• Tue, 02 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شادی کی تقریب کا تقدس پامال کرتی ہوئیں خرافات

Updated: December 02, 2025, 5:12 PM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

سنّت کی ادائیگی کا یہ بابرکت اجتماع اب کسی لائیو فیشن شو میں بدل چکا ہے۔ منگنی سے لے کر ولیمے تک خود ساختہ رسومات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو بینڈ باجے، بارات، آتش بازی، بے پردگی اور اس نوع کے متعدد غیر شرعی افعال سے بھرا ہے۔ اسراف اور نمائش کی خاطر کیا کچھ نہیں ہوتا.... اللہ کی پناہ!

A simple, inexpensive, and easy marriage is auspicious, so try to avoid frivolities. Picture: INN
سادہ کم خرچ و آسان نکاح برکت کی بشارتوں والا ہے، لہٰذا فضولیات سے بچنے کی کوشش کریں۔ تصویر:آئی این این
فیشن پرستی، مخلوط غیر اسلامی تہذیبوں اور معاشروں میں رہن سہن کے اثرات، انٹرنیٹ اور فلموں ڈراموں سے پھیلنے والی آزاد خیالی نے ہمارے اسلامی معاشرہ کو اغیار کے رنگوں میں رنگ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ حتیٰ کہ ہماری شناخت، رہن سہن، لباس، سوچ و فکر اور دلچسپیاں سب کچھ بدلتا جا رہا ہے۔ جدید طرز زندگی کے بدلتے منظر نامے میں اچھائیاں تو خال خال ہی ہیں مگر بُرائیوں اور خرافات کی بھرمار ہے۔ یہ مجموعی تغیر ہمارے تہواروں اور ہماری تقریبات پر زیادہ اثر انداز ہونے لگا ہے۔
اگر صرف شادی کی تقریبات کی بات کی جائے تو ہم دیکھیں گے کہ سنّت کی ادائیگی کا یہ بابرکت اجتماع اب کسی لائیو فیشن شو میں بدل چکا ہے۔ منگنی سے لیکر ولیمے تک خود ساختہ رسومات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو بینڈ باجے، بارات، آتش بازی، بے پردگی اور اس نوع کے متعدد غیر شرعی افعال سے بھرا ہے۔ اسراف اور نمائش کی خاطر کیا کچھ نہیں ہوتا! کتنی ہی لغویات و خرافات کو رسم و رواج اور روشن خیالی کا نام دیکر ہم نے مقبولیت دیدی ہے۔ اشکبار آنکھوں، افسردہ و غمزدہ چہروں، بوجھل دلوں کیساتھ، بابل کی دعاؤں کے سائے میں بیٹیوں کی رخصتی کے جذباتی با وقار مناظر تو خواب و خیال ہوگئے ہیں، اس کی جگہ اب واہیات فلمی گانوں اور پُرشور موسیقی کی دھنوں پر اپنے والدین، بھائی بہنوں اور دوستوں کے ساتھ جھوم کر تھرکتی رقص کرتی ہوئی دُلہنیں دکھائی دیتی ہیں۔ صد حیرت و افسوس کہ بظاہر خوشنما و دلفریب دکھائی دینے والی اس نئی بدعت کے دور رس نقصانات پر کسی کی نگاہ نہیں۔ نوعمر بچّوں کے ذہن ایسی چمک دمک اور موج مستی کے بہت جلد اسیر ہو جاتے ہیں۔ ان سب خرافات کو دیکھتی اور ان سے لطف اندوز ہوتی نئی نسل اس عمل کو اتنا پسند کرتی ہے کہ اُن کی ذہن سازی و منصوبہ بندی اسی نہج پر ہونے لگتی ہے کہ اپنی شادیوں میں، اپنے گھروں کے فنکشن میں اُنہوں نے رقص و موسیقی کی اس سے بھی بڑھ چڑھ کر پرفارمنس پیش کرنی ہے، گویا ایک ایسی محفل کئی دلوں اور ذہنوں میں خرابی کے بیج بوئے جانے کا سبب بن جاتی ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مذہبی اور سماجی طور پر خوشیوں کی تقریب میں گیت سنگیت وغیرہ کی بالکل گنجائش ہے اور حسب ِ استطاعت اپنی خوشی کے جشن منانے کی بھی کوئی ممانعت نہیں مگر یہ اجازت و گنجائش ادب و تمیز اور پردے کے اہتمام کے ساتھ مشروط ہے، گیت سنگیت کی ایسی تقریبات اگر خواتین پر مشتمل ہوں، ہماری نجی اور گھریلو محفلوں میں اسلامی اقدار کی پاسداری کے ساتھ محفوظ ماحول میں ہوں، ویڈیو اور ریلوں کی صورت میں برادری محلے کے نامحرم افراد اور سوشل میڈیا تک نہ پہنچے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری تقریبات میں ایسی کوئی احتیاط ملحوظ نہیں رکھی جاتی۔ شادی ہال میں جہاں کئی غیر متعلق اور نامحرم افراد موجود ہوتے اور ہر پل کی ریکارڈنگ نہ جانے کتنے موبائل کیمروں سے مسلسل ہوتی رہتی ہے اور پھر یہ ریکارڈنگ غیر متعلقہ لوگوں میں، ایک دوسرے کے احباب میں شیئر بھی ہوتی ہے اور اُس پر بےہودہ تبصرے ہوتے ہیں، فضول کمنٹس کئے جاتے ہیں۔ کیا ہم خواتین ہی کچھ پل ٹہر کر سوچنے کی زحمت گوارا کریں گی کہ ایسی حرکتیں ہمارے وقار کے کس قدر منافی و معیوب ہیں؟ یہ بے احتیاطی کس قدر خطرناک ہے؟ لہٰذا اپنے کنبے کو حفاظتی حصار میں رکھنا جس قدر گھر کے سربراہ کا فرض ہے اتنی ہی ذمہ داری خواتین کی بھی ہے کہ وہ غیر مہذب تبصروں کا موضوع بن جانے سے ہر ممکن احتیاط کریں۔
معاشرہ میں سرایت کر جانیوالی متعدد خرابیوں کا یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب لوگوں نے اصلاح کی کوشش اور نصیحت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سماج میں اس بُرائی کے پھیلنے اور مقبولیت پانے میں ہماری خاموشی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہماری کوتاہیاں ہی ہیں کہ ہم ایسی محفلوں میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ دوستی رشتہ داری کے لحاظ میں خرافات سے معمور ان امور میں پیش پیش بھی رہتے ہیں۔ اصلاحِ معاشرہ کے وسیع پروگرام کے تحت ضرورت ہے کہ تحریر و تقریر، وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ عملی طور پر شادی بیاہ کی ایسی تقریبات کا انعقاد عام کیا جائے جہاں رسومات کے نام پر غیر شرعی افعال نہ ہوں، غیر قوموں کی نقالی میں بد تہذیبی اور بیہودگی کے مناظر نہ ہوں۔ سادہ کم خرچ و آسان نکاح برکت کی بشارتوں والا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے گھروں سے اس اصلاحی تحریک کا آغاز کریں۔ ساری فضول اور بے فیض رسومات کو ترک کرکے اسلامی اور اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اپنی خوشیاں منائیں، بچوں کے ایسے نامناسب شوق اور ضد کو حکمت اور پیار سے دین، اخلاق و تہذیب کی راہ پر موڑنا تربیت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ ساتھ ساتھ خواتین کی ذہن سازی بھی ضروری ہے کیونکہ بسا اوقات ان ساری رسومات کی کرتا دھرتا گھر کی خواتین ہی ہوتی ہیں۔ اس بات کو ضرور یقینی بنائیں کہ ہماری بہنیں بیٹیاں ناچتے گاتے باراتیوں کے ہجوم میں نہیں بلکہ ایک باوقار، مقدّس اور مہذب محفل سے دعاؤں کے سائے میں رخصت ہوں۔ امید ہے اصلاح کی نیت سے لکھی گئی یہ تحریر معاشرے میں کسی مثبت سوچ و فکر اور تبدیلی میں مددگار ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK