Inquilab Logo

چاند رات کی مصروفیت اپنی جگہ مگر یاد رہے یہ لیلۃ الجائزہ ہے!

Updated: April 10, 2024, 1:48 PM IST | Odhani Desk | Mumbai

بیشتر خواتین چاند رات کو ہی شیر خرمے، سویوں، دہی بڑے، چنا چاٹ اور قورمے، نہاری وغیرہ کے سب لوازمات تیار کرکے رکھ لیتی ہیں کہ روزِ عید، مہمانوں کی خاطر تواضع میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اس کے علاوہ چاند رات کو خواتین گھر کی آرائش و زیبائش میں بھی مصروف رہتی ہیں تاکہ عید کے دن اُن کی سلیقہ شعاری اپنا تعارف خود پیش کرے۔

It is not possible to have Eid and bangles shops are not crowded. Photo: INN
عید ہو اور چوڑیوں کی دکانوں پر بھیڑ نہ ہو یہ نہیں ہوسکتا۔ تصویر : آئی این این

چاند رات کو گھروں اور بازاروں میں جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔ شوال کا چاند نظر آنے کے بعد چاند کی مبارکباد دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے مگر اب مبارکباد دینے کا طریقہ بھی بدل گیا ہے۔ موبائل فون کی ایجاد سے قبل باقاعدہ ایک دوسرے کے گھر جا کر مبارکباد دی جاتی تھی۔ مشترکہ خاندان میں بھابیاں، نندیں اور ساس ایک دوسرے کو گلے لگا کر مبارکباد دیتیں اور بھائی، بھائی سے گلے ملتے، لیکن اب اس رسم کو وہاٹس ایپ پیغامات تک محدود کردیا گیا ہے یاپھر زیادہ سے زیادہ عزیز واقارب کو فون کر لیا جاتا ہے اور بس۔ آج سے چند دہائیاں قبل یہ مبارکبادیں ایسی روکھی پھیکی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ اس موقع کو حقیقی خوشیوں سے آراستہ کرنے کیلئے گھر کی بڑی بیبیاں رمضان کے دوسرے عشرے ہی سے خصوصی تیاریاں شروع کردیتیں۔ گھروں ہی میں ہاتھ سے سویاں تیار کی جاتیں۔ رمضان کے آخری روز بازار سے خصوصی طور پر مٹھائی منگوائی جاتی اور پھر چاند نظر آنے پر سویاں اور ایک پلیٹ میں مٹھائی رکھ کر ہمسایوں اور قریبی رشتے داروں کے گھر لے جا کر اُنہیں چاند و عید کی مبارکباد دی جاتی۔ علاوہ ازیں، جن گھروں کی بیٹیاں بیاہی ہوتیں، اُن کیلئے میکے والے سویاں، مٹھائی کے ساتھ نیا جوڑا، چوڑیاں اور مہندی بھی بطور عید کا تحفہ چاند رات کو اُن کے سسرال لے کر جاتے۔ البتہ یہ رسم اب بھی  جاری ہے جسے ’عیدی‘ کہا جانے لگا ہے۔
 چاند رات کو بازاروں میں سب سے زیادہ بھیڑ مہندی، چوڑیوں اور جوتوں کے اسٹال پر ہوتی ہے۔ یہاں خواتین اور بچوں کا ایک جم غفیر نظر آتا ہے۔ اکثر خواتین کپڑوں اور جوتوں سے ہم آہنگ چوڑیوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہیں۔ حالانکہ چوڑی کا وہ سیٹ، جو عام دنوں میں ۲۰۰؍ روپے کا بکتا ہے، چاند رات کو اس کی قیمت ۵۰۰؍ سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ خواتین چوڑیوں اور کڑوں کی ہم آہنگی میں سیٹ تو بنوا لیتی ہیں، لیکن پھر دُکانداروں کے منہ مانگے دام اُن کے چودہ طبق روشن کر دیتے ہیں۔ بازاروں میں مہندی کے بھی خصوصی اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ ان اسٹال پر کون مہندی کے علاوہ، لکڑی کے سانچوں پر بنے مہندی کے ڈیزائن کے ذریعے بھی نقش و نگار بنوائے جاتے ہیں۔ مائیں چھوٹی بچیوں کے ہاتھوں پر لکڑی کے سانچوں سے مہندی کے چھاپے بنوا لیتی ہیں۔ یوں بھی چھوٹی بچیاں زیادہ دیر تک ٹک کر نہیں بیٹھ سکتیں، اسلئے نفاست سے کون مہندی کے ڈیزائن اُن کی ہتھیلیوں پر بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جبکہ کچھ خواتین کون مہندی کے ساتھ رنگ رنگ گلیٹرز کے ذریعے بھی ہاتھوں پر خوبصورت ڈیزائن بنواتی ہیں۔ مہندی اور چوڑیوں کے بعد جن اسٹال پر سب سے زیادہ ہجوم ہوتا ہے، وہ جوتوں کے اسٹالز ہوتے ہیں کہ خواتین اور بچّوں کی چاند رات پر ایک اہم سرگرمی جوتوں کی خریداری بھی ہوتی ہے۔ عموماً خواتین عید سے قبل اپنی تمام خریداری مکمل کرلیتی ہیں، سوائے جوتوں کی خریداری کے۔ اس اہم کام کو چاند رات کیلئے صرف اسی خاطر رکھ چھوڑتی ہیں کہ چاند رات کو، رونق سے لطف اندوز ہونے کیساتھ کچھ چھوٹی چھوٹی چیزوں جیسے میچنگ جیولری، ہیئر بینڈ، کلپس وغیرہ کی بھی خریداری ہو جائے گی۔ درزی کی دُکانیں بھی چاند رات کو میلے کا منظر پیش کرتی ہیں۔ لوگ چاند کا اعلان ہوتے ہی درزیوں کی جانب دوڑ پڑتے ہیں کہ اپنے کپڑوں کی کچھ خیر خبر لی جا سکے۔ درزیوں کا ٹال مٹول اور گاہک کے صبر کا امتحان بسا اوقات صبح تک جاری رہتا ہے۔ یہ غالباً واحد دکان ہوتی ہے، جو صبح نمودار ہونے کے بعد ہی بند ہوتی ہے۔ خواتین چاند رات ہی پر عید کی دیگر اشیاء کی خریداری کے ساتھ خود کو سنوارنے کیلئے پارلرز بھی جاتی ہیں، جہاں فیشل، مینی کیور، پیڈی کیور، آئی بروز بنوانے کیساتھ خوبصورت ہیئر اسٹائلز کے ذریعے روزِ عید سب پر بازی لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہرحال، بازاروں کی یہ گہما گہمی صبح تک برقرار رہتی ہے اور پھر جیسے جیسے رات، صبح میں ڈھلنے کے قریب پہنچتی ہے، لوگوں کا ہجوم بھی کم ہونے لگتا ہے۔ بیشتر خواتین چاند رات کو ہی شیر خرمے، سویوں، دہی بڑے، چنا چاٹ اور قورمے، نہاری وغیرہ کے سب لوازمات تیار کرکے رکھ لیتی ہیں کہ روزِ عید، مہمانوں کی خاطر تواضع میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اسکے علاوہ چاند رات کو خواتین گھر کی آرائش و زیبائش میں بھی مصروف رہتی ہیں تاکہ عید کے دن اُن کی سلیقہ شعاری اپنا تعارف خود پیش کرے۔
بلاشبہ چاند رات ہر خاص و عام کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن چاند رات کو صرف اپنی خوشیوں کا محور بنانے کے بجائے بطورِ مسلمان ہمیں اپنے اردگرد موجود نادار و مستحق افراد کو بھی ان خوشیوں میں شریک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رات بھر بازاروں میں گھومنے پھرنے اور خریداری کرنے کے بجائے، اگر کچھ وقت شکرانے کے بطور نوافل ادا کرکے اپنے گناہوں کی مغفرت میں صرف کر دیئے جائیں، تو اس لیلۃ الجائزہ، انعام کی رات کو اللہ کریم کی بے پناہ عنایتیں بھی ہم پر نازل ہو کر ہماری عید کی خوشیوں کو دوبالا کردیں گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK