• Tue, 16 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

زیادہ تر بچوں کی پیدائش آپریشن ہی سے کیوں؟

Updated: December 16, 2025, 1:58 PM IST | Dr. Qamar Sarwar | Mumbai

زچگی عورت کی زندگی کا سب سے نازک، مقدس اور فطری مرحلہ ہے مگر افسوس کہ ہمارے معاشرہ میں اسے آہستہ آہستہ خوف، مجبوری اور منافع کے شکنجے میں کس دیا گیا ہے۔ آج بچے کی پیدائش جیسا فطری عمل بڑی تعداد میں آپریشن میں کیوں بدل رہا ہے؟ کیا یہ سب واقعی طبی ضرورت ہے یا اسکے پیچھے نظام کی کوئی خاموش خرابی کارفرما ہے؟

Motherhood is a complex process, during which the mother should be provided with a rich and supportive environment that is natural. Picture: INN
زچگی ایک پیچیدہ عمل ہے، اس دوران ماں کو بھرپور موافق ماحول ملنا چاہئے جو فطری ہو۔ تصویر: آئی این این
انسانی زندگی کے سب سے حسین اور مقدس لمحوں میں سے ایک لمحہ وہ ہے جب ایک ماں اپنے بطن سے نئی زندگی کو جنم دیتی ہے۔ زچگی کا یہ مرحلہ کائنات کے سب سے عظیم معجزوں میں سے ہے، جس میں عورت کی قربانی، صبر اور محبت کا عکس جھلکتا ہے۔ فطرت نے عورت کے جسم کو اس عظیم عمل کیلئے بنایا ہے اور صدیوں سے انسان نسل در نسل اسی قدرتی طریقے سے دنیا میں آتا رہا ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے دور میں، جب ہم ترقی اور مہذب دنیا کے دعوے کرتے ہیں، زچگی کے فطری عمل کو خوف، کاروبار اور پیسے کی ہوس میں بدل دیا گیا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر کیوں آج زیادہ تر بچوں کی پیدائش آپریشن کے ذریعے کی جا رہی ہے، کیا واقعی یہ سب طبی ضرورت ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور تلخ حقیقت پوشیدہ ہے؟
اگر ہم مغرب اور یورپ کی مثال دیکھیں تو ہمیں ایک بالکل مختلف تصویر ملتی ہے۔ وہاں عورت کو زچگی کے وقت بیمار نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس فطری عمل کو فطری ہی سمجھا جاتا ہے۔ حمل کے دوران ابتدائی چند معائنے کئے جاتے ہیں تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ ماں اور بچہ دونوں صحتمند ہیں۔ وہاں الٹرا ساؤنڈ چار مہینے بعد کیا جاتا ہے اور اگر والدین چاہیں تو بچے کی جنس بتا دی جاتی ہے۔ ڈیلیوری کے وقت خاوند بیوی کے ساتھ کمرے میں موجود ہوتا ہے، اس کا ہاتھ تھامے ہمت اور حوصلہ دیتا ہے، نرسیں صبر اور تسلی سے ماں کو اس مرحلے سے گزارتی ہیں۔ نہ بے جا انجکشن، نہ آپریشن کی دھمکی، نہ دواؤں کا ڈھیر۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہاں ۹۰؍ فیصد سے زیادہ بچے نارمل طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور ماں اور بچہ دونوں صحتمند رہتے ہیں۔ پیدائش کے فوراً بعد بچے کو ماں کی آغوش میں دیدیا جاتا ہے تاکہ بچہ ماں کی حرارت سے اپنا درجہ حرارت قائم رکھے اور زندگی کی پہلی سانس محبت کے حصار میں لے۔ دودھ صرف ماں کا پلایا جاتا ہے، دوا صرف ضرورت کے وقت دی جاتی ہے، اور یہ سب کچھ مکمل طور پر مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد حکومت والدین کو مالی مدد فراہم کرتی ہے تاکہ بچے کی پرورش اچھے طریقے سے ہو۔ یہ ہے وہ نظام جہاں انسانیت کو پیسے پر فوقیت دی جاتی ہے، جہاں ماں کو عزت اور سکون فراہم کیا جاتا ہے۔
اب ذرا اپنی زمین پر نظر ڈالیں۔ یہاں عورت کو زچگی کے وقت سب سے پہلے خوف سے دوچار کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آتے ہی اعلان کرتی ہیں کہ ’’کیس خراب لگ رہا ہے، آپریشن کے بغیر جان کا خطرہ ہے‘‘، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ۹۰؍ فیصد کیس نارمل طریقے سے حل ہوسکتے ہیں۔ مگر چونکہ نارمل ڈیلیوری سے بیس تیس ہزار ملتے ہیں اور آپریشن سے اسی ۹۰؍ ہزار بلکہ کہیں ایک لاکھ سے بھی زیادہ، اس لئے ڈاکٹر اور اسپتال کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کیس کو پیچیدہ ظاہر کیا جائے۔ یہ وہ کھیل ہے جسے عام لوگ نہیں سمجھتے۔ یہاں تک کہ زچگی کے دوران خاوند کو بھی کمرے میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عورت تنہا، خوفزدہ، ناتواں اور بے بس، چار دیواری میں درد کی شدت سے چیخ رہی ہوتی ہے، اور باہر اسکے گھر والے دروازے کے پاس دعاؤں میں مصروف، مگر بے بس۔ کوئی نہیں جانتا اندر کیا ہو رہا ہے۔ کس دوا کا استعمال ہو رہا ہے، کون سا انجکشن لگایا جا رہا ہے، اور کس مقصد کیلئے آپریشن کیا جا رہا ہے۔ عورت کا جسم اور اس کی جان گویا ایک تجارتی سامان ہے جس پر ڈاکٹر اور اسپتال اپنی آمدنی کا حساب بنا رہے ہیں۔
اسلام نے ماں کی عظمت کو آسمانوں تک بلند کیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے، ماں کی دعا کو مقبول کہا گیا ہے، اور ماں کی خدمت کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔ مگر ہماری معاشرت میں ماں کی عظمت کو تجارتی بلوں کے نیچے کچل دیا گیا ہے۔ ماں کو زچگی کے وقت عزت اور سکون دینے کے بجائے خوف اور دھوکے میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک طبی مسئلہ ہے بلکہ ایک اخلاقی اور سماجی المیہ بھی ہے۔
یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہئے کہ بعض کیس واقعی پیچیدہ ہوتے ہیں جہاں آپریشن جان بچانے کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر آپریشن ایک نعمت ہے مگر جب ہر دوسرا کیس اسی انجام تک پہنچے تو یہ نظام کی خرابی کی علامت بن جاتا ہے۔ ایک آپریشن کے بعد عورت کو آئندہ بھی اسی راستے پر ڈالا جاتا ہے جس سے اسکی صحت مسلسل متاثر ہوتی ہے۔
اس معاملے پر جب کچھ ذمہ دار اور دیانتدار ڈاکٹروں سے بات کی گئی تو انہوں نے وضاحت کی کہ سبھی ڈاکٹر بلا ضرورت آپریشن نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں دیر سے شادی، بڑھتی عمر میں حمل، شوگر، بلڈ پریشر، موٹاپا اور ذہنی دباؤ جیسے عوامل واقعی بعض اوقات آپریشن کو ضروری بنا دیتے ہیں۔ کئی مریضہ خود بھی درد کے خوف سے آپریشن کو ترجیح دیتی ہیں۔ تاہم، وہ اس بات سے بھی متفق ہیں کہ چند نجی اداروں اور افراد نے اس طبی ضرورت کو منافع کا ذریعہ بنا لیا ہے جس سے پورا شعبہ بدنام ہو رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کب تک برداشت کیا جائیگا؟ کیا ہماری مائیں اور بہنیں یوں ہی تختۂ مشق بنتی رہیں گی؟ کیا ہم خاموش رہ کر اپنی نسلوں کو اس ظلم کے حوالے کرتے رہینگے؟ حکومت کو چاہئے کہ اس مسئلے پر سختی سے نظر رکھے۔ اسپتالوں کے حساب کی جانچ پڑتال ہو، جعلی آپریشن کے کیسز پر کڑی سزا دی جائے اور ڈاکٹروں کو مسیحائی کے اصول یاد دلائے جائیں۔ ساتھ ہی عوام میں بیداری لائی جائے۔ ہر خاندان کو یہ حق ہے کہ وہ آپریشن کی وجہ پوچھے، دوسرا مشورہ لے، اور بلاوجہ کے آپریشن سے انکار کرے۔ ماں بننے کی سب سے بڑی خوشی کو ہمارے ہاں اسے سب سے بڑا خوف بنا دیا گیا ہے۔ یہ خوف ختم ہونا چاہئے۔ عورت کو اعتماد ملنا چاہئے کہ وہ قدرتی طریقے سے اپنی اولاد کو دنیا میں لا سکتی ہے۔ اسکے خاوند کو ساتھ رہنے کا حق ہونا چاہئے تاکہ عورت کو سہارا ملے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈاکٹر اور اسپتال کو مسیحائی کی طرف واپس لانا ہوگا، ورنہ وہ دن دور نہیں جب لوگ اسپتال کو شفا خانہ کے بجائے ’ایذا خانہ‘ اور ڈاکٹر کو مسیحا کے بجائے ’بہروپیا‘ کہنا شروع کر دیں گے۔n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK