ایک ریسرچ میں ۲۶۲۳؍ بچوں کے اوپر کام کیا گیا کہ اسکرین کے سامنے وقت گزارنے والے ایک سے ۳؍ سال کے بچوں میں ۷؍ سال کی عمر تک ’’توجہ مرکوز کرنے اور مرکوز رکھنے‘‘ کی کمی پائی گئی۔ اب ذرا سوچئے یہ بچے کیسے پروڈکٹیو اور کامیاب ہوں گے؟ دورِ حاضر کے اس مسئلے کے حل کیلئے ماؤں کا رول بہت اہم ہے۔
بچوں کو موبائل فون سے دور رکھنے کیلئے انہیں چھوٹی چھوٹی تصویر والی دیدہ زیب کتابیں پڑھنے دیں۔ تصویر : آئی این این
آج کی نوجوان نسل کا المیہ ہے کہ وہ ڈجیٹل دور کی پیداوار ہے۔ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ایج میں پلی بڑھی یہ نسل جس کے دسترس میں انٹرنیٹ، موبائل، ٹیبلٹ اور سوشل میڈیا سب ہے لیکن جسمانی طور پر سب سے کمزور، لاغر اور ذہنی طور پر نفسیاتی مریض ہے۔ ان کی تربیت بزرگوں نے نہیں سوشل میڈیا نے کی ہے۔
نوجوان نسل کی خبریں پڑھو تو سَر چکرا جاتا ہے۔ ویڈیو گیم کھیلتے کسی بچے سے موبائل لے لیں پھر دیکھیں وہ کیسے ہتھے سے اکھڑتا ہے اور اس میں کس طرح جن گھستا ہے۔ پوری دنیا میں اس نسل کا ایک ہی مسئلہ ہے ان میں صبر کم غصہ زیادہ ہے۔ موبائل فون کے مسلسل استعمال سے ان کی کمر میں خم اور آنکھیں، جوڑ کمزور ہوگئے ہیں۔ ان کی جسمانی صحت انتہائی نحیف اور ناتواں ہے۔ یہ دھوپ میں آدھا گھنٹہ نہیں کھڑے رہ سکتے نہ کچھ کلو میٹر پیدل چل سکتے ہیں۔ چھوٹے بڑوں سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ معاملات کوسلجھانے کا حوصلہ نہیں ہے۔ جوش امنگ ترنگ نہیں ہے۔ اخلاق و کردار سے عاری عیش و آرام کی دلدادہ اس نسل نے معاشرہ کو کھوکھلا اور دیمک زدہ کر دیا ہے جن کیلئے کہا جاسکتا ہے: ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی/ لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی!
وہ قوم جس نے لوگوں کو علم و آگہی دی، سائنس کے راز کھولے اور فلسفہ حیات دیا آج ایک ہزار سال پیچھے ہوگئی ہے اور آج ہم اس حیرانگی کا شکار ہیں کہ تبدیلی کیوں نہیں آرہی! کوئی ابن سینا، جابر بن حیان، افلاطون، ارسطو، رازی کیوں نہیں پیدا ہورہا! یہ اچھی طرح سے جان لیں کہ ذہنی، جذباتی، سماجی اور نفسیاتی ارتقا کے لئے ان مشینوں کا استعمال حد درجہ خطرناک ہے۔
ایک ریسرچ میں ۲۶۲۳؍ بچوں کے اوپر کام کیا گیا کہ اسکرین کے سامنے وقت گزارنے والے ایک سے ۳؍ سال کے بچوں میں ۷؍ سال کی عمر تک ’’توجہ مرکوز کرنے اور مرکوز رکھنے‘‘ کی کمی پائی گئی۔ اسکرین ٹائم بچوں کو اٹینشن ڈیفیسیٹ ہائپر ایکٹیو (اے ڈی ایچ ڈی) کا شکار بناتا ہے۔ تو پھر یہ بچے کیسے پروڈکٹیو اور کامیاب ہوں گے۔
دورِ حاضر کے اس مسئلے کے حل کے لئے ماؤں کا رول بہت اہم ہے۔ کیسے وہ بچوں کا اسکرین ٹائم کم کریں اور ان کو ان کا پسندیدہ متبادل فراہم کریں تاکہ وہ بنیادی اقدار اور اخلاقیات سے متصف ہوں۔ اسکرین ٹائم کی بیماری کم کرنے کیلئے خواتین مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کرسکتی ہیں:
آپ خود موبائل کا استعمال کم کریں: سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ بچہ کے سامنے ہر وقت موبائل استعمال کریں تو بچہ بھی اس کی مانگ کرے گا۔ وہ اسے اہم ضرورت سمجھے گا۔ یاد رکھیں بچہ سنتا کم ہے دیکھتا زیادہ ہے۔
بچوں کو وقت دیں: بچے کو تنہا نہ چھوڑیں ان کے ساتھ کھیلیں، کہانیاں سنائیں۔ اخلاقی اقدار سکھائیں۔ اچھے برے کی تمیز سکھائیں۔ کسی بھی بچے کی زبان سازی، خیال سازی اور شخصیت کو بنانے کے لئے ہیومن ٹچ بہت ضروری ہے۔
کارٹون موبائل پر نہ دکھائیں: کارٹون، گیمز اور ویڈیوز بچہ کو موبائل پر دکھانے کی عادت نہ ڈالیں۔ اگر آپ کو اپنا بچہ اور اس کی صحت عزیز ہے تو بچہ کو ضد کرنے، رونے، کھانا نہ کھانے پر موبائل ہرگز نہ دیں۔ یاد رکھیں موبائل کی بے جا عادت اب نشہ شمار ہوتی ہے۔ بچوں کو میدانی کھیل کیلئے ضرور بھیجیں اس سے صحت بنتی ہے جسمانی اور دماغی، دونوں۔
موبائل ضرورت کی چیز ہے: بچہ کو احساس دلائیں کہ آپ موبائل کے غلام نہیں ہیں۔ اسے ضرورت کے وقت ہی استعمال کریں۔ ساتھ ساتھ موبائل کے اضافی استعمال سے ہونے والے نقصان سے بچہ کو آگاہ کریں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ بچہ کس طرح کا مواد دیکھ رہا ہے۔ بچہ جو دیکھتا ہے اس سے اس کی ذہن سازی اور کردار سازی ہوتی ہے۔ اب فیصلہ آپ کریں کہ آپ کا بچہ کس کردار کا حامل ہو۔
کتب خانہ یا کتابیں مہیا کرائیں: بچوں کے روم سے الیکٹرانک آلات، موبائل، کمپیوٹر کو دور رکھیں۔ انہیں چھوٹی چھوٹی تصویر والی دیدہ زیب کتابیں پڑھنے دیں۔ انہیں کہانیاں پڑھ کر سنائیں۔ کچھ مقررہ وقت کیلئے سگنل آف کر دیں۔ آلات بند کر دیں جیسے رات میں کھلونے، گیمز لا کر دیں۔
تربیت پر توجہ دیں: اکثر ماؤں نے اپنی تربیت کی ذمہ داری سے جان چھڑا لی ہے جو ایک بڑا مشکل کام ہے اس کیلئے صبر و برداشت چاہئے۔ ایک بچہ سوالات پوچھتا ہے، وقت مانگتا ہے اور سیکھتا ہے۔ ان کی دماغی اور جذباتی ذہانت کی نشوونما ہوتی ہے اور یہی بچے زندگی میں ہر لحاظ سے کامیاب ترین بنتے ہیں۔
یاد رکھیں اللہ بلاوجہ کسی قوم کو تبدیل کرکے اس کی جگہ دوسری قومیں نہیں لاتا۔ قوموں کے عروج و زوال میں تہذیبوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اب سے بیدار ہوں۔ مائیں اپنے فرائض منصبی کو پہچانیں۔