Inquilab Logo

ظاہری نمودو نمائش اور آسائش کے حصول میں سبقت لےجانے کی کوشش نے ہمارا ذہنی سکون چھین لیا ہے

Updated: February 28, 2024, 1:30 PM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

بہت کچھ میسّرہونے کے باوجود کسی نہ کسی کمی اور محرومی کے شدید احساس نے آج کے مادہ پرست انسانوں کو ڈپریشن نام کے ایک نئے مرض کا تحفہ دے دیا ہے،اپنی محرومیوں کے احساس نے ہمیں تلخ اور ترش مزاج بھی بنا دیا ہے۔

Our personality shines with satisfaction and happiness on small blessings, we get courage to live. Photo: INN
چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر اطمینان اور خوشی سے ہماری شخصیت سنور تی ہے، جینےکا حوصلہ ملتا ہے۔ تصویر : آئی این این

 اس دنیا میں زندگی گُزارنے کے لئے جس طرح روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات کا حاصل ہونا ضروری ہے، اسی طرح خوشی، سکون اور آرام لازمی ہے اور انسان کی ساری جدوجہد کا مرکز و منبع بھی ان ہی کا حصول ہے۔ آج کےترقی یافتہ دور میں آرام دہ زندگی بسر کرنے کی سہولتیں کم و بیش سبھی کو حاصل ہیں۔ پچھلے دور کی بہ نسبت ہماری زندگیاں حد درجہ آسان اور سہل ہیں۔ سازوسامان کی فراوانی ہر جگہ ہے مگر اس عیش طلبی کا ایک نقصان یہ ضرور ہوگیاہے کہ ضروریات کی تکمیل سے زیادہ اب آسائش کا حصول اور اسٹیٹس کی برتری ہی مقصدحیات بنتا جا رہا ہے۔ امارت، ظاہری نمودو نمائش اور دوسروں سے بر تر ہونے کی خواہش اور تگ ودونےہمارا ذہنی سُکون چھین لیا ہےاور اس اندھی ریس میں شامل ہوکرہم نے قناعت اور اطمینان کی دولت کھو دی ہے۔ بہت کچھ میسّرہونے کے باوجود کسی نہ کسی کمی اور محرومی کے شدید احساس نے آج کے مادہ پرست انسانوں کو ڈپریشن نام کے ایک نئے مرض کا تحفہ دے دیا ہے، ہم اپنے آس پاس ہی دیکھ لیں تو کئی ایسے افراد نظر آئیں گے جو بہت بہتر حال میں ہونے کے باوجود اپنی زندگی اور معاملات سےمطمئن نہیں ہیں، ہر دم کسی نہ کسی کمی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کے بلند معیار زندگی اور اُن کےپاس عیش و عشرت کے سازو سامان کی فراوانی کے مقابلے میں اپنی محرومیوں کے احساس نے ہمیں تلخ اور تُرش مزاج بنا دیا ہے ۔ اس نفسیاتی تبدیلی کی زد میں آکرکئی اخلاقی اور انسانی رشتے کمزور ہو رہے ہیں۔ 
معاشرے اور ہمارے مزاج میں جو کڑواپن اور بے صبری راہ پا گئی ہے۔ اُس کی اوّل وجہ اپنے معیارسے برتر افراد سے موازنہ اور مقابلہ ہے، ہمیں ہر وہ شے قیمتی اور بہترین لگتی ہے جو کسی اورکے پاس ہو، نتیجتاًاپنے پاس موجود ہر چیز ہر نعمت حقیر محسوس ہونے لگتی ہے، خود ترسی اور کم مائیگی کااحساس ہم پر اسقدر حاوی ہوگیا ہے کہ ہم خوش ہونا اور اللہ کی عطاکردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا بھول چکے ہیں، آپسی تعلقات میں سرد مہری اور بے گانگی کے جذبات اتنے عام ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمارے اطراف اور ہمارے گھروں میں بھی اکثرچہروں پر بےزاری کی انگنت لکیریں اور رشتوں میں بے تعلقی کے رنگ واضح دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعی طور پرہم سب گہری مایوسی اور ڈپریشن کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ اپنے حال پر قناعت اور جو کچھ میسّر ہے، اسی سے زندگی کو آسان اورخوبصورت بنانے کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ 
یہ مایوسی اور ڈپریشن کیا ہے اور کیوں ہے؟یہ دراصل معیار زندگی اور اسٹیٹس بلند کرنے کی ان تھک دوڑ، نہ ختم ہونے والے لالچ، حرص اور’ہل من مزید؟‘‘ والے رویے ہیں جس کے زیر اثر ہم ساری زندگی اپنے اطراف لالچ اور طمع کی دیواریں کھڑی کرتے ہیں، جلد از جلد امیر ہونے کی دھن میں انصاف اور حق کو طاق پر رکھ کر جائز اور ناجائز ہر طور سے مال جمع کرتے ہیں۔ کبھی حسد، بغض اور انتقامی جذبے میں مبتلا ہو کر خیر سے محرومی مول لے لیتے ہیں، دوسروں کی آسائش، دولت اور نعمت سے موازنہ اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا حسدرشتوں میں خلیج پید اکر دیتا ہے۔ ہم چاہنے لگے ہیں کہ کسی درجےمیں کوئی ہماری برابری نہ کر سکے، کسی کا اچھّا مکان دیکھ کر ہمیں اپنا گھر جھوپری لگنے لگتا ہے تو کسی کی گاڑی، لباس اور زیور ہمیں شدیداحساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اپنی ان خود ساختہ اور غیر ضروری خواہشات کی تکمیل کرنے کی خاطر ہم بسااوقات غلط اورمشکل راہوں پر قدم رکھ دیتے ہیں، ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ بے اطمینانی اور پھوٹی قسمت کے شکوےکر کے ہم درپردہ نہ صرف اللہ تعالی کی تقسیم پر سوال اُٹھاتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کی ناشُکری اورنا قدری کے مجرم بن جاتےہیں، یہ حقیقت ہے کہ جو بندہ اللہ کی عطا سے مطمئن نہیں، جس کو ناشُکری کا روگ لگ جائے وہ زندگی میں کسی نعمت سے خوشی اور آسودگی محسوس نہیں کرسکتا۔ 
 ایک ادیب کی خوبصورت تحریر میں بڑی اچھی تمثیل پڑھی ہے کہ ہماری مثال لالچ میں مبتلا اُن چیونٹیوں سی ہے جو ساری عمراپنی جسامت سے بڑے دانے کھینچتی رہتی ہیں، انہیں کھینچ دھکیل کر بلوں تک لاتی ہیں اور جب دانوں کا انبار لگ جاتا ہے تو ان ہی میں دب کر مر جاتی ہیں، ان کی عمر بھر کی کمائی دوسرے کیڑے مکوڑوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ شاید ہم سب بھی ایسی ہی چیونٹیاں ہیں، ناعاقبت اندیش، نا شُکرے اور خسارے کا سودا کرنے والے۔ جمع ضرب کی اس کشمکش میں ہم زندگی کو جیتے نہیں، بس گزار دیتے ہیں، ناشکری اور طمع میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ نعمتوں اور آسائشوں پر ہماراحق بس اُتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالی نے ہمارے لئے مقدر کر دیا ہےکہ دینے والا وہی رب ہےاور بندوں اور مخلوق کیلئے کُشادگی اور تنگی میں بھی اس کی ہزار مصلحتیں ہیں۔ ایک حسب حال شعر ہے ؎
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزہ دیکھ
دُنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنت کی فضا دیکھ
زندگی میں جنت سی پُرسکون فضا اور اطمینان پانے کے لئےاس عدم تحفظ کے احساس اور مایوسی کے شکنجے سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے، چند آسان سی تدابیر اور رویوں میں مثبت تبدیلی کے ذریعے ہم اپنی زندگی آسان کر سکتے ہیں۔ آسمان چھوتی ہوئی توقعات اور ترجیحات کو اپنی اہلیت، وسائل اور استطاعت کے دائرے میں رہ کر پورا کرنے کی مخلص کوشش ہمیں مایوسی اور ڈپریشن کے گرداب سے بخوبی نکال سکتی ہے۔ ایک تیر بہدف نسخہ تو یہی ہےکہ ہم اللہ تعالی کی عطا کردہ اُن نعمتوں کا شُمار اور شُکر ادا کرنا شروع کر دیں جوایمان، زندگی، صحت تندرستی، اولاد، رزق، عافیت اورعزت کی صورت ہمیں ہر دم میسّر ہیں۔ صبح سے رات تک یہ ساری عنایات بارش کی طرح برستی ہیں۔ شُکر گُزاری میں مشغول ہو کریقیناًہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچے گا کہ ہم کسی محرومی کی گنتی یا افسوس کر سکیں ؟ ہر وقت دوسروں کی نعمتیں شُمار کرنے سے بہتر ہے کہ ہماری نگاہ شُکر اور قناعت کے ساتھ اپنے حال پر رہے۔ دوسروں کی کامیابیوں اور ترقی کو کُھلے دل سےقبول کریں۔ 
 اپنے دل و دماغ کے تزکیہ کے ساتھ ساتھ ہم بچوں کی تربیت میں بھی اس امر کا خاص خیال رکھیں کہ ہر امتحان اور آزمائش کا مقابلہ وہ صحیح جذبے اور ذہنی و قلبی وسعت کے ساتھ کریں، دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ غیر صحت مندانہ موازنےاور مُقابلے سے خود بھی پرہیز کریں اور اُنہیں بتائیں کہ یہ عادت انہیں تنگ دل اور حاسد بنا سکتی ہے۔ اپنے بچّوں کو دوستوں اور عزیزوں کا رقیب نہ بننے دیں کیونکہ حسد اور رقابت سے انسانی خوبیوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔ یہ بات بچّوں اور اپنے اہل و اقارب کو ذہن نشین کراتے رہیں کہ رزق کی طرح وسائل اور مواقع کی تقسیم بھی اللہ تعالی کی جانب سے ہر کسی کیلئے مختلف صُورتوں اور پیمانوں میں ہوتی ہے۔ ہم کسی سے کچھ چھین نہیں سکتے مگر اپنی محنت اور لگن سے ترقّی اورعروج کی وہ تمام منزلیں پا سکتے ہیں جو ہمارا خواب ہیں ۔ اپنے حصّے کے رزق اور وسائل پر اطمینان اور اُس کے بہتر استعمال کا ہنر ہو تو چھوٹی چھوٹی نعمتیں اور خوشیاں بھی ان شاءاللہ برکت کا سبب ہوں گی۔ اگر ہم بندے تھوڑی نعمتوں پر اللہ سے راضی رہیں تو اللہ تعالی بھی ہمارے تھوڑے اعمال سے راضی ہوں گے اورجب امیر و کبیر بندے روز آخرت حساب کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے، تب غرباء اور مساکین اس کڑے دن کی آزمائش سے نہ صرف آزاد اور مطمئن ہوں گے بلکہ امیروں سے کئی برس پہلے اپنی جنتوں میں پہنچ چکے ہوں گے۔ بلاشُبہ آخرت کی یہ آسانی دنیا کی ساری نعمتوں سے بالاتر اور رب کریم کی جانب سے یہ بشارت مطمئن زندگی بسر کرنے کے لئے کافی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK