Inquilab Logo

انسانی نفسیات اور ذہنی تر بیت : مشکلات اورخدشات

Updated: April 16, 2024, 2:16 PM IST | Dr. Humira Aleg | Mumbai

ذرائع بہت ہو گئے ہیں، آمدنی بڑھ گئی ہے، بہتر سے بہتر چیزیں اب دسترس میں ہیں ،اس کے با وجو دبھی آج گھر گھر جیسا نہیں، معاشرہ معاشرہ جیسا نہیں۔

Large number of women suffering from mental disorder. Photo: INN
اس دور میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ذہنی انتشار میں مبتلا ہے۔ تصویر: آئی این این

آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، کبھی کبھی غور کرنے پر بڑی حیرا نی ہو تی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم جیسا چاہتے ہیں ویسا نہیں ہوتا ہے اور جیسی نسل بنانا چاہتے ہیں اسکا الٹ ہو جا تا ہے۔ اس کی شکایت خواتین اکثر کرتی ہیں اور اس بارے میں فکرمند رہتی ہیں۔ کبھی سوچ کا دائرہ اطراف کے ما حول کے گردگھو متا ہے اور کبھی اس کیخلاف ہوتا ہے۔ یہاں اس کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی جائے گی۔ 
 انسانی نفسیات کا مشا ہدہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی ایسی کیفیت سے دور چار ہوتا ہے جو اسے نہ صرف منفرد بناتی ہے بلکہ یہی کیفیت ذرا شدید ہو جائے تو یہ’ نفسیاتی عارضہ‘ کہلاتی ہے۔ آج جبکہ دنیا سب کی نگاہوں میں ہے جسے جو چاہئے وہ مہیا ہے، انٹر نیٹ پر بہت کچھ دستیاب ہے۔ گویا دریا ہر جا نب رواں ہے جس قدر سیراب ہونا آسان ہے، اسی قدر ڈوبنے کا خوف بھی ہے۔ یہ طے کرنا بڑا مشکل ہے کہ کون سیراب ہو نے کو تر جیح دیتا ہے اور کون ڈوبنا چاہتا ہے؟
 صرف نئی نسل نہیں بلکہ ذی ہوش لوگ بھی آج ایک تصوراتی دنیا میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں  کسی کی ذہنی جہت کا اندازہ کر نا مشکل ہو رہا ہے۔ ذہا نت سب کے پاس ہے لیکن وہ کھو تی جارہی ہے۔ کہیں وجہ حا لات ہیں اورکہیں حددرجہ جذبات۔ ذہنی تعمیر اتنی خام ہے کہ ذرا سی ٹھیس لگتی ہے تو خیا لات ہی نہیں بکھرتے بلکہ پورا وجود بکھر جاتاہے۔ کیا بچے اور کیا بڑے؟ مرد و خواتین سب کسی نہ کسی قسم کے ہیجان میں مبتلا ہیں۔ ذرائع بہت ہوگئے، آمدنی بڑھ گئی، اشیاء خوردونوش میں نت نئی اشکال پیدا ہوگئیں، بہتر سے بہتر چیزیں اب دسترس میں ہیں۔ اسکے با وجو دبھی آج گھر گھر جیسا نہیں، معاشرہ معاشرہ جیسا نہیں، لو گ جانے کیسے ہو گئے؟ ایسا لگتا ہے کہ منزل کا تعین کئے بغیر ہی تمام لوگ سفر میں ہیں۔ جہاں تک انسان کی نفسیات کا سوال ہے تو ہر دوسرا اور تیسرا آدمی عجیب سے خلجان میں ہے۔ جدید تحقیق کہہ رہی ہے کہ دنیا میں ہر ۵؍ میں سے ایک آدمی ذہنی مرض کا شکار ہے۔ ان میں خواتین کی تعداد سب سے زیا دہ ہے۔ چھو ٹی چھو ٹی باتیں انسان کو پریشان کر دیتی ہیں، خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ کچھ تو ایسی بات ہے جس پر ہماری نگاہ جا تی نہیں یا کچھ تو ایسا ہے جسے ہم اہم نہیں گردانتےلیکن وہ کسی کسی کیلئے بہت اہم ہو تی ہے، اتنی اہم کہ ان کی دنیا بدل جا تی ہے۔ ایسے بہت سارے لو گوں سے جب ہم نے گفتگو کی اور وجہ جا ننے کی کوشش کی تو کو ئی بڑی بات سا منے نہیں آئی۔ ذہنی کا ئو نسلنگ انہیں کچھ کچھ متحیر کر دیتی ہے اور کچھ اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ خو د نہیں جا نتے کہ انہیں ایسا کیسے ہو گیا؟کہیں کسی نے دھوکہ دید یا، کہیں کسی کو مر ضی کا اسکول اور کورس نہیں ملا، کسی کو ملازمت اچھی نہیں ملی، کسی کو یہ خو ف ہے کہ جاب چلی گئی تو کیا ہو گا؟کسی کو کسی اپنے کی موت کا غم ہے۔ کسی کے امتحان کے نتائج خراب ہوگئے، کوئی مو بائل گیم کھیلتے کھیلتے اسی دنیا میں  کھو گیا ہے اور وہی دنیا اس کے دل و دماغ پر حاوی ہوگئی ہے۔ چھو ٹے حا دثات، کہیں گھریلو جھگڑے کہیں ڈانٹے جا نے کا خوف اور کہیں بے عزت ہوجانے کا ملال وغیرہ۔ سوال یہ ہےکہ یہ سب وجو ہات کیا اتنی بڑی ہیں کہ انسان ذہنی توازن کھو دے۔ کچھ تو اور وجہ ہے ان سب کے پیچھے اور وہ ہے ذہنوں کا غلط استعمال، غلط سمت میں استعمال، لغویات میں استعمال۔ تر قی کے اس دور میں جہاں دو چیزیں سب سے زیادہ لائق استعمال ہیں، وہ ہیں وقت اور ذہن اور آج ہم اسکا بری طرح سے زیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ کیا آج تر بیت کا فقدان ہوگیا ہے؟ یا تر بیت کا انداز بدل لینے کی حا جت ہے؟ یا ہمارا نقطہ نظر پرانا ہوگیا ہے جبکہ وقت کی رفتار کہہ رہی ہے کہ ذہنوں کا استعمال سیکھنا لازم ہے۔ آج کی نسل انتہائی ذہین ہے، بہت متحرک ہے لیکن انہیں رہنما ئی کی ضرورت ہے۔ آج والدین کی گرفت ان رہنما اصول پر کمزور ہو گئی ہے جس کی وجہ انکا خود اپڈیٹ نہ ہوناہےاور آجکل بچے والدین کے چنگل سے نکل کر موبائل کی دنیا کے ہو گئے ہیں اور دقت یہ ہے کہ اس کا استعمال نا گزیر بھی ہے اور لت جیسا بھی۔ یہ صورتحال والدین کو ذہنی کرب میں مبتلا کر تی ہے تو دوسری جا نب بچے ذہنی خلفشار کے تحت مفلو جیت کا شکار ہورہے ہیں۔ اس وقت دانشمندانہ اقدام کی ضرورت ہے تاکہ آلات کا استعمال بھی با قی رہے اور تر قیاتی کام میں وقت کا استعمال ہو سکے اور بچے بھی بہترین ذہنی نشوو نما پاسکیں۔ کم از کم ہر فر د ایک سبق سیکھ لے کہ اسکی ذات کسی کیلئے اتنی اذیت کا با عث نہ ہو کہ دوسرا شخص جس کے پاس بچنے کا کو ئی راستہ نہ ہو تو وہ ذہنی عارضے میں مبتلا ہو جائے۔ ہر انسان کسی نہ کسی خو بی کا مالک ہوتا ہے اگر ان کی خو بیاں ان کی نگاہوں میں نمایاں کر دی جا ئیں، انہیں اپنے آپ پر بڑی حیرانی ہو تی ہے۔ دراصل نزاکت اور ضرورت سے زیادہ دیکھ بھال انہیں ناکارہ بنا دیتی ہے، اس لئے انہیں معلوم ہونا چا ہئے کہ تکلیف کسے کہتے ہیں؟ انہیں فا ئدہ نقصان دو نوں سے آگاہ ہو نا چاہئے، دنیا کا چلن کیا ہے؟ یہ معلوم ہونا چاہئے۔ دنیا کی حقیقت بھی معلوم ہو نی چا ہئے۔ انسا نی زندگی کے مختلف پڑائو اور ان کی الگ لگ اہمیت اور نو عیت بھی سمجھ آنی چا ہئے۔ مشغولیات میں تبدیلی اچھی چیز ہے۔ نیند کی کمی، کم وقت میں بیک وقت ذہن میں کثیر خیا لات کا مجمع، یہ صرف اپنے تئیں نہیں بلکہ اپنے گرد و پیش د یگر افراد کی تکا لیف کابھی با عث بنتا ہے۔ ہم با خبر رہنا سیکھیں، دور کے حا لات کے ساتھ اپنے آس پاس اور قریبی افرادسے بھی، تا کہ ذہنی کرب کا علاج نہیں تو کم از کم اسکی وجہ تو نہ بنیں۔ آج دنیا میں مو ت کا سبب سب سے زیادہ یہی ذہنی الجھا ئو ہے جسکے تحت انسان خود کیلئے بد ترین راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ علم کی کمی ہی نہیں، راست ذہنی تر بیت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہر مقام پر ہے خواہ وہ دفا تر کی ذمے داریوں کی بات ہو یا مالک اور ملازم کے رشتہ میں، عہدے اور رتبے کی بات ہو یا ذاتی رعو نت کی... مجبور کو مجبور کرنا اس کا بد ترین محرک ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK