Inquilab Logo Happiest Places to Work

خواتین روایات کی محافظ ہوتی ہیں، انہیں نسل در نسل منتقل کرتی ہیں

Updated: May 01, 2025, 1:59 PM IST | Firdous Anjum | Mumbai

کسی بھی معاشرے کی روایات اس کی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی عکاسی کرتی ہیں۔ خواتین ان روایات کی محافظ ہوتی ہیں کیونکہ وہ گھریلو، سماجی اور مذہبی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ بچوں کی پرورش سے لے کر اجتماعی تقریبات، شادی بیاہ اور تہواروں تک، خواتین وہ مرکزی ہستیاں ہیں جو مثبت قدروں کی ضامن ہوتی ہیں۔

Elderly women lead the new generation of girls in rituals and ceremonies so that they can carry forward these traditions. Photo: INN
بزرگ خواتین نئی نسل کی بچیوں کو رسومات اور تقریبات میں آگے کرتی ہیں تاکہ وہ ان روایات کو آگے بڑھائیں۔ تصویر: آئی این این

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ معاشرتی ڈھانچے میں خواتین ہمیشہ سے روایات کی امین رہی ہیں۔ خاندان، ثقافت اور رسم و رواج کو نسل در نسل منتقل کرنے میں ان کا کردار نہایت اہم ہے۔ خواتین روایات کو عملی زندگی میں اپنا کر آگے بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کے ذریعے روایات کی تشکیل اور تحفظ ہوتا ہے۔
 کسی بھی معاشرے کی روایات اس کی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی عکاسی کرتی ہیں۔ خواتین ان روایات کی محافظ ہوتی ہیں کیونکہ وہ گھریلو، سماجی اور مذہبی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ بچوں کی پرورش سے لے کر اجتماعی تقریبات، شادی بیاہ اور تہواروں تک، خواتین وہ مرکزی ہستیاں ہیں جو مثبت قدروں کی ضامن ہوتی ہیں۔ اس کے کچھ اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
گھریلو زندگی میں روایات کی پاسداری
 خواتین خاندانی روایات کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ بچوں کو آداب سکھانے، تہذیب و ثقافت سے روشناس کرانے اور اخلاقی قدروں کی تعلیم دینے میں ان کا عمل دخل سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے، جہاں وہ اپنی تہذیب و تمدن کے بنیادی اصول سیکھتا ہے۔
سماجی اور ثقافتی کردار
 دیہی علاقوں میں، شادی کی رسومات، میلوں، مذہبی تہواروں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت روایات کے تسلسل کو یقینی بناتی ہے۔ ان کے ذریعے لوک گیت، روایتی دستکاری، کھانے پکانے کے مخصوص طریقے اور دیگر ثقافتی مظاہر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔
روایتوں کو زندہ رکھنا
 ہمارا ملک کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ خاص طور پر یہاں شادیوں میں گیت اور سنگیت کی روایت قدیم دور سے چلی آرہی ہے۔ سبھی مذاہب کی شادیوں میں یہ رواج ہے۔ یہ گیت اور سنگیت ہندوستانی تہذیب کا مظہر بھی ہے کیونکہ عام طور پر ایسے موقع پر لوک گیت گائے جاتے ہیں جو دولہا اور دلہن سے متعلق ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں پر ایسے گیت بھی گائے جاتے ہیں جس میں مزاح شامل ہوتا ہے۔ خواتین ان تمام باتوں کا خوب خیال رکھتی ہیں اور موقع کی نزاکت کا بھر پور فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ نئی نسل انہی تقریبات کے ذریعے تہذیب و روایات کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ جیسے لال چندری تلے دلہن کو تخت تک لے جانے کی رسم، مختلف مذاہب میں مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔ اور اس وقت گائے جانے والے لوک گیت بھی مختلف ہیں۔
 یہاں چند بول بطور نمونہ دیکھئے: گھونگٹ میں تیرے چندر بست ہے، لعل لگے انمول ناجوری نا جو گھونگٹ کھول، نوشہ پیارے بنے کی راج دلاری بنڑی، موتیوں مانگ بھری کنبے کی پیاری بنڑی۔
نئی نسل کو تہذیبی پہچان دینا
 خواتین اپنے علاقے اور اپنے مذہب سے جڑی تہذیب و روایات کو نئی نسل میں منتقل کرتی ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں بزرگ خواتین نئی نسل کی بچیوں کو رسومات اور تقریبات میں آگے کرتی ہیں اور انہیں سکھاتی ہیں کہ تمہیں بھی اپنے گھر جا کر انہی روایات کو آگے بڑھانا ہے۔ اس طرح وہ ایک تہذیبی پہچان کی مستحق بن سکتی ہیں۔
روایات اور جدید دور کے تقاضے
 وقت کے ساتھ ساتھ روایات میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور خواتین اس تبدیلی کو قبول کرنے یا پرانے رسم و رواج کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آج کی عورت جہاں تعلیم یافتہ اور بااختیار ہو رہی ہے وہیں وہ اپنی ثقافت اور روایات کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ جدید دور میں خواتین نے پرانی روایات کو نئے انداز میں ڈھالنے کا فن بھی سیکھ لیا ہے تاکہ وہ وقت کے ساتھ ہم آہنگ رہ سکیں۔
معاشرے میں یکجہتی اور تحافظ کو بڑھانا
 دیکھا جائے تو خواتین دانستہ اور نادانستہ طور پر معاشرے میں یکجہتی کو فروغ دیتی ہیں۔ ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے کے موقع فراہم کرتی ہیں اور ساتھ ہی ان کے تحافظ میں بھی سرگرم عمل رہتی ہیں۔ 
 ان روایات کی آڑ میں کہی نہ کہی اندھی تقلید کی پیروی بھی ہوتی ہے۔ خواتین کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بے جا رسومات اور عقائد جو ہماری خوبصورت روایات میں در آئی ہیں ان کے لئے مخصوص اقدامات کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ وقت بدل رہا ہے، تعلیم عام ہو رہی ہے ایسے میں فرسودہ نظریات کی نفی کرنا ہمارا اخلاقی ذمہ ہے اور یہی پیغام تعلیم اگلی نسل تک بھی پہنچائیں۔
 مختصراً یہ کہ خواتین روایتوں کی پاسدار ہونے کے ناطے نہ صرف اپنی شناخت کو محفوظ رکھتی ہیں بلکہ معاشرتی استحکام میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ روایتوں کی محافظ بھی ہیں اور انہیں نسل در نسل منتقل کرنے والی بھی۔ ان کی یہی خصوصیت انہیں معاشرتی ترقی اور ثقافتی بقا کا ایک مضبوط ستون بناتی ہے۔ خواتین کا یہ کردار بھی نا قابلِ فراموش ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK