• Wed, 26 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گارڈ کا ’بابو‘ بیٹا اپنی جہد مسلسل سے’ڈی ایس پی‘ بنا

Updated: November 26, 2025, 4:22 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ضلع کورٹ میں ’بابو ‘کے طور پر ملازمت کرتے ہوئے۲۳؍سالہ تشار منڈاوی نے چھتیس گڑھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میںکامیابی حاصل کی ہے۔

Tushar Mandvi (black shirt) was given a rousing welcome upon reaching home after the results. Photo: INN
رزلٹ کے بعد گھر پہنچنے پر تشار منڈوی(سیاہ شرٹ) کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ تصویر:آئی این این
چھتیس گڑھ کے راج نند گاؤںکے رہنے والے ۲۳؍سالہ تشار منڈاوی جو اَب تک ضلع کورٹ میں بابو کے طور پر ملازمت کررہے تھے، اب ’ڈی ایس پی‘ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ دراصل یہ اسلئے ممکن ہوا کیونکہ تشار نےچھتیس گڑھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی حاصل ہے۔ تشار نے اپنی اس حصولیابی سے نہ صرف اپنے گاؤں اور ضلع کا نام روشن کردیا ہے۔ بلکہ ان کے محلے ممتا نگر کے ہررہنے والے ہر نوجوان کی آنکھوں میں خواب جگا دیے ہیں۔این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چھتیس گڑھ لوک سیوا آیوگ(سی جی پی ایس سی ۲۰۲۵ء) میں ڈی ایس پی کے عہدے پر منتخب ہونے والے راج نند گاؤں ضلع کے تشار مانڈوی ان لوگوں کے لیے مثال بن کر اُبھرے ہیں جو وسائل کی کمی کا بہانہ بنا کر ہمت ہار جاتے ہیں۔ان کے والد مقامی کورٹ میں جج کے گارڈ کے طور پر ملازمت کرتے ہیں۔ ہونہار سپوت کی کامیابی سے منڈوی خانوادہ میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 
رپورٹ کے مطابق تشار کو یہ کامیابی راتوں رات نہیں ملی ، بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی محنت اور جدوجہد شامل رہی۔ تشار ضلع عدالت میں اسسٹنٹ گریڈ۳؍کےملازم (بابو) کے طور پر کام کر رہے تھے۔نوکری کرتے ہوئے انہوں نے سی پی ایس سی کی تیاری کی جو آسان بالکل بھی نہیں تھی، لیکن تشار نے دن رات محنت کی اور اپنی پہلی ہی کوشش میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ان کی اس کامیابی نے نوجوانوں کو امید دی ہے کہ اگر جذبہ سچا ہو توکسی بھی منزل پر پہنچنا مشکل نہیں۔خیال رہے کہ سی جی پی ایس سی فائنل رزلٹ۲۱؍ نومبر۲۰۲۵ء کو جاری ہوا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس عدالت میں تشار کے والد سیکوریٹی گارڈکے طور پر کام کرتے ہیں، اسی اسی عدالت میں تشار اسسٹنٹ گریڈ۳؍کے طور پر کام کر رہے تھے۔ تشار کا کہنا ہے کہ والد کی جدوجہد نے انہیں راستہ دکھایا۔سرکاری نوکری کے باوجود، انہیں پڑھائی کے لیے بہت کم وقت ملتا تھا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK