اس سلسلے میں خواتین کے خود امدادی گروپ اور باہمی گفت و شنید کرنے والے سوشل پلیٹ فارم تشکیل دیئے جانے چاہئیں جو انہیں درپیش معاملات و مشکلات سے آگاہ کر سکیں اور ہر قسم کی رہنمائی بشمول قانونی مدد کرسکیں۔ اس ضمن میں باہمی صلاح و مشورہ اور تجربہ کار، دانشور افراد معاون ہو سکتے ہیں۔
تعلیم یافتہ خواتین متوسط طبقے کی خواتین کے ہنر کا استعمال کرتے ہوئے انہیں بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ تصویر : آئی این این
دورِ حاضر میں خواتین کے سامنے عدم تحفظ، اقتصادی اور معاشی مشکلات، قانونی الجھنیں اور خود کی منفرد شناخت کو قائم رکھنے کے تعلق سے پیچیدہ مسائل درپیش ہیں۔ یہ مسائل مزید مشکل صورت حال اختیار کر لیتے ہیں جب حکمران اور انتظامیہ کی جانب سے ان مسائل کے حل کی بابت عدم دلچسپی، بے رخی اور متعصبانہ جانبداری کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ صنف امتیاز کی بنیاد پر بھی خواتین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں بار بار امتحان دینا پڑتا ہے کہ وہ بھی مہارت رکھتی ہیں۔
متوسط طبقے کی خواتین کو بااختیار کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین زیادہ بہتر انداز میں اشتراکیت پر مبنی ایک لائحہ عمل تیار کرسکتی ہیں۔ جہاں ایک طرف خواتین کو اپنی دینی، ثقافتی اور سماجی شناخت کو برقرار رکھنا ضروری ہے تو دوسری جانب اُن کو جدید تعلیم بشمول سائنس و ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ہم وطن دیگر خواتین کے شانہ بشانہ تعلیمی، اقتصادی، اور جدید ترقی کے نشانے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
اس سلسلے میں خواتین کے خود امدادی گروپ اور باہمی گفت و شنید کرنے والے سوشل پلیٹ فارم تشکیل دیئے جانے چاہئیں جو انہیں درپیش معاملات و مشکلات سے آگاہ کر سکیں اور ہر قسم کی رہنمائی بشمول قانونی مدد کرسکیں۔ یہ طریقۂ کار ملک میں سماج اور امن مخالف، شر انگیز عناصر کی سازشوں کو ناکام کرنے اور ضروری احتیاط برتنے میں بھی کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ ملک کے آئین و قوانین کے دائرے میں رہ کر ہم ایسا سماجی نیٹ ورک تشکیل کرسکتے ہیں جو محلہ، گاؤں، تعلقہ، تحصیل، ضلع اور زیادہ وسیع پیمانے پر خاکہ تیار کرکے کام کرسکے۔ اس ضمن میں باہمی صلاح و مشورہ اور تجربہ کار، دانشور افراد معاون ہو سکتے ہیں۔
اس قسم کی کاوش ہماری خواتین کو بااختیار بنانے کی جانب اہم پیش قدمی ہوگی اور یہ ہماری معدوم ہو چکی سیاسی اہمیت کو بھی نئی جلا بخش سکتی ہے۔ یہ سب گروپ مختلف شعبوں جیسے تعلیم نسواں، دینی بیداری، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اقتصادیات، طبی امداد اور تحفظ سے متعلق اقدامات، بچوں کی نشوونما، رہنمائی پرورش، تربیت، کاروباری صلاح اور مدد، اور دیگر تمام موضوعات پر کام کرسکتے ہیں۔ خواتین کے خود امدادی گروپ مالی تعاون اور اشتراکیت کے ذریعے بہت سے فلاحی کاموں کو اپنی رہائشی بستیوں میں انجام دے سکتی ہیں۔ ایسے بہت سے چھوٹے پیمانے کے کام جو بر سر اقتدار افراد کی سرد مہری کی وجہ سے ان کی عنایت کے منتظر رہتے ہیں اُن کاموں کو خود امدادی گروپ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ ان گروپس میں تعلیم یافتہ خواتین کو اضافی ذمہ داری لینی چاہئے۔ ہر عمر کی خواتین کے تعلیمی، تکنیکی اور دستکاری اور دیگر مہارت و صلاحیت کاجائزہ لے کر روزگار اور ضرورتمند خواتین کے لئے اچھے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔
سیلف ہیلپ گروپس اُن گھریلو صنعتوں اور کاروبار کو پھر سے جلا بخش سکتے ہیں جو آج کے کثیر ملکی بازاری نظام نے تقریباً اُجاڑ دیئے ہیں۔ اُن اشیاء کے استعمال کو فروغ دینا اور ایسے سامان کی پیداوار کو معاشی نقطہ نظر سے منافع بخش بنانے کے لئے ان کی خرید و فروخت کو بڑھاوا دیا جاسکتا ہے۔ اس حکمت عملی سے وہ چھوٹی صنعتیں دستکاریاں اور کاروبار فروغ حاصل کر سکیں گے جن کے برباد ہو جانے سے ہماری غریب اور متوسط طبقے کی خواتین پر اضافی بوجھ آگیا ہے۔ اور ان کے کنبے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی قاصر ہیں۔ اشتراکیت اور چھوٹی فنانسنگ کے طریقۂ کار سے مختلف اشیاء بنانے اور ان کی تجارت کو فروغ دینے سے معاشی تبدیلی کی شروعات ہوسکتی ہے۔ اسی طرح تعلیمی شعبے میں بھی تعلیم یافتہ خواتین ہر عمر کے افراد کی خواندگی بڑھانے، ڈراپ آؤٹ طلبہ کی تعلیم کو پھر سے شروع کرنے اور نئی نسل کو آج کے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لائق بنانے میں، اور روزگار سے لنک ہوئی جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے راستے ہموار ہوسکتے ہیں۔ اچھے وکلاء کی ایک ٹیم بنا کر تیار رکھنے کی ضرورت ہے جو وقت ضرورت خواتین اور ان کے کنبے کو فوری طور پر قانونی امداد فراہم کرسکے۔
تعلیم یافتہ خواتین متوسط طبقے کی خواتین کے ہنر کا استعمال کرتے ہوئے انہیں بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ آج کل کلاؤڈ کچن کا رجحان ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین کے تعاون سے متوسط طبقے کی خواتین کو روزگار مل سکتا ہے۔ ابتدا میں مالی تعاون بھی کیاجاسکتا ہے۔ حکومت کی اسکیم کی مدد سے بھی خواتین مالی تعاون حاصل کرسکتی ہیں۔ اس دوران اپنے تحفظ کو بھی اہمیت دیں۔ اس کے علاوہ خواتین کو نئے نئے ہنر سکھانے کیلئے بھی ایک گروپ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مستقبل میں یہی ہنر انہیں بااختیار بنانے میں مدد دے گا۔ اس طرح وہ موجودہ حالات کا سامنا کرنے کے قابل ہوسکتی ہیں۔