Inquilab Logo Happiest Places to Work

گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل اور حل

Updated: May 14, 2025, 12:50 PM IST | Dr. Asma Bint Rahmatullah | Mumbai

وقت کا تقاضا ہے کہ عورت کی خدمات کو تسلیم کیا جائے، چاہے وہ گھر میں ہو یا دفتر میں۔ اس کی جدوجہد کو سراہا جائے، اس کے مسائل کو سنجیدگی سے سنا جائے اور ان کا حل صرف مشوروں میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ڈھالا جائے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان یہ ہونی چاہئے کہ وہاں عورت نہ صرف محفوظ ہو بلکہ با اختیار بھی ہو۔

Women, whether working or domestic, both have their own important places and both issues deserve attention. Photo: INN
گھریلو یا ملازمت پیشہ خواتین، دونوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں اور دونوں کے مسائل بھی توجہ طلب ہیں۔ تصویر: آئی این این

ڈاکٹر اسما بنت رحمت اللہ
inquilab@mid-day.com
عورت، صدیوں سے قربانی، ایثار اور محبت کا استعارہ رہی ہے۔ چاہے وہ ماں کے روپ میں ہو، بیوی کی صورت میں یا بیٹی کی حیثیت سے، اس کی شخصیت میں ایک خاص طرح کی خاموشی اور وقار ہوتا ہے۔ لیکن آج کی عورت صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے تعلیم، معیشت، سیاست اور معاشرت کے میدانوں میں بھی اپنے وجود کا سکہ منوایا ہے۔ تاہم، اس ترقی کے سفر میں وہ کئی الجھنوں، تضادات اور دباؤ کا سامنا بھی کر رہی ہے، خاص طور پر جب وہ ایک ہی وقت میں گھر کی دیکھ بھال اور دفتر کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کرتی ہے۔
 گھریلو خواتین کی زندگی اگرچہ باہر کی دنیا سے نسبتاً پرسکون دکھائی دیتی ہے مگر اسکے اندرونی پہلو اکثر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔ ان خواتین کی خدمات کو عموماً معمولی یا بے قیمت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ گھر کے نظام کو چلانے والی بنیاد ہوتی ہیں۔ روزمرہ کے کام، بچوں کی تربیت، بزرگوں کی دیکھ بھال، مہمان نوازی اور گھر کے نظم و ضبط کی بحالی ان کے ذمے ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ اکثر ’کچھ نہ کرنے‘ کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں وہ اپنی شناخت کھو دیتی ہیں۔ ان کی خاموشی اور خود سپردگی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے اور یوں وہ ایک ذہنی اور جذباتی خلاء کا شکار ہو جاتی ہیں۔
 دوسری طرف، ورکنگ خواتین کا مسئلہ الگ نوعیت کا ہے۔ ان پر دگنا بوجھ ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ دفتر کی ذمہ داریوں کو نبھاتی ہیں، جہاں کارکردگی، وقت کی پابندی اور مسابقت کے تقاضے ان پر مستقل دباؤ رکھتے ہیں تو دوسری طرف گھر کی توقعات اور روایتی ذمہ داریاں ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ انہیں اکثر کام کی جگہ پر ہراسانی، تنخواہ میں عدم مساوات، ترقی میں رکاوٹ یا محض اس بنیاد پر کمزور سمجھا جاتا ہے کہ وہ عورت ہیں۔ معاشرے کی یہ منافقت ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے لیکن پھر بھی وہ حوصلے سے اپنا راستہ بناتی ہیں۔
 گھر اور دفتر کے درمیان جھولتی ہوئی عورت کا سب سے بڑا چیلنج وقت اور توانائی کا توازن ہے۔ دن بھر کی تھکن کے بعد جب وہ گھر پہنچتی ہے تو وہاں بھی آرام نہیں بلکہ مزید کام اس کا انتظار کرتا ہے۔ اگر شریک حیات اور خاندان کا تعاون میسر نہ ہو تو یہ بوجھ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس کے باوجود وہ مسکراتی ہے، سب کا خیال رکھتی ہے اور خود کو آخری درجے پر رکھتی ہے۔
 معاشی خود مختاری عورت کے لئے آزادی کا دروازہ کھولتی ہے لیکن کئی بار یہی خود مختاری اس پر نئے سوالات کھڑے کر دیتی ہے۔ اسے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی نیت پر شک کیا جاتا ہے اور اسے خاندان کے لئے ’خطرہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایک با اختیار عورت نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتی ہے بلکہ اپنے خاندان کو بھی معاشی تحفظ فراہم کرتی ہے ساتھ ہی معاشرے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
 بعض علاقوں میں مذہب اور ثقافت کے نام پر خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ حالانکہ اسلام نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے، کام کرنے اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت دی ہے۔ اصل ضرورت اس تعلیمات کو سمجھنے اور عام کرنے کی ہے، نہ کہ روایتی تنگ نظری کو مذہب کا نام دینے کی۔
 ان تمام مسائل کے حل کیلئے ایک اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے۔ عورت کے مسائل کو صرف عورت کا مسئلہ سمجھنا غلط ہے۔ یہ ایک پورے معاشرے کا مسئلہ ہے، کیونکہ ایک مضبوط عورت ہی ایک مضبوط خاندان اور ایک با وقار قوم کی بنیاد رکھتی ہے۔ تعلیم، قانون، میڈیا اور خاندانی تربیت کے ذریعے ایسے سماجی رویے پیدا کئے جا سکتے ہیں جو عورت کو اس کی اصل عزت، مقام اور سہولت فراہم کریں۔
 وقت کا تقاضا ہے کہ عورت کی خدمات کو تسلیم کیا جائے، چاہے وہ گھر میں ہو یا دفتر میں۔ اس کی جدوجہد کو سراہا جائے، اس کے مسائل کو سنجیدگی سے سنا جائے اور ان کا حل صرف مشوروں میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ڈھالا جائے۔ ایک مہذب، ترقی یافتہ اور مساوات پر مبنی معاشرے کی پہچان یہ ہونی چاہئے کہ وہاں عورت نہ صرف محفوظ ہو بلکہ با اختیار بھی ہو۔ خواتین کی قربانیوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ انہیں گھر اور دفتر میں تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہیں درپیش مسائل کے بارے بیداری لانے کی کوشش کی جائے۔ اکثر خواتین اپنی ذہنی صحت بالکل نظر انداز کردیتی ہیں۔ اس جانب توجہ دلانے کی اشد ضرورت ہے۔ ورک لائف بیلنس کی اہمیت کو سمجھنا اہم ہے۔ خواتین کی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت پر بھی گفتگو ہونی چاہئے۔ اگر گھر والے خواتین کی صحت کی جانب توجہ دیں گے تو یقیناً خواتین بھی اپنی اہمیت کو سمجھیں گی اور اپنا خیال رکھیں گی۔ چونکہ وہ گھر والوں کا خیال رکھنے میں خود کو بھول جاتی ہیں ایسے میں گھر والوں کو اُن کی صحت پر توجہ دینی چاہئے اور خواتین کو بھی اپنا خیال رکھنے کی تلقین کرنی چاہئے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK