ہم اکثر اپنی تعریف کرنا اور سننا پسند کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو برتر جانتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ ہر شخص باصلاحیت ہوتا ہے۔ خواتین چونکہ جذباتی ہوتی ہیں اس لئے دوسروں کی تنقید پر جلد مایوس ہوجاتی ہیں۔ یہ طرزِ عمل ٹھیک نہیں اس کا علاج خود پر یقین ہے.
ایک دوسرے کے کام کی تعریف کرنے سے حوصلہ بڑھتا ہے اور بہتری کی نئی راہ اجاگر ہوتی ہے۔ تصویر: آئی این این
ربِ کریم نے ہر انسان کو صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جس طرح تمام انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ان کی صلاحیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں جن کا استعمال وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ البتہ بعض لوگوں میں زیادہ صلاحیتیں ہوتی ہیں اور بعض میں کم۔ ذہین انسان باصلاحیت ہوتے ہیں اور مختلف میدانوں میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض افراد بولنے میں ماہر ہوتے ہیںکوئی مصوری میں مہارت رکھتا ہے۔ کوئی سائنسداں تو کوئی کرکٹر ہوتا ہے۔ غرض ہر کوئی زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں کارنامہ انجام دیتا ہے۔
قابلیت تو خدا کی دی ہوتی ہے مگر اس کو نکھارنے، سنوارنے اور بڑھاوا دینے میں اطراف کے افراد کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اچھا کام کرنے پر اس کی پذیرائی ہو۔ بلاشبہ دوسروں کی ذرا سی تعریف اور ہمت افزائی سے انسان کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال گھریلو خواتین کی دی جاسکتی ہے۔ جب خاتونِ خانہ کھانا بناتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کھانے والے اس کے پکوان کی تعریف کریں۔ ذرا سی تعریف اور پسندیدگی کا اظہار ہی ان کی محنت کا صلہ ہوتا ہے۔ بچے بھی اپنی اچھی کارکردگی کے لئے تعریف اور حوصلہ افزائی کے منتظر ہوتے ہیں۔ چند تعریفی الفاظ بچوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلی لاسکتے ہیں۔
بعض افراد، دوسروں کے کاموں کی کھل کر تعریف کرتے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اتنی زیادہ تعریف کرتے ہیں کہ خوشامد کے زمرے میں آجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک وہ افراد ہوتے ہیں جو کسی کو سراہنے کے بجائے ان میں نقائص نکالتے ہیں اور سامنے والے کے حوصلوں کو پست کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ دراصل جو افراد خود کچھ نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی کامیابی برداشت نہیں کرسکتے۔ انسان میں یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ خود کو سب سے اونچی جگہ پر دیکھنا چاہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں دو ہی ہستیاں ہوتی ہیں جو کسی کو اپنے سے زیادہ ترقی کرتے دیکھ کر خوشی ہوتی ہیں۔ وہ ہیں ماں اور استاد۔ باقی لوگوں میں جلن اور حسد کا مادہ کم یا زیادہ مگر ہوتا ہی ہے۔
جب آپ صرف دوسروں کی کمزوریوں پر توجہ دیتے ہیں اور ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں پر توجہ نہیں دیتے تو آپ کے دل میں دوسروں کے لئے احترام پیدا نہیں ہوتا۔ جب آپ کسی سے چڑ یا نفرت محسوس کریں تو اپنا محاسبہ کریں کہ اس کی وجہ احساسِ برتری یا دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا ہے؟ جب آپ کسی سے غصہ یا نفرت محسوس کرتے ہیں تو اس وقت آپ کا دماغ بے چین اور تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ دوسروں کی خوبیوں یا صلاحیتوں پر توجہ دیتے ہیں اور انہیں قبول کرتے ہیں تو نفرت کا جذبہ خود بخود کم ہوجاتا ہے۔ آپ کے دل میں دوسروں کے لئے عزت پیدا ہوتی ہے اور دوسرے بھی آپ کی عزت کا جواب احترام سے دیتے ہیں۔ جو لوگ بلاصلاحیت ہوتے ہیں وہی دوسرے کی خوبیوں کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ احساسِ کمتری کا شکار افراد نقائص نکال کر ہی دل کو تسلی دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا اعتراف کا جذبہ کھلاڑیوں سے سیکھنا چاہئے۔ ان کے اس جذبے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ وہ اپنے حریف کی ہمیشہ تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ جیتنے یا ہارنے کے بعد بھی وہ ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرتے۔
ہماری اپنی زندگی میں بھی ایسے افراد ملے گے جو ہمارے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کریں گے۔ دراصل دوسرے کی ناکامی میں وہ اپنی کامیابی دیکھتے ہیں۔ خواتین چونکہ جذباتی طور پر کمزور ہوتی ہیں اس لئے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ وہ یہ جان لیں کہ باصلاحیت لوگ ہی دوسروں کی خوبیوں کے معترف ہوتے ہیں۔ اس لئے دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہ لیں کہ اس طرح آپ کی اپنی خوبیاں زیادہ نکھر جائے گی۔ بعض خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرتی ہیں۔ ان سے مرعوب ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اپنی کمزور چھپانے کے لئےسامنے والوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو خود اپنی تعریف کرتے ہیں وہ جھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ پھول کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ خوشبودار ہے۔