Inquilab Logo

۳۰؍ برس کی تعلیمی پیش رفت قابل ذکر ہے مگر بہت کچھ اب بھی باقی ہے

Updated: September 23, 2021, 2:06 PM IST | Mumbai

انقلاب کے ’’تعلیم نامہ‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال۔ کہا کہ ہم نے جو کچھ بھی حاصل کیا اُس سے زیادہ کی توقع بے جا نہیں، اس لئے کہ مسلمانوں کو تو تعلیمی قیادت کرنی چاہئے تھی

Taleem Namaparticipants express their views.Picture:INN
تعلیم نامہ میں شرکاء اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے۔ (دائیں سے) شاہد لطیف ، ڈاکٹر ظہیر قاضی ، شیخ ارشد مختار اور محمد شریف تھم ۔تصویر انقلاب۔شاداب خان

تعلیم نامہ۔ یہ ایک نیا سلسلہ ہے جو انقلاب نے شروع کیا ہے۔ اس سے قبل ’’دیوان خاص‘‘ شروع کیا گیا  جس کی کافی پزیرائی ہوئی۔ ’’دیوان خاص‘‘ میں ہم ایسی شخصیات کو مدعو کرتے ہیں جو سماج میں خوشگوار تبدیلیوں کیلئے کوشاں ہیں۔ اس دوسرے نئے سلسلے یعنی تعلیم نامہ میں تعلیم کو موضوع بنایا گیا ہے، یہ ضروری بھی تھا کیونکہ انقلاب نے ہر دور میں تعلیم کو اولیت اور اہمیت دی ہے، خواہ وہ بانی ٔ انقلاب مرحوم عبدالحمید انصاری کا دور رہا ہو یا درمیانی عہد یا پھر گزشتہ ۳۰؍ برس کا دور۔ اس دوران انقلاب نے خصوصی صفحات شائع کئے، تعلیمی بیداری کیلئے کالم جاری کئے، کریئر کونسلنگ پر ضروری توجہ دی اور  ایسی ہر سرگرمی میں ندرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آج کا موضوع منتخب کرتے وقت میرے ذہن میں بہت سی باتیں تھیں اور یہ سوال تھا کہ اتنی ساری چیزوں کو کیسے سمیٹا جا سکے گا۔ ۱۹۹۲ء  کے واقعے کے بعد ،  جس نے اجتماعی طور پر پوری قوم کو متزلزل کردیا تھا ، بیدار مغز لوگوں نے اس بات پر غور و خوض کیا کہ ایسے واقعات سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور اپنی بے اثری کس طرح بااثری میں تبدیل ہو۔ تبھی یہ طے ہوا تھا کہ پوری قوم تعلیم پر خصوصی توجہ دے ، ایک فرد اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں بھی اور پوری قوم اجتماعی سطح پر بھی۔ تب سے لے کر اب تک کم و بیش ۳۰؍ برس گزر چکے ہیں۔ ۱۹۹۲ء کے بعد تقریباً ۱۵؍سال گزرے اور ۲۰۰۶ء میں سچر کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر آئی جس نے قوم کو آئینہ دکھایا۔ اس کے بعد پھر تقریباً  ۱۵؍برس گزرے اور آج ہم ۲۰۲۱ء میں سانس لے رہے ہیں۔ چنانچہ اس گفتگو میں انہی ۳؍ دہائیوں کی کاوشوں کو موضوعِ بحث بنایا جارہا ہے۔
 ہماری دعوت پر تشریف فرما ہیں انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی ، جامعہ محمدیہ ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر شیخ ارشد مختار اور حاجی جمال الدین تھِم ٹرسٹ کے وائس چیئرمین محمد شریف تھِم۔ 
سب سے پہلے میں ڈاکٹر ظہیر قاضی صاحب سے  درخواست کروں  گا کہ ایک  مایۂ ناز ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر یہ بتائیں کہ ان ۳۰؍ برسوں میں ہماری کیا حصولیابیاں رہیں ؟
ڈاکٹر ظہیر قاضی: جب بابری مسجد کی شہادت ہوئی تب قوم میں شناخت کا بحران ایک اہم مسئلہ بن کر ابھرا۔ اس پر غور و خوض کے لئے کافی میٹنگیں ہوئیں اور آپ نے صحیح کہا ہے کہ تب تعلیم اورصرف تعلیم کو مرکز توجہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تعلیم بھی وہ جو معیاری ہو، ’’ڈیمانڈ ڈریون‘‘ ہو یعنی وقت اور حالات جس کا تقاضہ کرتے ہیں۔ انجمن نے بھی خود کو ان خطوط پر گامزن کرتے ہوئے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ بالکل غریب سے غریب طلبہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ یہ بڑی خوصی کی بات ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں ، بلکہ پورے ملک میں ، پرائیویٹ مسلم اداروں نے کمرشیل اینگل کو بالائے طاق رکھ کر فروغ تعلیم کی کوششیں کیں۔ آپ کے دفتر کے آس پاس کے علاقوں مثلاً بھارت نگر، بہرام پاڑہ، دھاراوی وغیرہ میں اُس دور میں طلبہ یا تو سلسلۂ تعلیم منقطع کردیتے تھے یا بہت سے تو اسکول ہی نہیں جاتے تھے۔ ہمارا مشاہدہ تھا کہ ۷۰؍فیصد طلبہ جو اسکولوں تک لائے گئے وہ اپنے خاندان میں تعلیم حاصل کرنے والی پہلی نسل سے تعلق رکھتے تھے (فرسٹ جنریشن لرنر)۔ ان میں ۶۰؍فیصد وہ تھے جن کا شمار خط ِ افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والوں میں تھا۔ چونکہ غریب طلبہ کی بڑی تعداد اردو میڈیم اسکولوں میں داخلہ لیتی تھی اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ اردو میڈیم اسکولوں کا معیارِ تعلیم بلند کیا جائے ۔ ہماری باندرہ کی اسکول (انجمن اسلام ڈاکٹر محمد اسحاق جمخانہ والا گرلز ہائی اسکول )  میں داخلہ ملنا مشکل ہوجاتا تھا۔ یہاں کا معیارِ تعلیم دیکھ کر امریکن قونصلیٹ نے اپنی  لائبریری ان کے لئے کھول دی کہ وہ جب چاہیں یہاں کی کتابوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یہاں کی بچیوں میں  ۹۰؍ فیصد سے زیادہ حاصل کرنے والی طالبات کی بھی بڑی تعداد ہونے لگی جبکہ یہ بہت غریب گھرانوں کی طالبات ہیں۔  اسی طرح  انجمن کا بلاسس روڈ کا اسکول (انجمن اسلام سیف طیب جی گرلز ہائی اسکول) کو بھی بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جسے امریکن گورنمنٹ نے اپنے تعاون کے لئے منتخب کیا ۔ لہٰذا کمپیوٹر کے ابتدائی دور میں یہاں طالبات کے لئے کمپیوٹر کی تعلیم کا نظم ہوچکا تھا۔ 
ڈاکٹر صاحب ، آپ نے بڑی اہم باتیں بتائیں مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ ممبئی اور مہاراشٹر کے عمومی تعلیمی منظرنامے کی  روشن لکیروں کا احاطہ کریں کیونکہ اس میں بہت کچھ ایسا ہے جس سے دیگر شہروں کے اداروں کی کارکردگی بھی سامنے آتی ہے  مثلاً بھیونڈی، پونے، شولاپور، جلگاؤں، مالیگاؤں۔
ڈاکٹر ظہیر قاضی: بے شک جو کوششیں ہوئیں وہ ہر جگہ ہوئیں۔ سب نے وقت کا تقاضا سمجھ کر محنت کی تاکہ قوم میں تعلیم کا فیض عام ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہوا وہ صرف سرکاری فنڈنگ سے نہیں ہوا ۔ جو سرمایہ میسر ہوا وہ قوم کے مخیر حضرات کا مرہون منت تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ اداروں نے اس سرمائے کا بحسن و خوبی استعمال کیا ۔ اسپتال اور دیگر فلاحی  منصوبوں کی بھی تکمیل ہوئی مگر سب سے زیادہ توجہ تعلیمی اداروں کے قیام اور توسیع پر رہی۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم نے کئی سنگ ِ میل عبور کئے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تعلیمی نتائج اور طلبہ کی تقرریاں یہ بھی ہماری حصولیابیوں کا حصہ ہیں۔ بڑی تعداد میں ہمارے نوجوان کارپوریٹس میں ہیں، سرکاری محکموں میں ہیں اور انٹرپرینیور ہیں۔ یہ پہلے نہیں تھا۔ انٹرپرینیورشپ کا جذبہ پہلے سے موجود تھا مگر ان ۳۰؍برسوں میں اسے تقویت حاصل ہوئی۔
ارشد صاحب ، ڈاکٹر ظہیر قاضی سے جو سوال کیا گیا ، میں چاہتا ہوں کہ اُس کے جواب کی توسیع آپ اپنے مشاہدات  اور جامعہ محمدیہ ایجوکیشن سوسائٹی کے اداروں کی روشنی میں کریں۔
شیخ ارشد مختار: اس سوال کے جواب سے پہلے میں ایک عمومی بات کہنا چاہوں گا کہ ۹۲ء کے بعد یقیناً منظرنامہ بدلا ، نئی دانش گاہیں اور نئے ادارے وجود میں آئے مگر ملک میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کو پیش نظر رکھا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے کتنے کم ہیں۔ معلوم ہوا کہ قوم میں تعلیمی بیداری ابھی اس انداز میں نہیں آئی ہے جیسی کہ آنی چاہئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انجمن اسلام نے ، ماشاء اللہ ، بہت کام کیا، تھِم نے کیا اور جامعہ محمدیہ کو بھی اللہ نے توفیق دی ،مگر من حیث القوم ہمیں جہاں پہنچنا چاہئے تھا ہم بوجوہ وہاں نہیں پہنچ سکے۔ وجوہات میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کی اہمیت کو جس انداز میں سمجھا جانا چاہئے تھا وہ اہمیت اور ترجیح اس کو نہیں ملی ہے۔ ہم نے مسجدوں کو تو ایئرکنڈیشن کیا، وہاں ماربل بھی لگائے لیکن تعلیم کی طرف توجہ میں کمی رہ گئی۔ نتیجتاً آج ملک میں ، جو اتنا اچھا ملک ہے، ہماری اتنی بڑی آبادی کے باوجود ہم تعلیمی معاملات میں پچھلی صفوں میں نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے دین نے جو سب سے پہلے حکم دیا وہ تھا اقراء۔ ہمیں تو تعلیمی قیادت کرنی چاہئے تھی۔
 یہ آپ نے درست فرمایا ، ہم اپنی خامیوں کی طرف بھی آئیں گے لیکن اس سے پہلے  جن ۳۰؍ برسوں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے ان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا احاطہ ضرور ی ہے…
 شیخ ارشد مختار: یہ خوش آئند بات ہے ۔۹۲ء کے بعد بدلاؤ شروع ہوا اور ہم نے اسے محسوس کیا۔ اگر میں اپنے کیمپس کی بات کروں تو انجینئرنگ کالج ۹۲ء کے بعد آیا اور پالی ٹیکنک بھی ۔ عنقریب ہم ہومیوپیتھک کالج شروع کرنے والے ہیں، بنگلور میں کیمبرج اسکول اور  مئوناتھ بھنجن میں  لڑکیوں کے لئے میڈیکل کالج شروع کیا۔ یہ تو میں اپنی سطح پر کہہ رہا ہوں۔ اگر ہم ملکی پیمانے پر دیکھیں تو بہت سی تنظیموں نے تعلیمی میدان میں بہت کچھ کیا ہے، اس سے انکار نہیں کیا  جاسکتا۔ اور اس کا اعتراف اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک ہم محاسن کا اعتراف  نہیں کریں گے ہمارے حوصلوں کو ایک قدغن سی لگ جائے گی اور ہم رک جائیں گے۔ 
اداروں کی بات  ہورہی ہے ، شریف  صاحب آپ  بتائیے، آپ کا  یہ ادارہ کسی مسلم اکثریتی علاقے میں نہیں ہے ، جیسا کہ عام طور پر مسلم ادارے ہوتے ہیں۔  ایسے علاقے میں ایک اقلیتی ادارہ چلانے میں  آپ کس طرح کی تبدیلی محسوس کرتے ہیں؟
محمد شریف تھم: سب سے پہلے تو میں یہاں سے شروع کروں گا کہ ہم نے کیوں ایسا علاقہ چنا۔ ہم باندرہ سے دہانو کے درمیان ایک ایسا علاقہ تلاش کررہے تھے جہاں اقلیتی آبادی بھی ہو اور ضرورت بھی ہو۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ضلع پال گھر کے بوئیسر علاقے میں اس کی ضرورت ہے ۔ یہ ممبئی سے ۱۳۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر بچے پال گھر ضلع میں کہیں رہتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ بھی اچھی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی انجمن جیسے کسی ادارے میں داخلے کے متمنی ہوتے ہیں۔  لیکن اگر  بہتر اور اعلیٰ تعلیمی سہولت انہیں ان کے اپنے علاقے میں ہی مل جائے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ ہمارے چیئرمین حاجی محمد حسین تھم صاحب نے اس خیال  کے تحت یہاں یعنی بوئیسر میں کالج قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔یہاں پر دیگر آبادیوں کے مقابلے میں مسلم آبادی بہت کم ہے لیکن سروے میں سب ہی لوگوں نے کالج کے قیام کو سراہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے طلبہ جو ’رورل ایریا‘ سے تعلق رکھتے ہیں،  یونیورسٹی رینک حاصل کررہے ہیں۔ ہمارا نصب العین یہی ہے کہ بہترین تعلیم کے ذریعے کامیابی حاصل کی جائے۔ تو مجھے لگتا ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں اپنے اس ہدف تک بھی پہنچ رہے ہیں۔
 آپ کا کالج جس علاقے میں ہے وہاں کوالیٹی آف ایجوکیشن کے ساتھ کوالیٹی آف انوائرمینٹ بھی ہے ۔ اب تک آپ کے ادارے سے تقریباً ۱۰؍ہزار طلبہ فارغ ہوچکے ہیں تو آپ اپنے طلبہ کو کہاں کہاں دیکھتے ہیں؟
محمد شریف تھم: الحمدللہ ، ۵۰؍فیصد بچے تو ہمارے ایم ایس کرنے کے لئے باہر یعنی بیرون ملک چلے گئے اوروہیں مقیم ہوگئے  ہیں۔ہمیں خوشی ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنا کام بہترین انداز میں کررہے ہیں۔  وہ سب ادارے سے وابستہ بھی ہیں۔ بقیہ ۵۰؍ فیصد یہیں ملک میں ہیں  اور بہت اچھی اور اعلیٰ کمپنیوں میں اچھے پیکیج پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ تو درسگاہ کی بات ہوئی، بحیثیت نوجوان ۹۲ء کے بعد کے تعلیمی منظرنامے پر آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
محمد شریف تھم: جی ، میں تو اُس ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھا۔ لیکن  آج میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم کے شعبے میں کمیونٹی کی ترجیحات ۱۰۰؍فیصد بدل گئی ہیں۔ تعلیم کو لوگوں نے اپنی اولین ترجیح  قرار دی ہے ۔

(تحریر: شاہد لطیف)

دوسری قسط: سرکاری اور قانونی ضابطے مکمل ہوں تو اداروں کے قیام میں کوئی دشواری نہیں آتی

تیسری قسط: قوم کوصرف تعلیم نہیں بلکہ معیاری تعلیم کو ہدف بنانا ہوگا،تب ہی نتائج برآمد ہونگے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK