے ہی مَیں اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گئی۔ اس وقت میں ساتویں جماعت کی طالبہ تھی۔ میرے بڑے بھائی روشن نواز جو اُس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے اور آج ایک کامیاب ڈاکٹر ہیں اور مَیں نگر پالیکا شہادہ میں ایک معلمہ کے فرائض انجام دے رہی ہوں، اُس وقت میرے والد صاحب اسی اسکول میں ڈرائنگ ٹیچر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اسکول کی تعلیمی سیر میں ہم دونوں بھائی بہن بھی شامل تھے۔ اجنتا، ایلورہ، اورنگ آباد اور خلد آباد جانے کا سنہرا موقع ہمیں ملا۔ تمام تاریخی مقامات کی وہ تفریح آج بھی ذہن میں آئینے کی طرح صاف ہے۔ اُن حسین یادوں کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ایک تو بچپن ناقابل فراموش اس پر بچپن کی تفریحی یادیں، اُف!۔
رومانہ تبسم شیخ افضل منصوری  (شہادہ، نندوربار)
ماؤنٹ آبو ہل اسٹیشن (راجستھان)


ممبئی ایک بھیڑ بھاڑ والا شہر ہے۔ ممبئی میں بسنے والے اکثر لوگ شہر سے دور گھومنے جانا پسند کرتے ہیں۔ ہماری فیملی کا ماؤنٹ آبو (راجستھان) گھومنے کا پلان بنا تو  یہ سنتے ہی مَیں بہت جذباتی ہوگئی ۔ مَیں نے سنا تھا کہ ’قیامت سے قیامت تک‘‘ کے کئی مناظر  ماؤنٹ آبو میں فلمائے گئے تھے۔ اُ نہی مناظر کے بارے میں سوچتے ہوئے ماؤنٹ آبو پہنچے۔ جیسا سوچا تھا اس سے بہتر منظر دیکھنے کو ملا۔ جنگلوں سے گھرا ہوا ہل اسٹیشن اور وہاں کا پُرسکون ماحول ذہن کو فرحت بخش رہا تھا۔ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی نکّی جھیل میں ہم نے بوٹنگ کی۔ ماؤنٹ ابو سے دوستوں کیلئے تحفے بھی خریدے۔ وہاں کی دکانوں میں راجستھان اور گجرات کی طرز کا سامان فروخت ہورہا تھا۔ وہاں کی رضائی بہت  پسند آئی۔ نکّی جھیل کے اطراف کے ہوٹل شاندار تھے۔ راجستھانی پکوانوں میں بھی لطف آیا۔ سن سیٹ پوائنٹ بھی دیکھا۔ اس تفریحی مقام کی یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔
ثمینہ علی رضا خان (کوسہ، ممبرا)
آگرہ کا تاج محل
شادی کے دس روز کے بعد اپنے شریک سفر کے ساتھ میں نے جو یادگار وقت گزارا اس کی اہمیت میری پوری زندگی میں بہت معنی رکھتی ہے۔ جب میں آگرہ کے سفر پر گھر سے زندگی میں پہلی بار اتنی دور اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو چھوڑ کر گئی تو ایسا لگا مَیں کیسے رہوں گی لیکن تاج محل کے حسن و جمال نے مجھے ایک الگ دنیا میں پہنچا دیا۔ جگہ جگہ سیاحوں سے ملنا اور ان سے گفتگو کرنا اچھا تجربہ تھا۔ یہ سفر ہمیشہ یاد رہے گا اس شعر کی طرح: 
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل= ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے !
سنجیدہ فاطمہ (اعظم گڑھ، یوپی)

تاج محل کا دیدار
چند سال پہلے علاج کی غرض سے دہلی جانا ہوا، بہن قمر کے گھر ٹھہرے تھے۔ علاج معالجے کے بعد طے پایا کہ کسی تفریحی مقام کی سیر کی جائے۔ دہلی میں مغل سلطنت کی کئی نشانیاں محفوظ ہیں جن میں سے  شاہجہاں کی تعمیر کردہ محبت کی یادگار ’تاج محل‘ دیکھنے کا پروگرام بنا۔ چنانچہ ایک صبح ہم لوگ آگرہ کیلئے روانہ ہوئے۔ ہمارے قافلے میں امی جان، ابا جان، بہن بھائی، شوہر بچے سبھی ساتھ تھے۔ ٹرین سے آگرہ پہنچے تو دوپہر ہونے کو تھی، کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر ہم نے آگے کی راہ لی۔ بچے غیر معمولی طور پر پُرجوش تھے۔ آخر تاج محل کی کہانی انہوں نے نصاب میں جو پڑھ رکھی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہم سب تاج محل کے داخلی دروازے پر اپنی باری کے منتظر تھے۔ صف میں ملکی غیر ملکی ہر طرح کے لوگ تھے۔ بالآخر ہماری باری آگئی۔ تاج بڑی حد تک زمانے کے سرد و گرم سے بچا ہوا ہے اور اس میں اولین دنوں کی تازگی اب بھی ہے، رہی خوبصورتی تو اس کا کیا کہنا۔ قابل ذکر یہ ہے کہ اسے میں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیکھا۔ شام ہو رہی تھی لہٰذا ہم سب واپس ہوئے، گھر پہنچے تو رات ہوچکی تھی۔ بھائی نیاز ابا کی پسند کا کھانا پہلے ہی تیار کر چکے تھے، ان کی اِس مستعدی  پر سب حیران ہوئے، کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر سب نے بستر کی راہ لی۔ وقت بیت گیا۔ یادیں رہ گئیں۔
بنت شبیر احمد (کملداھا، ارریہ، بہار)
گرمی کی چھٹی اور نانی کا گاؤں
اسکول میں گرمی کی چھٹی شروع ہونے سے پہلے ہی نانی کے گھر جانے کی تیاری شروع ہوجاتی تھی۔ کچے پکے گلیاروں سے ہوتے ہوئے نانی کے گاؤں پہنچتے جہاں نانی کے بوڑھے خوبصورت چہرے پر ہمیں دیکھ کر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ نانی کے گھر کی خوبصورتی ان کے اونچے ستون والے برآمدے اور کچیلا آنگن تھا۔ گھر کے دونوں جانب تالاب تھا جہاں گائوں کی عورتیں کپڑے دھویا کرتی تھیں۔ گھر کے بالکل سامنے ہمارا آم کا باغ تھا۔ باغ میں ایک جانب چھوٹی سی مسجد تھی جہاں محلے کے لوگ نماز پڑھتے تھے۔ ناشتہ کرتے ہی ہم آم کے  لالچ میں باغ کی جانب دوڑ پڑتے۔ دوپہر ہوتے ہی آئس کریم والے کا انتظار شروع ہوجاتا۔ آئس کریم اور باغ کی ٹھنڈی ہواؤں میں یوں گم ہوتے کہ جب تک گھر سے کوئی بڑا ہاتھ میں چھڑی لئے نہ آجاتا احساس ہی نہ ہوتاکہ  سورج اپنی تپش سمیٹے کب کا ڈھل چکا ہے۔ گھر آکر نانی گرم روٹی پر گڑ اور گھی لگا کر دیتیں۔ پھر کھلے آسمان کے نیچے لیٹ کر ہم لوگ نانی کے قصے سنتے ہوئے سو جاتے۔ رات کتنی بھی دیر سے سوتے صبح اذان کے وقت بیدار ہوجاتے۔ نماز پڑھ کر کھیتوں میں نکل جاتے جہاں کی شبنم بھری گھاس اور خوبصورت فصلوں میں الگ ہی سکون تھا۔
مرزا تقدیس فضل صدیقی (غیبی نگر، بھیونڈی)
تفریح بھی اور معلومات بھی


مجھے ہر سال موسم گرما کے چند روز مہابلیشور میں گزارنا پسند ہے۔ یہ مہاراشٹر کا سب سے خوبصورت اور صحت افزا مقام ہے۔ خوبصورت پہاڑ اور ندیوں سے گھرا ہوا یہ شہر سیاحوں کیلئے کافی کشش رکھتا ہے۔ یہ اپنے سرد موسم اور شاندار نظاروں کے لئے مشہور ہے۔ یہاں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں کئی افراد اپنے ساتھیوں اور خاندان سمیت آکر تعطیلات کا مزہ لیتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگ سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں۔ ذینا لیک مہا بلشور کی خوبصورت جھیل ہے۔ اونچے اونچے پہاڑ اور گھاس سے گھری ہوئی ہے۔ سیاح یہاں بوٹنگ کرتے ہیں اور جھیل کے آس پاس گھڑ سواری بھی کرتے ہیں۔ پرتاپ گڑھ کا قلعہ مہاراشٹر کا سب سے بڑا قلعہ مانا جاتا ہے۔ تپولہ ایک خوبصورت قدرتی مناظر والا مقام ہے۔ اسے نیا کشمیر بھی کہتے ہیں۔ یہاں بھی ایک جھیل ہے جس میں سیاح کشتی چلانے کا مزہ بھی لیتے ہیں۔ یہاں لنگ والا واٹر فال بہت ہی خوشنما مقام ہے۔  ایک خوبصورت آبشار بھی سیاحوں کا دل جیت لینے کو بیقرار رہتا ہے۔ بعد ازاں لوگ پنچ گئی کی سیر کرتے ہیں جو  پانچ پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہونے کی وجہ سے پنچ گنی کہلاتا ہے۔ یہ مہابلشور سے قریب ایک خوبصورت نظارے والا مقام ہے اور آفتاب غروب ہونے کا منظر بڑا حسین ہوتا ہے جو برطانوی دور میں سمر ریزارٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں کا موسم سال بھر سہانا رہتا ہے۔ ایلیفینٹ ہیڈ پوائنٹ بہت ہی پر سکون جگہ ہے۔ یہاں چٹانوں کی ترتیب ہاتھی کی سونڈ کی مانند دکھائی دیتی ہے اسی لئے اسے ایلیفینٹ ہیڈ پوائنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ یہاں چند میل کی دوری پر ایک ’’پستک گاؤں‘‘ بھی ہے تو اسے دیکھنے کا اشتیاق بڑھ گیا۔ ٹیکسی لے کر اس گاؤں کو دیکھنے کیلئے نکل پڑی۔ یہاں کتابوں کا انبار دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئی۔ ہر زبان کی کتابیں یہاں دستیاب ہیں۔ لگتا ہے پورا گاؤں ہی کتابوں سے بھرا پڑا ہے۔ اتنی دلچسپ جگہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اس لئے یہ میرے لئے ایک یادگار سفر تھا۔ یہ ایک قسم کی تفریح بھی تھی اور اس سے حیرت انگیز معلومات میں اضافہ بھی ہوا۔
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
سفر میں پرس کا چوری ہونا
مجھے بچپن ہی سے گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ مَیں اپنے ننھیال میں رہتی تھی اور میرے مرحوم نانا ریلوے میں ملازمت کرتے تھے اسلئے انہیں ریلوے کا مفت پاس ملتا تھا جس سے پورے ہندوستان میں کہیں بھی ریلوے کا مفت میں سفر کرسکتے تھے۔ ایک پاس کی مدت چھ ماہ ہوتی تھی۔ اور سونے پر سہاگہ، میرے مرحوم نانا کو گھومنے اور گھر والوں کو گھمانے کا بھی شوق تھا۔ اسلئے مَیں نے دہلی، آگرہ، ممبئی، فتح پور سیکری، جبل پور وغیرہ کے سفر کئے جس میں ممبئی کا سفر آج بھی یاد ہے کیونکہ ہم کٹیہار سے ممبئی جا رہے تھے۔ دو دن دو رات کا سفر تھا اور ٹرین میں میرا پرس چوری ہوگیا۔ جس میں بڑے بیگ کی چابی، موبائل اور نقد رقم وغیرہ تھے۔ مَیں بہت روئی۔ نانی نانا نے کافی تسلی دی۔ افسوس اس بات کا تھا کہ سال بھر سے رقم اکٹھا کر رہی تھی، سارے چوری ہوگئے۔ خیر، نانا کے سمجھانے کے بعد کہ مجھ سے لے لینا جتنی رقم چاہئے، میں چپ ہوگئی حالانکہ دل نہیں مانا کیونکہ خود کے جمع کئے ہوئے روپوں کی بات کچھ اور ہوتی ہے۔ نانا نے دل کھول کر شاپنگ کروائی۔ نانا کا پیار یاد کرکے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی۔ لیکن آج بھی وہ سفر یاد ہے۔
سمیہ معتضد (اعظم گڑھ، یوپی)

حسین سفر کی حسین یادیں


مَیں گھومنے کی بے حد شوقین ہوں۔ ابھی کچھ ماہ پہلے ہم لوگ نینی تال کیلئے اپنی فیملی کے ساتھ لکھنؤ سے اپنی گاڑی سے روانہ ہوئے اور چھ گھنٹے میں پہنچ گئے۔ نینی تال پہنچ کر ہم  نے ہوٹل میں قیام کیا۔ تازہ دم ہو کر گھومنے کیلئے نکلے۔ نینی جھیل میں کشتی سے سواری کی۔ ہرے ہرے پانی میں چاروں طرف پہاڑوں کے درمیان اتنا سکون ملا کہ لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ وہاں سے نکل کر ہم لوگ مال روڈ گئے جہاں کئی  چیزیں خریدیں پھر ہوٹل روانہ ہوگئے۔ ہوٹل سے رات میں جھیل کا نظارہ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔ مَیں قدرت کی جلوہ گری پر حیران تھی۔
 دوسرے دن ہمارا پروگرام جم کاربیٹ پارک جانے کا تھا جہاں ہم نے ہاتھی کی سواری کی۔ جنگل میں شیر، ہرن، بھالو اور چھوٹے جانور بھی دیکھے۔ جنگل میں قدرت کے نظارے بہت ہی حسین لگ رہے تھے۔ اس کے بعد ہم لوگ بھیم تال، نوکچیا تال، سات تال اور کھریہ تال دیکھتے ہوئے واپس آئے مگر اس حسین سفر کی یادیں ہمارے دلوں پر اب بھی نقش ہیں۔
گل شہانہ صدیقی (امین آباد، لکھنؤ)
صبح کا پاکیزہ سکوت


مَیں نے حال ہی میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ مہابلیشور کی سیر کی ہے۔ مہابلیشور ایک پُرفضا پہاڑی مقام ہے۔ پہاڑوں کا سفر جو دلوں میں اور جسم میں ایک جوش بھر دیتا ہے۔ یہ میری پوری فیملی کے ساتھ اتنے برسوں میں پہلا سفر تھا۔ رات کے وقت ہم نے اپنے سفر کی شروعات کی تھی۔ صبح کے وقت کی کہر، خاموشی اور تازگی میرے ذہن میں نقش ہوگئی۔ وہاں کے تفریحی مقامات کی سیر اور ان سے جمع کردہ تفصیل مجھ سے زیادہ میرے بچوں کو یاد ہے۔ گہری کھائیاں، اونچے پہاڑ اور ان پر بل کھاتی سڑکیں دلوں کو  دہلا دیتی ہیں۔ خوبصورت جھیل میں بوٹنگ کا الگ ہی مزہ تھا۔ گھر والوں کی موجودگی میں ایک نئے مقام کی اجنبیت کہیں دور چلی گئی۔ رات کے وقت میں بازاروں کی چہل پہل دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی تو صبح کے وقت کی خاموشی میں بڑی پاکیزگی محسوس ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا کے شور و غل اور مسائل سے دور بس یہیں کے ہو کر رہ جائیں لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ دو دن اور تین راتوں کے سفر کے بعد ہماری یہ سیر اگلی سیر کے ارادہ پر تمام  ہوئی۔ لیکن ہماری روزمرہ کی باتوں اور تبصروں میں آج بھی  شامل ہے۔
انصاری لمیس (بھیونڈی، تھانے)
ہماری منزل اور چار پہیہ گاڑی
یہ بات ان دنوں کی ہے جب ہم سب عید منانے کیلئے دادی کے گھر جاتے تھے۔ عید کا تیسرا دن تھا۔ ہم سب نے پھوپھی سے کہا کہ ہم سب کو گھمانے لے چلیں کیونکہ سب کی جیبیں عیدی کی نوٹوں سے بھری ہوئی تھیں۔ سب نے اپنے اپنے حصے کی رقم دی اور گھومنے کا منصوبہ بنایا۔ پھر ہماری گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئی۔ جب ہم سب اپنی گاڑی سے اترے تو وہاں کھڑے لوگوں نے ہمیں گننا شروع کیا: ایک، دو، تین.... بیس....! ۲۰؍ لوگوں کا  چار پہیہ گاڑی میں سوار ہونا ناقابل یقین لگتا ہے مگر اس سے آپ سیاحت کے ہمارے ذوق و شوق کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ خوبصورت یادیں آج بھی لطف دیتی ہیں۔
ہما عاصم (لکھنؤ، یوپی)
ممبئی درشن کے دروان یہ بھی ہوا


۲۰۱۵ء کی بات ہے۔ اس وقت میں ایک پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تھی۔ میں نے طلبہ کیلئے ایک دن کی پکنک ’’ممبئی درشن‘‘ کا منصوبہ بنایا تھا۔ صبح سے کب شام ہوگئی پتہ ہی نہیں چلا۔ یہ پکنک ہمیشہ یاد رہے گی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم اپنے آخری اسپاٹ جوہو بیچ پر پہنچے تو سارے اسٹاف اور طلبہ سمندر کی لہریں دیکھ کر بے قابو ہوگئے اور سبھی دوڑ کر پانی میں چلے گئے۔ مَیں اور میری ۴؍ سالہ بیٹی بھی ان میں شامل ہوگئی۔ پانی میں جانے کے بعد مت پوچھئے کیا ہوا، قسمت نے یاوری کی ورنہ....... ! ہوا یہ کہ مَیں اور میری بچی ایک اونچی لہر کی زد میں آگئے مگر خوش قسمتی تھی کہ ایک شخص نے ہماری مدد کی۔ جب بھی یہ واقعہ یاد آتا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)
نینی تال


مَیں اپنے گھر کے تمام افراد کے ساتھ نینی تال گئی تھی۔ بس میں سے نیچے کی جانب دیکھنے پر مجھے صرف گہری کھائیاں ہی نظر آرہی تھیں۔ پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے پودے اور گھاس بہت دلکش اور خوشنما تھے۔ وہاں کے ہوٹل نہایت وسیع، خوبصورت اور مہنگے ہیں۔ نینی تال کی جھیل رات میں قابلِ دید ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے پورا شہر اسی میں سما گیا ہو۔ سیر کرنے کے بعد جب میں اپنے ہوٹل پر واپس آئی تو بارش کی بوندوں کے ساتھ ساتھ برف باری انتہائی دیدہ زیب اور پر کشش تھی۔ مجھے اب بھی وہاں کے وہ خوبصورت مناظر بہت یاد آتے ہیں۔ خدا نے چاہا اور زندگی رہی تو ان شاء الله ہم لوگ نینی تال کی سیر کا دوبارہ پروگرام بنائیں گے کہ ایک سیر سے طبیعت سیر نہیں ہوئی۔
سلیمہ خاتون (پیلی بھیت، یوپی)
جم کاربٹ نیشنل پارک


جم کاربٹ نیشنل پارک (اتراکھنڈ) کا سفر ہمیشہ یادگار رہے گا جہاں ہم تقریباً بیس لوگ ساتھ میں گئے تھے۔ دن میں جنگل گھوم کے شام کے وقت ہم لوگ اپنے ریزارٹ ’’کیمپ ریور وائلڈ‘‘ لوٹتے تھے، پھر جو محفل جمتی تھی ’’بون فائر‘‘ کے گرد قصوں کا دور شروع ہوتا تھا تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ندی کے کنارے بنا یہ ریزارٹ بے حد خوبصورت کسی فلمی سین سے کم نہیں تھا۔ ندی میں طرح طرح کے چھوٹے بڑے پتّھر سب کی توجہ کا مرکز تھے۔ کچھ پتھر تو ہم اپنے ساتھ بھی لے آئے۔
 وہ تین دن ہر قسم کی فکر سے آزاد اور سوشل میڈیا سے دور بہت پرسکون تھے جو ہم لوگوں کیلئے یادگار بن گئے۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)

یورپ: حیرت و خواب کی دُنیا


ایک تفریحی سفر پر مَیں ان دنوں اپنے وطن سے دور یورپ کے ایک خوبصورت خطے پر موجود ہیں۔ قدرت کی خوبصورتی کے ہزاروں جلوے یہاں آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ ایک نئی ثقافت و معاشرے سے متعارف ہونے کا یہ سفر بیحد خوبصورت ہے۔ لوگوں کے طرز زندگی میں ایک انوکھا پن ہے۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہم اپنے وطن میں دیکھنا چاہتے ہیں مگر وہ ہمیں یہاں واضح دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً یہاں قانون کی حقیقی حکمرانی ہے۔ قانون کے نام پر لاقانونیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قانون کی پاسداری حقیقتاً موجود ہے۔ لوگوں کا سماجی شعور پختہ ہے۔ معاشرہ میں سلیقہ ونظم و ضبط دکھائی دیتا ہے۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیاجاتا ہے۔ وقت کی پابندی ہے۔ ضروری سہولیات تمام لوگوں کیلئے برابر ہیں۔ کشادہ، صاف ستھری سڑکیں، بجلی، گیس پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سہولیات عام ہیں۔لوگ محنت کی عظمت سے واقف ہیں، سو محنت کے کسی کام میں انہیں عار نہیں۔ اس معاشرے میں یقیناً کچھ کمیاں وخامیاں لازم ہیں مگر ہمیں مثبت پہلو مد نظر رکھنا چاہئے اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے میں خوشحالی اور خوشیوں کے حصول کے بے شمار مواقع ہیں۔ اپنے وطن سے دور واقعی یہ حیرت و خواب کی دنیا ہے۔ کاش کہ ہمارے وطن میں بھی ان خوبیوں کو راہ مل جائے۔
فوڈکر ساجدہ (کنیڈا)
آگرہ کی سیر


جب میں ۷؍ ویں جماعت میں زیر تعلیم تھی تب میرے پاپا نے دیوالی کی تعطیلات میں آگرہ کی سیر کا پروگرام بنایا۔ ہم سبھی بھائی بہن اور میری پھوپھی کی فیملی ساتھ تھے۔ ہنستے کھیلتے ٹرین کا سفر تمام ہوا اور ہم آگرہ پہنچ گئے۔ تاج محل کے بارے میں اتنا کچھ سن رکھا تھا کہ صبر ہی نہیں ہو رہا تھا۔ خیر سے ہوٹل پہنچے سبھی نہا دھو کر تازہ دم ہوئے اور نکل پڑے اس شاہکار کا دیدار کرنے کیلئے۔ اف! جب میں نے پہلی بار تاج محل کو دیکھا اس احساس کو منظر بیان کرنا مشکل ہے۔ اس کی خوبصورتی دیکھ کر سارے کے سارے دنگ رہ گئے۔ اتنی عالیشان کوئی عمارت ہوسکتی ہے۔ دماغ ماننے سے انکار کر رہا تھا۔ خوب اچھی طرح تاج محل کے کونے کونے کو دیکھا۔ دلکش باغیچے میں بیٹھ کر تصویریں کھینچوائیں اور ڈھیروں یادیں دل میں لئے گھر واپس آگئے۔
نگار رضوی (اندھیری، ممبئی)
ماتھیران: گھوڑے کی سواری


حال ہی میں میری اور میری آپا کی فیملی ماتھیران گئے تھے۔ ہم لوگوں نے وہاں بہت لطف اٹھایا۔ جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے وہاں رہائش کے ساتھ کھانا مفت تھا اور کھانا ذائقہ دار تھا۔ ہم لوگوں نے وہاں بہت سارے کھیل کھیلے۔ گھوڑے پر بیٹھ کر پورا ماتھیران گھومے۔ متعدد پوائنٹس کی سیر کی جن میں مجھے سن رائز، سن سیٹ اور ایکو پوائنٹ بہت پسند آئے۔ ماتھیران سے لوٹتے وقت چکی نہ خریدیں تو سفر ادھورا معلوم ہوتا ہے۔ یہ بہت اچھا سفر تھا اور ہمیشہ یاد رہے گا۔
صدف الیاس شیخ (تلوجہ)
شہید اسمارک پارک


شہید اسمارک پارک ایک ایسا تفریحی مقام ہے جہاں سے بہت ساری بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ آج بھی ان کی جھلکیاں آنکھوں میں بسی ہوئی ہیں۔ مجھے یاد ہے گومتی ندی کے کنارے بنا یہ پارک، جہاں کئی جھولے لگے ہوئے تھے، جس پر میں اور میرا چھوٹا بھائی خوب جھولتے اور شرارت کرتے تھے۔ ندی کے درمیان میں ایک ’’شکارا‘‘ نام کی بڑی سی کشتی ہوا کرتی تھی، جس پر ایک ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا۔ اس میں بیٹھ کر کھانے کے لطف کا کیا کہنا!
ہما انصاری ( مولوی گنج، لکھنؤ)
نانا جان کے پشتینی کھیت کی سیر
الحمدللہ بچپن سے اب تک متعدد تفریحی مقامات کی سیر کر چکی ہوں۔ ان میں ہر مقام کی ڈھیر ساری یادیں اب بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ یادیں نانا جان کے پشتینی کھیت کی سیر کی ہیں۔ میرے نانا کا گاؤں دیول گھاٹ ہے اور کھیت سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جو پلس کھیڑ گاؤں کے قریب ہے۔ اس کھیت کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پہاڑیوں کے دامن میں ہے، دوسرے وہاں سے نزدیک ہی دیکھنے کے لئے ’’کالی بھیت‘‘ نامی دیوار ہے جو دو پہاڑیوں کے درمیان بہت گہری کھائی ہے۔ اس لحاظ سے اسے کالی بھیت کہا جاتا ہے۔ پس اسے دیکھنے کا اشتیاق بھی وہاں لے گیا۔ وہاں جانا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ پوری روداد سنا نا یہاں ممکن نہیں۔ بس کچھ یادیں آپ سب کی نذر۔ سب سے پہلے تو وہاں جانے کے لئے سب کو راضی کیا گیا۔ اللہ اللہ کرکے وہ دن بھی آیا جب ہم لوگ کھیت جانے (کالی بھیت دیکھنے) کے لئے روانہ ہوئے۔ میرے دونوں ماموں، ممانیاں، ان کے بچے، خالہ اور ان کے بچے امی اور ہم سب بہن بھائی ایک کار اور ایپے ( ایک طرح کے رکشے) پر سوار ہوئے۔ ایک گاؤں سے گزرتے ہوئے ہمیں دور پہاڑی کے کنارے ہی اترنا پڑا، وہاں سے راستہ پیدل طے کرنا تھا۔ پگڈنڈی کے راستہ ہم سب خوب مستی کرتے ہوئے نانا کے کھیت پہنچے۔ کنویں سے پانی نکالا، کھانے کا انتظام گھر ہی سے کر لیا تھا۔ اس لئے کھیت میں آم کے درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ پھر ہم سب بچے پورے کھیت میں گھومنے لگے، اس وقت کھیت میں چنے کی فصل تھی۔ کھیت کے آگے ہی پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ ہم لوگ پہاڑ کی طرف نکل گئے دور تک پہاڑ یاں نظر آرہی تھیں۔ درمیان میں بہتا ہوا پانی، بہت سارے چرتے ہوئے جانور اور ان کے پیچھے چرواہے، لیکن کالی بھیت کا دور دور تک پتہ نہیں تھا چونکہ ’’کالی بھیت‘‘ وہاں سے مزید دور تھی، اس لئے آگے کا راستہ طے کرنا منقطع ہوا۔ وہاں قدرت کے حسین مناظر دل کو سرور بخش رہے تھے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں دل کو گدگدا رہی تھیں۔ وہ منظر اور اُس وقت کے احساسات کو قلمبند کرنا ممکن نہیں۔ آج بھی اس سیر کا ایک ایک منظر آنکھوں میں گھوم جاتا ہے، اور پھر اپنوں کا ساتھ، ان کے قہقہے اور لبوں پر تبسم، دل کو اطمینان سے بھر دیتا ہے۔
فردوس انجم ( بلڈانہ، مہاراشٹر)
کوسانی پہاڑی اور طلوعِ آفتاب کا منظر


یہ اس وقت کی بات ہے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ یہ ٹور ۲۵؍ سے ۳۰؍ افراد پر مشتمل تھا۔ چاچاؤں کی فیملی بھی شامل تھی۔ اس تفریحی سیر میں دہلی، آگرہ، لکھنؤ اور نینی تال جیسے مقامات شامل تھے۔ کل ۲۲؍ دن کی سیر کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے نومبر کی شدید سردی میں ہم لکھنؤ سے ہلدوانی اسٹیشن پہنچے اور وہاں سے گاڑی کے ذریعے نینی تال۔ دو تین روز قریبی مقام کی سیر کرنے کے بعد ہوٹل گائیڈ نے ہمیں دوپہر کو ہی اطلاع دی کہ رات ہمیں کسی دوسرے مقام پر جانا ہے جو نینی تال سے کچھ دوری پر ہے۔ ہمیں اس مقام پر رات تین سے چار بجے سے پہلے پہنچنا تھا۔ خیر سب نے ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ رات کا کھانا کھا کر پورا گروپ بس میں سوار ہوگیا اور اس مقام پر پہنچ گیا۔ ہم سبھی بھائی بہن اس رات کے سفر کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے تھے کیونکہ سبھی کو نیند آ رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر رات کے اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ انہوں نے ہمیں رات کی سردی سے بچنے کیلئے چائے پیش کی۔ تقریباً چار بجے سبھی کو ایک جگہ جمع کیا گیا اور ہدایت دی گئی کہ اس مقام پر کھڑے رہنا ہے۔ ہم بچے بیزاری کے عالم میں کھڑے تھے۔ کچھ دیر کے انتظار کے بعد جب سورج کی روشنی نے دھیرے دھیرے اپنے کرنوں کی چادر پھیلائی تو سامنے دکھائی دینے والا منظر آنکھوں کو ششدر کر دینے والا تھا۔ ہم کوسانی پہاڑی مقام پر کھڑے تھے۔ جہاں سامنے کی طرف برفیلے پہاڑوں کی قطار سفید چادر اوڑھے کھڑی تھی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ مَیں اتنا خوبصورت اور دلکش منظر دیکھ رہی ہوں۔ پلک جھپکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ جوں جوں سورج کی روشنی بڑھی اس کی تپش سے برف پگھلتی نظر آرہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر دل میں اتنی مسرت ہو رہی تھی کہ ساری بیزاری اور نیند کی کمی سے طبیعت کا بوجھل پن کہیں غائب ہوگیا اور آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ جب مکمل اُجالا ہوا تو سبھی واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔ اس وقت سمجھ آئی کہ رات کا سفر اور نیند کی قربانی کا کیا خوبصورت صلہ ملا ہے۔ ہوٹل کی طرف ہائی وے سے روانہ ہوتے ہوئے راستے کے دونوں جانب جگہ جگہ گلاب کے پودے پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ یہ ساری چیزیں بڑی انوکھی اور زبان کو گنگ کر دینے والی تھیں۔ اس عنوان کے تحت اپنے سفر کی روداد قلم بند کرتے وقت سارے منظر کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ لکھتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
نیاگرا فالز.... کنیڈا


زندگی کے جس ایک بے حد یادگار سفر کی یادیں بتانا چاہتی ہوں وہ گزشتہ مہینوں میں کنیڈا (ٹورنٹو) کا سفر ہے۔ ڈسپلن، قوانین کا احترام، شائستہ خوش مزاج، خوش اخلاق، تہذیب یافتہ اور ایسے کئی بہترین اوصاف سے مزین لوگ اور معاشرہ اپنی مثال آپ ہے۔ گندگی، تعفن کوڑا کچرا حتیٰ کہ دھول مٹی تک کا بھی کہیں نام و نشان نہیں کہ صاف صفائی اور نفاست چپہ چپہ پردکھائی دیتی ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے کے مقولے کو غیر اقوام نے مکمل ایمان کی طرح اپنایا ہے۔ قدیم و جدید طرزِ تعمیر کے شاہکار خوبصورت گھر عمارتیں کشادہ راستے، ہرے بھرے باغات، صاف ستھری آئینہ مثال ندیوں اور نہروں کا ملک جسے قدرت نے بے مثال خوبصورتی، حسین مناظر اور موسموں سے نوازا ہے۔ ہر موسم کا اپنا حسن ہے مگر مجھے جس موسم نے مسحور کردیا وہ تھا سیکڑوں رنگوں سے مزین موسم ِ خزاں، جس کا حسن بہار کو بھی مات دے دے، قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک نیاگرا فالز ہے جسے بار بار دیکھ کر بھی جی نہ بھرے، تین جانب سے آبشار کا نظارہ کیا جاتا ہے، اوپر کی جانب سے، پشت کی جانب سے اور بوٹ کے ذریعے آبشار کے نیچے بالکل قریب تک جانا، ہر منظر ایک بےحد خوشگوار اور منفرد تجربہ تھا۔ پانی کی دیو ہیکل دیوار کی مانند پُر شور آبشار کی صورت گرتا ہوا لاکھوں ٹن پانی اللہ کی قدرت اور صناعی کا ایسا نمونہ ہے جس پر پہلی نظر پڑتے ہی آنکھیں کسی انجانی سی کیفیت سے بے ساختہ نم ہو جاتی ہیں، جس منظر کو ہمیشہ تصویروں میں دیکھا تھا اُسےمجسم آنکھوں کے سامنے دیکھنے اور اس حسین ترین منظر میں اپنے موجود ہونے کے لئے دل شکر گزاری سے بھر جاتا ہے مختصر یہ کہ ؎
ہر جا تیری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
 سیاحت کے نقطۂ نظر سے حکومت کے انتظامات اور سہولتیں بہترین ہیں۔ اگر قدرت نے وہاں خوبصورتی کے خزانے لٹائے ہیں تو حکومت اور عوام نے بھی اُن خزانوں کی حفاظت اور قدر دانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ بلاشبہ یہ ملک فردوس بر روئے زمین است ہے۔
خالدہ فوڈکر (ممبئی)
تاریخی مقامات کی سیر


جب ہم کالج میں تھے تب اورنگ آباد، دولت آباد اور لوناؤلہ جانے کا موقع ملا تھا۔ ہماری یہ ٹرپ دو دن کی تھی جس کو ہم نے اپنے بڑوں کی اجازت سے پہلی مرتبہ کی تھی۔ بالکل مثبت انداز میں ہم نکلے تھے اور ہم نے بہت سے تجربات حاصل کئے۔ تاریخی مقامات کو اب تک کتابوں میں ہی پڑھتے تھے اب آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اور ایسا ہوگیا کہ وہ ساری تصویریں ذہن پر نقش ہوگئیں، ان کی ایک چھاپ دماغ میں چھپ گئی۔ پہلی بار اپنی ذمہ داری آپ اٹھانے کا تجربہ ہوا تھا۔ ہم نے اپنی یادیں قید کرلی تھیں۔ سب سے زیادہ اچھا اس وقت لگتا تھا جب ہماری میم ہمارے ساتھ دوستانہ سلوک کرتیں تب فخر محسوس ہوتا تھا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر کوئی تجربہ حاصل کرنا، اس پر تبصرہ کرنا اور اپنی رائے دینا بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ معلومات میں کافی اضافہ بھی ہوا۔ مختصراً یہ کہ سفر بہت اچھا رہا اور یادگار بھی۔
قریشی فردوس (کلبرگہ، کرناٹک)
نینی تال اور جنگلی جانور
گریجویشن کے سال دوم میں تھی تب کالج سے نینی تال لے گئے تھے۔ وہاں ’’ہمالیہ‘‘ نامی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ ہم چھ لڑکیوں کو گراؤنڈ فلور پر ایک کمرہ دیا گیا تھا۔ رات ہوئی تو ہوٹل کے گارڈ نے ہمیں تاکید کی کہ، ’’اندھیرا ہونے کے بعد کمرے سے باہر مت نکلنا، یہاں جنگلی جانور حملہ کرتے ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے اس ہوٹل میں بھی جنگلی جانور نظر آیا تھا۔‘‘ یہ بات سننے کے بعد ہماری حالت دیکھنے لائق تھی اور یہی بات ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی۔ 
مومن روزمین (کوٹر گیٹ، بھیونڈی)
نینی تال کا غیر متوقع سفر
کسی تقریب کے سلسلے میں ہم سب لوگ بجنور گئے ہوئے تھے۔ چھوٹے بھائی اور داماد کے بہت اصرار کرنے پر اچانک نینی تال جانا ہوا۔ میری چھوٹی بہن، اس کے تین بچے، میری بیٹی داماد اور ان کی دو بچیاں، اور میرے شوہر اور چھوٹی بھابھی اور ان کے تین بچے ساتھ میں تھے۔ چونکہ ننی تال اچانک جانا ہوا تھا اس لئے جاتے ہی ہوٹل کی تلاش کرنی پڑی اور تلی تال جھیل کے سامنے مال روڈ پر ایک ہوٹل میں قیام ہوا جس کے ایک کمرے کا روزانہ کرایہ تین ہزار روپے تھا۔ ۹؍ ہزار روپے یومیہ پر تین کمرے لینے پڑے۔ نینی تال گھومتے وقت جب اوپر چڑھ رہے تھے تب میری بیٹی کی کار کا دروازہ ہلکا سا کھلا اور وہ فوراً سنبھل گئی اور فوراً دروازہ بند کر لیا۔ اگر دروازہ کھل جاتا تو بچی بہت گہری کھائی میں گر گئی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے حادثے سے بچایا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ ایک مقام پر جا کر میرا پیر مڑ گیا تو میں گر گئی۔ میرا گھٹنا چھل گیا اور ہلکی سی چوٹ لگی۔ وہ بھی سڑک کا کنارہ تھا۔ وہاں بھی خدا نے بچایا۔ نہیں تو میں بھی گہری کھائی میں گر گئی ہوتی۔ سب لوگ میری وجہ سے بہت پریشان ہوگئے۔ نینی تال سے میں اور میری بیٹی داماد علی گڑھ واپس آگئے۔ جو سوٹ میں نے نینی تال میں پہن رکھا تھا، علی گڑھ آنے کے بعد میرے گھر میں کوئی فنکشن تھا میں نے وہی سوٹ پہنا تو میری نواسی جو کہ ابھی تین سال کی تھی فوراً کہتی ہے، ’’نانی چلیں اب نینی تال۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’بیٹے اب نہیں جاتے۔‘‘ ’’تو آپ نے یہ سوٹ کیوں پہنا؟ اس سوٹ میں تو آپ گر گئی تھیں جب نینی تال گئی تھیں۔‘‘ اس کی بات مجھے بہت اچھی لگی اور آج تک یاد ہے کہ اتنی معصوم بچی کو چھ مہینے پہلے کی بات یاد تھی۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
کھیت کی سیر اور سب کے ساتھ مل بیٹھنا


الحمدللہ وطن عزیز کی کئی ریاستوں اور تفریحی مقامات پر جانا ہوا۔ وہاں وقت گزارا ہے اور ہر مقام سے کچھ خوبصورت یادیں بھی جڑی ہیں لیکن میرے لئے سب سے خوبصورت اور یادوں سے بھرا ہوا تفریحی مقام ہمارے کھیت ہیں۔ جو ہمارے گاؤں سے کچھ دوری پر ہیں۔ میرے بچپن میں ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا۔ ہم ایک ہی چھت کے نیچے ۲۸؍ افراد رہا کرتے تھے۔ سرما میں جب کھیتوں میں چنے اور بیر کی فصل آتی تب ہم سب مل کر کھیت کی سیر کو جایا کرتے۔ کھانا گھر ہی سے بناکر لے جاتے۔ سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ کھیت میں آگ جلاکر چائے بنائی جاتی۔ چنے بھونے جاتے۔ ڈھیروں باتیں اور ہنسی مذاق ہوتا۔ زندگی کی یہ پرلطف تفریح اب نہیں ہوپاتی ہے مگر یاد بہت آتی ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
میرا گاؤں: ایک بہترین تفریحی مقام
یوں تو مَیں آج تک کسی ٹور پر نہیں گئی لیکن میری خوبصورت یادیں اس گاؤں سے وابستہ ہیں جو میرے لئے ایک بہترین تفریحی مقام ہے۔جہاں جا کر ہم خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آج بھی اگر والدین گاؤں جانے کا ذکر چھیڑتے ہیں تو میرے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ گاؤں پہنچ کر مجھے ایک الگ ہی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ ایک پرسکون زندگی، نہ ٹریفک کی آواز، نہ شور و غل اور اگر سبزہ زار کی طرف نکل جاؤ تو دل و دماغ کو ناقابل بیان سکون میسر ہوتا ہے۔ گاؤں کے پھولوں کی خوشبو، لہلہاتے کھیت اور پُر کیف فضا ایک عجیب خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہی میری تفریحی مقام کی یادیں ہیں جو مجھے ہمیشہ لطف دیتی ہیں۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ، یوپی)
ندی کے کنارے، لکھنؤ کی سیر
یوں تو تفریح کے لئے ہم بہت ساری جگہوں پر گئے۔ اپنے شہر میں بھی اور شہر سے باہر بھی لیکن ان میں سب سے یادگار ہے ندی کی سیر۔ اس سیر کو تو کئی سال بیت چکے ہیں مگر اب بھی ذہن میں بالکل تازہ ہے۔ جب میں اور میرا چھوٹا بھائی، ابو کے ساتھ ندی کے کنارے جایا کرتے تھے۔ ابو اتوار کی شام کو اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں نہ کہیں جایا کرتے تھے اسی میں ہم لوگ بھی اکثر ان کے ساتھ ہو لیتے تھے۔ اور وہ زیادہ تر ہی ندی کے کنارے جایا کرتے تھے۔ وہاں وہ لوگ تو اپنی باتوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اور پھر ہم وہاں ندی کے کنارے کسی پتھر پر بیٹھ کر وہاں سے چھوٹے چھوٹے پتھر پانی میں پھینکتے بہت مزہ آتا تھا اور پھر وہاں سے چنے خرید کر پتھر پر بیٹھ کر کھانا یہ ایک بہت ہی یادگار تفریح ہوا کرتی تھی۔ اور ایک بار پوری فیملی کے ساتھ لکھنؤ کی تفریح کو گئے تھے۔ اور ضد کر کر کے اتنے سارے پارک میں گھومنے کے لئے گئے کہ ابو کو کہنا پڑا کہ لکھنؤ کا کوئی پارک ایسا نہیں ہوا ہوگا جو تم لوگوں سے باقی بچا ہوگا۔ اس کے بعد لکھنؤ تو کئی بار گئے لیکن وہ مزہ پھر کبھی نہیں آیا۔ ان تفریحات کو بیان کرتے ہوئے ذہن میں صرف یہی خیال آ رہا ہے کہ ہم کیوں اتنی جلدی بڑے ہوگئے۔
سارہ فیصل (مئو، یوپی)
اوٹی کا سفر اور چائے


اوٹی کا سفر میری زندگی کا سہانا سفر ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ گئی تھی۔ اونچائی پر ہمارا ہوٹل ہونے کی وجہ سے بادلوں کو چھونے کا احساس ملا، خوبصورت وادیوں میں سیر کرتے ہوئے وہاں کی چائے کا لطف اٹھایا کیونکہ ہم سبھی کو چائے پسند ہے۔ ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے لونگ ڈرائیو کے مزے لئے۔ وہاں کے آبشار اور رنگ برنگے پھولوں کے باغات کا کیا کہنا! اِن سارے لمحوں کو ہم نے اپنے کیمرے میں قید کر لیا اور ویڈیو بناکر رکھا ہے جب بھی دیکھتی ہوں خود کو اوٹی ہی میں محسوس کرتی ہوں۔ وہ سارے لمحات تازہ ہو جاتے ہیں جو میری یادوں میں رچ بس گئے ہیں۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)

اگلے ہفتے کا عنوان: بسیار گفتاری (زیادہ بولنا) کیوں نقصاندہ ہے؟ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK