موجودہ دور میں ماں باپ کو اولاد کہتی ہے کہ، ’’ہم بہت مصروف ہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا ماں باپ نے کبھی اپنی مصروفیات کو آڑے آنے دیا تھا؟ کیا انہوں نے کبھی اولاد کی تربیت، ہماری صحت، یا ہمارے مستقبل کو اپنی مصروفیت پر قربان کیا؟ نہیں۔ تو بھلا ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ سوال اپنے آپ سے پوچھئے!
اگر ہم اپنے بوڑھے والدین کی قدر کریں گے تو ہمارے بچے بھی اس عمل پر کاربند رہیں گے۔ تصویر: آئی این این
ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں انسان نے ترقی کی ہر حد پار کر لی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم، دولت، عہدہ اور شہرت، سب کچھ ہماری مٹھی میں ہے، مگر اگر کچھ نہیں رہا تو وہ دل، وہ احساس، وہ جذبہ جو کبھی ماں باپ کے قدموں میں جنت تلاش کرتا تھا۔ آج ہم جس کامیابی پر ناز کرتے ہیں، اس کے پیچھے ایک ماں کی نیند اور ایک باپ کی کمائی چھپی ہوئی ہے۔ وہ دن جو ماں نے ہمارے بخار پر جاگ کر گزارے، وہ راتیں جو باپ نے ہمارے بہتر کل کیلئے مشقت میں کھو دیں، وہ قربانیاں جنہیں نہ کبھی لکھا گیا، نہ سراہا گیا، یہ سب کچھ ہم بھلا چکے ہیں۔ والدین کا بڑھاپا، دراصل ان کی زندگی کا وہ نازک ترین دور ہوتا ہے جہاں انہیں سہارا چاہئے ہوتا ہے۔ وہ سہارے جو انہوں نے ہمیں بچپن میں دیئے تھے، وہ بازو جو انہوں نے ہمارے قدموں کے نیچے بچھا دیئے تھے، اب ان ہی بازوؤں کو کسی شانے کی تلاش ہوتی ہے۔ لیکن یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہم جو ان کی اپنی اولاد ہیں، سب سے زیادہ مصروف ہوچکے ہوتے ہیں۔ کریئر، سوسائٹی، ترقی، بیرونِ ملک سیٹلمنٹ، نت نئے مشغلے اور مصروفیات ہمیں اس قدر جکڑ لیتے ہیں کہ ماں کی صدا اور باپ کی خاموش نگاہیں ہمیں سنائی دینا بند ہو جاتی ہیں۔
ہمارے گھروں میں اب والدین ہوتے ہیں، مگر فقط جسمانی طور پر۔ ان کے جذبات، ان کی ضروریات، ان کی امیدیں، سب کسی گرد آلود کونے میں دفن ہوچکی ہوتی ہیں۔ ماں بات کرنے کو ترستی ہے، باپ صرف خاموش ہو کر سب کچھ سہتا ہے۔ دونوں کے چہروں پر وہ اجنبیت دکھائی دیتی ہے جو کسی لاوارث کی آنکھوں میں دکھتی ہے۔ اور ہم...؟ ہم صرف سالگرہ پر ایک پھول بھیج کر، یا سوشل میڈیا پر ایک تعریفی پوسٹ لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا!
اگر کوئی پوچھے کہ اس ستم کی وجہ کیا ہے، تو ہر اولاد کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے.... ’’ہم بہت مصروف ہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا ماں باپ نے کبھی ہماری مصروفیات کو آڑے آنے دیا تھا؟ کیا انہوں نے کبھی ہماری تربیت، ہماری صحت، یا ہمارے مستقبل کو اپنی مصروفیت پر قربان کیا؟ نہیں۔ لیکن آج ہم ان کے بڑھاپے کو، ان کی بیماری کو، ان کے جذبات کو اپنی روزمرہ کی فائلوں، میٹنگز، اور موبائل اسکرین کے پیچھے دفن کرچکے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم والدین کی خدمت کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ ہم نے یہ گمان پال لیا ہے کہ ماں باپ کی جسمانی کمزوری، ذہنی نرمی، یا ان کی بار بار کی باتیں سننے کے قابل نہیں رہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ ہر لفظ، ہر دعا، ہر بات میں ایک دنیا سمیٹے ہوتے ہیں۔ ان کی خاموشی چیخ ہوتی ہے، ان کی آنکھوں کی نمی پکار ہوتی ہے۔ مگر ہم، جنہیں وہ خدا کے بعد سب کچھ سمجھتے تھے، آج انہیں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں، بعض اوقات بڑھاپے کے گھر، یتیم خانوں یا اسپتال کے کسی گمنام بستر پر۔
ہم نے دنیا کی تعلیم تو دی، مگر اپنی نسل کو دین، اخلاق، اور رشتوں کی نزاکت سکھانے میں ناکام ہوگئے۔ ہم نے انہیں انگریزی سکھائی، مگر والدین کے آنسو پڑھنا نہیں سکھایا۔ ہم نے انہیں کمپیوٹر پر تیز رفتار بنایا، مگر ماں کی آہستہ رفتار کو برداشت کرنے کی تربیت نہ دی۔ اور نتیجہ؟ ہماری نسل آج سب کچھ رکھتی ہے، سوائے انسانیت کے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بوڑھے ماں باپ صرف ہماری ذمہ داری نہیں، بلکہ ہمارا امتحان ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارا رویہ ہی بتاتا ہے کہ ہم کتنے کامیاب انسان ہیں۔ اگر ہم اُن کے لئے وقت نہیں نکال سکتے، اگر ہم ان کی بیماری میں تیمارداری نہیں کرسکتے، اگر ہم ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں لاسکتے.... تو ہماری تعلیم، دولت، اور مقام سب فضول ہے۔
آج بھی وقت ہے۔ ہم چاہیں تو اس بے حسی کے دائرے سے نکل سکتے ہیں۔ ہم چاہیں تو ماں باپ کے بڑھاپے کو بوجھ نہیں بلکہ اپنی بخشش کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی اولاد کو صرف کامیاب نہیں بلکہ انسان بھی بنائیں۔ انہیں سکھائیں کہ ماں باپ کے پاؤں کی چاپ جنت کی راہ دکھاتی ہے، اور ان کا ہاتھ تھام لینا دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز ہے۔
یہ مضمون صرف ان کیلئے نہیں جن کے والدین بوڑھے ہوچکے ہیں بلکہ ان سب کیلئے ہے جنہوں نے والدین کا پیار پایا ہے۔ اگر وہ آج ہمارے درمیان ہیں تو ان کے قریب جائیں، ان سے بات کریں، ان کے ساتھ بیٹھیں۔ اور اگر وہ دنیا سے جا چکے ہیں، تو اپنے عمل سے ان کیلئے صدقۂ جاریہ بنیں۔ یاد رکھئے، جو ماں باپ کو تنہا چھوڑ دیتا ہے، وہ اصل میں خود کو تنہا کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت کبھی معاف نہیں کرتا، اور اولاد وہی سیکھتی ہے جو ہم کرتے ہیں، جو ہم دیتے ہیں۔
بوڑھے ماں باپ کا سایہ نعمت ہے، ان کا ساتھ رحمت۔ انہیں بوجھ نہ بننے دیں کیونکہ وہی بنیاد ہوتے ہیں جس پر ہماری تمام کامیابیاں کھڑی ہوتی ہیں۔