Inquilab Logo

سرکاری اور قانونی ضابطے مکمل ہوں تو اداروں کے قیام میں کوئی دشواری نہیں آتی

Updated: September 24, 2021, 11:58 AM IST | Mumbai

’’تعلیم نامہ ‘‘ کی دوسری قسط، جس میں شرکاء نے نئے اداروں کے قیام اور اُن کو جاری و ساری رکھنے کے لئے قانونی ضابطوں کی تکمیل پر اپنے تجربات بیان کئے اور تعلیمی منظرنامے پر رائے دی

PictureDuring an informal discussion after the discussion,Ms. Sangeeta Kabaddi, Business Head of Inqilab and  Infomedia talking to the participants of the discussion. Picture: Inquilab, Shadab Khan
مباحثے کے بعد ایک غیر رسمی بات چیت کے دوران انقلاب اور مڈڈے انفومیڈیا کی بزنس ہیڈ محترمہ سنگیتا کباڈی مباحثے کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے۔ تصو:یر انقلاب۔ شاداب خان

کیا آپ کو مثبت تبدیلی نظر آتی ہے، یعنی کیا قوم کا مزاج ، ذہن ، سوچ اور ترجیحات بدلی ہیں؟ 
محمدشریف تھم: یقیناً۔ اس سلسلے میں مَیں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ ہم پال گھر ضلع میں ہیں اور ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں مہاراشٹرین بچے زیادہ ہیں۔ جو مسلم زیرتعلیم ہیں وہ دیگر طلبہ کی طرح نہایت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کے لئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہے۔ اس کے باوجود والدین فیس کے لئے ضروری رقم پس انداز کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کو کئی سرکاری اور قانونی ضابطوں کی تکمیل کرنی پڑتی ہے۔ یہ کتنا کٹھن مرحلہ ہے ؟اور کن تدابیر کو اختیار کرکے اس مرحلے سے بآسانی گزرا جاسکتا ہے؟ 
ڈاکٹر ظہیر قاضی: ہمارا تجربہ یہ ہے کہ کوئی مشکل نہیں آتی اگر آپ کا ہوم ورک مکمل ہو یعنی  آپ نے ضروری تقاضوں کو بحسن و خوبی پورا کیا ہو۔ آپ جانتے ہوں گے کہ سینٹرل گورننگ کونسل فار ہائر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن نے ایک نئی اسکیم جاری کی ہے جو انٹیگریٹیڈ ٹیکنیکل کیمپس کی ہے۔ اس کا مقصد  ایک کیمپس میں ایک ساتھ دو یا تین یا چار ادارے قائم ہوں  تاکہ بہت سی سہولتیں مشترک ہوں ۔ یہ مالی اعتبار سے بھی کفایتی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے کیمپس کا ماحول تکنیکی اعتبار سے بھی گہماگہمی والا ہوتا ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ انجمن واحد ادارہ تھا جس نے ایک ساتھ تین انسٹی ٹیوشن قائم کئے ۔ اس کے لئے ایک نیا کیمپس بنایا جسے آپ پنویل میں دیکھ رہے ہیں۔ اس میں انجینئرنگ ، آرکیٹکچر، فارمیسی اور مہاراشٹر کا دوسرا سب سے بڑا پالی ٹیکنک ہے۔ اس کے لئے ہم نے کوشش یہ کی کہ اداروں کے قیام کے ضابطوں کو ۱۱۰؍ فیصد پورا کیا۔ نیا ادارہ قائم کرنے والوں کو ہمارا یہ مشورہ ہے کہ آپ بھلے ہی ایک ادارہ شروع کررہے ہوں مگر کوشش کیجئے کہ جتنے سرکاری اور قانونی تقاضے ہیں وہ ۱۱۰؍فیصد پورا کریں۔ ہم نے جو لاء کالج قائم کیا ہے ویسے کالج کے لئے ۱۰؍ عرضیاں تھیں جن میں سے تین کو منظوری ملی، ان میں سے ایک انجمن کا ،لاء کالج ہے۔ اس کے لئے ہم نہ تو وزیر سے ملے اور نہ کچھ اور کیا۔ میں یہ نہیں مانتا کہ دشواریاں آتی ہیں ۔ رہی بات لال فیتہ شاہی کی تو وہ سب کے لئے ہے، صرف ہمارے لئے نہیں۔
قاضی صاحب آپ  کے اس جواب سے دو اہم نکات  اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ضابطے پورے کر دیئے جائیں جو آپ نے بیان کیا۔  دوسرے، افسران کو قائل کرنے صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ ہو ۔ ارشد مختار صاحب، آپ کی کیا رائے ہے؟ 
شیخ ارشد مختار: میں صد فیصد تائید کروں گا۔ جب ہمارے یہاں انجینئرنگ کالج کی منظوری کی بات آئی تو ۱۱۰؍ فیصد ہی کی تیاری ہماری تھی۔ افسران اچانک آئے مگر ان کا طرز عمل بہت اچھا تھا۔ ان کی وزٹ بھی کافی شفاف تھی۔ میٹنگ کے دوران جامعہ محمدیہ کا جو مزاج ان کے سامنے آیا اور جو تیاریاں ہم نے پہلے سے کر رکھی تھیں ان کے پیش نظر انہوں نے پہلے ہی مرحلے میں ’اوکے‘ کردیا ، الحمدللہ۔ چنانچہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ضابطے مکمل ہوں تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ پریشانی وہاں آتی ہے جہاں ’راستے‘ تلاش کئے جاتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ فارمولہ صرف تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام ہی کے لئے کارگر نہیں بلکہ زندگی کے ہر محاذ پر اس کے خوشگوار اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو بھی چاہئے کہ اپنی قابلیت اور تیاری ۱۱۰؍ فیصد رکھے۔ 
شیخ ارشد مختار: بنگلور میں ہم نے کیمبرج شروع کیا ۔ یہ آسان نہیں تھا اس لئے ایک ایسے شخص کو مقرر کیا جو سارے ضابطے جانتا ہو۔ ہم نے ایک غیرمسلم خاتون کو پرنسپل مقرر کردیا ۔ تین مہینے میں افسران کی پہلی وزٹ ہوئی جنہوں نے ایک دو چیزیں مارک کیں ۔ دو مہینے بعد دوسری وزٹ ہوئی اور سب ٹھیک ہوگیا۔ 
تھم صاحب ، آپ ممبئی یا مالیگاؤں جیسے شہر میں نہیں بلکہ دورافتادہ علاقے میں ہیں جہاں پہنچنا بھی مشکل ہے۔ افسران کو لانے میں تو بڑی دقت آتی ہوگی؟
محمد شریف تھم: جی آئی سی ٹی  کی ٹیم آتی ہے تو اس کے شرکاء کو ٹھہرانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ممبئی میں قیام کریں تو وہاں سے بوئیسر تک کا سفر، آپ سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک بار جب ایسا ہی ہوا تو دہیسر سے بوئیسر کے درمیان افسران بار بار دریافت کرتے تھے کہ اب کتنا دور ہے، اب کتنا دور ہے۔ دہیسر سے ۲؍ لگے وہاں پہنچنے میں مگر ہمارے انسٹی ٹیوشن کی عمارت اور انفراسٹرکچر کو دیکھ کر وہ کافی خوش ہوئے۔ یہ ٹیم خاص طور پر انفراسٹرکچر دیکھتی ہے۔ 
گویا آپ متفق ہیں کہ  پیش رو شرکاء نے جو باتیں کہیں وہ بالکل درست ہے بالخصوص ۱۱۰؍فیصد والی بات؟
محمد شریف تھم: جی ۔ اس کے ساتھ ہی میں ایک بات اور کہنا  چاہوں گا کہ سینئر ادارے، جونیئر اداروں کی رہنمائی کریں تو ضابطوں کی ۱۱۰؍ فیصد تکمیل میں انہیں بڑی آسانی ہوسکتی ہے۔ 
محمد شریف تھم صاحب نے رہنمائی کی جو بات کہی اس پر مجھے یاد آیا کہ اداروں کے درمیان استفادے اور تال میل کے مقصد سے حال ہی میں ایک قدم یہ اٹھایا گیا کہ مالیگاؤں کے کچھ اداروں کے ذمے داران ممبئی آئے تاکہ انجمن کے اربابِ اقتدار اور اساتذہ  سے استفادے کے امکانات پر گفتگو کریں۔ قاضی صاحب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ تال میل صرف مالیگاؤں کے اداروں اور انجمن اسلام کے درمیان ہے یا آپ دوسرے اداروں تک بھی اس کی توسیع کریں گے؟
ڈاکٹر ظہیرقاضی: یہ آپ نے بالکل درست کہا کہ مالیگاؤں کا ایک وفد انجمن اسلام کالسیکر کالج ، پنویل آیا تھا جس نے مختلف شعبوں  اور وہاں کے ہمارے اداروں کا جائزہ لیا۔ اس دوران ہماری طویل گفتگو بھی ہوئی بعد میں ہم نے انہیں ہیڈ آفس بھی مدعو کیا ۔ یہ رابطہ کافی سودمند ہوسکتا ہے اور ہم یقیناً اسے دوسرے شہروں کے اداروں تک دراز کرنے کے لئے بھی کوشاں رہیں گے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دیگر شہروں کے اداروں سے بات چیت ہو بھی رہی ہے۔ 
ارشد مختار صاحب ، آپ کا ادارہ پَین انڈیا ہونے جارہا ہے ، آپ بنگلور میں بھی ہیں اور مئوناتھ بھنجن میں بھی سنگ ِ بنیاد رکھ چکے ہیں۔ کیا ہم کوئی ایسا اتحاد قائم کرسکتے ہیں جس میں الگ الگ شہروں کے ادارے ایک دوسرے سے استفادہ کرسکیں؟ یہ پورے ملک کی سطح پر تو شاید بہت غیرمعمولی  خواب ہوگا مگر چھوٹی موٹی سطح پر تو یقیناً ممکن ہے ۔
شیخ ارشد مختار: جسے آپ غیرمعمولی کہتے ہیں وہ غیرممکن نہیں ہے۔ خواب بڑے ہی دیکھنے چاہئیں۔ جب ہم بڑی سطح کا منصوبہ بنائیں گے تو کم از کم مہاراشٹر کی سطح پر اسے معرض ِوجود میں آتا ہوا دیکھ سکیں گے ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہوگی کہ تعلیم سے وابستہ افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔  بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر ہم کسی معاملے میں پریشان ہیں اور ظہیرقاضی صاحب اُس مرحلے سے بآسانی گزرچکے ہیں ، ان کے ساتھ تال میل سے ہم بھی اُس مسئلے کو حل کرسکیں گے۔ 

(تحریر: شاہد لطیف)

پہلی قسط:۳۰؍ برس کی تعلیمی پیش رفت قابل ذکر ہے مگر بہت کچھ اب بھی باقی ہے

تیسری قسط: قوم کوصرف تعلیم نہیں بلکہ معیاری تعلیم کو ہدف بنانا ہوگا،تب ہی نتائج برآمد ہونگے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK