گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
EPAPER
Updated: October 02, 2023, 1:25 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
زندگی کا درناک، عظیم اور اہم سانحہ
یہ ورق ۱۰؍ جون ۱۹۷۶ء کا ہے۔ میرا بی اے امتحان کا آخری پرچہ تھا۔ مَیں نے خوشی خوشی گھر لوٹ کر اپنی امی جان کو بتایا تھا اس وقت میری امی سخت بیمار تھی میں نے امی سے کہا، ’’آج میرا امتحان ختم ہوچکا ہے مَیں اب آپ کی خدمت بخوبی کرسکتی ہوں ۔‘‘ امی نے پوچھا کہ، ’’تمہارا رزلٹ کب آئے گا؟‘‘ مَیں نے کہا، ’’ایک مہینے کے بعد۔‘‘ امی نے مجھے دعا دی کہ، ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اچھے نمبرات سے کامیابی عطا کرے لیکن تمہارا رزلٹ آنے تک میں زندہ نہیں رہوں گی۔‘‘ میرے والد قریب بیٹھے ہوئے تھے (جو اَب اس دنیا میں نہیں ہیں ) ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ، ’’میرے مرنےکے بعد میری قبر پر ریحانہ کی کامیابی کی خبر آکر سنا دینا میری روح خوش ہو جائے گی....‘‘ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور مَیں بھی بے تحاشہ رونے لگی۔ انہوں نے مجھے اشارے سے رونے سے منع کیا۔ یہ تھی میری والدہ کی ممتا اور بے لوث محبت۔ میرا رزلٹ آنے سے پہلے ہی میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور مَیں ان کی دعا سے اچھے نمبرا سے امتحان میں کامیاب بھی ہوئی۔ والد نے ان کی قبر پر جا کر میری کامیابی کی خبر سنا دی۔ یہ میری زندگی کا دردناک، عظیم اور اہم سانحہ تھا۔ اور میری ڈائری کا اہم ترین ورق جسے میں تاعمر بھول نہیں پاؤں گی۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم ممبئی)
وہ کیسی عورتیں تھیں ....
عہدِ گزشتہ کی اُن ساری خواتین کے نام جو مجھے اپنی دادی نانی کی یاد دلاتی ہیں ۔ وہ کیسی عورتیں تھیں : جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں / جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن بناتی تھیں / صبح سے شام تک مصروف، لیکن مسکراتی تھیں / بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھکے وہ ملنے آتی تھیں / جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں / بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں / جو اپنی بیٹیوں کو سوئٹر بننا سکھاتی تھیں .... (طویل نظم کے چند اشعار)۔
خالدہ فوڈکر ( ٹورنٹو، کینیڈا)
استاد کی تحریر
میری ڈائری کا اہم ورق میرے استاذ کی لکھی ہوئی تحریر ہے۔ جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں : اب تمہاری حیات مستعار ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند ہونی چاہئے۔ تمہاری ہر ادا، رفتار و گفتار، عادات واطوار کتاب وسنت کی آئینہ دار رہے۔ اعمال صالحہ ہی سے سیرت وکردار پر نکھار آتی ہے لہٰذا تمہیں عملی زندگی میں کوتائی نہیں کرنی ہے اس لئے جس علم پر عمل نہ ہو وہ درخت بے ثمر کی مانند ہے۔ یاد رکھو عمل چھوڑ کر صرف باتیں بنا کر کوئی قوم دنیا میں ابھری نہیں ہے۔ عمل ہی وہ جوہر ہے جو انسان کو انسان بناتا اور دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ صلوٰۃ خمسہ کی پابندی اور تلاوت کلام پاک پر مداومت ضرور کرنا کیونکہ حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق سوال ہوگا۔ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے تمہاری ذات سے جن جن کے حقوق وابستہ ہوں ان کی ادائیگی کی فکر برابر دامن گیر رہے۔ بس انہی چند کلمات کیساتھ قلم کو روکتا ہوں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ: پھولوں کی طرح ہنس کے گزرتی رہے حیات/ غم آپ کے قریب نہ آئے خدا کرے! استاذک المخلص: احسان اللہ رحمانی (۳۰؍ جنوری ۲۰۲۱ء)
ناعمہ ارشد احمد (بلرام پور، یوپی)
میرے مقاصد ڈائری میں
میری ڈائری کا پہلا صفحہ میرے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں نے اپنے مقاصد کو قلم بند کئے ہیں جو مجھے ڈائری اٹھانے پر مقاصد کی یاد دہانی کراتے ہیں ۔ یہ مقاصد میرے لئے اندھیری غار میں روشنی کے ہالے کی طرح ہیں ۔ جب بھی میں غمگین ہوتی ہوں تو ان مقاصد کو دیکھ کر اداسی بھول کر نئے سرے سے کھڑی ہوتی ہوں ۔ سچ میں ڈائری سے بہترین کوئی دوست ہو ہی نہیں سکتا: تنقید نہ کر کے میرے ہنر کی اڑان پر/ تسلیم کر لیتی ہے یہ میرے ہر مقام کو/ آغوش میں لے کر مجھے لمحہ اداسی پر / ورقوں پر جذب کرتی ہے میرے آنسوؤں کو!
ام کلثوم محمد مستقیم شیخ (ممبئی، مہاراشٹر)
میری بیٹی بہادر ہے....
میری عمر ۸؍ سال تھی۔ گھر والوں کے ساتھ سورج واٹر پارک سے لوٹتے وقت ویرار ٹرین میں بھیڑ کی وجہ سے کئی ٹرین چھوڑنی پڑی پھر امی، میرے ساتھ ایک ٹرین میں چڑھنے کی کوشش کی لیکن مجھے چڑھا دیا خود نہیں چڑھ پائیں ۔ ٹرین چل پڑی۔ بھیڑ میں کسی کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اچانک ایک ہاتھ میری طرف آیا۔ مجھے اس عورت نے وسئی اُتارا اور ایک سیٹ پر بٹھا دیا۔ اگلی ٹرین سے ابّو آگئے مجھے بیٹھا دیکھ کر خوش ہوئے اور کہا میری بیٹی بہت بہادر ہے۔
صبرالنساء وارثیہ (وسئی، پال گھر)
بچیوں کے بچپن کی یادیں
میری ایک خاص عادت تھی کہ کچھ بھی اچھا پڑھا یا سنا اس کو فوراً ڈائری میں نوٹ کر لیتی تھی، شروعات شعر اور غزلوں سے ہوئی، دھیرے دھیرے میری ڈائری میں بہت کچھ جمع ہوتا گیا۔ میں اپنی بچیوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات نوٹ کر لیتی تھی کہ توتلی زبان میں کیا لفظ نکلتے تھے۔ کیونکہ ہر بات تو یاد نہیں رہ پاتی ہے۔ آج جب وقت کو پیچھے پلٹتی ہوں ڈائری کی صورت میں تو چہرے پر مسکراہٹ ٹھہر جاتی ہے۔ جب میں وہ وقت پھر سے محسوس کرتی ہوں لگتا ہے ابھی کل ہی کی تو بات تھی۔ یہ میری ڈائری اور میری زندگی کا ایسا خاص ورق ہے جسے میں بار بار پلٹ کر مسرت سے جینا چاہتی ہوں۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
ڈائری: یادوں کا روزنامچہ
۲۸؍ مئی ۱۹۷۵ء، یہ میری ڈائری کا سب سے اہم ورق ہے۔ اس دن میری شادی میرے ہم وطن دو چھوٹی بچیوں کے باپ سے استخارے کی بنیاد پر میرے بزرگوں نے طے کی تھی۔ میں ماموں کے یہاں رہ کر جی جی آئی سی بجنور سے تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ شادی سے کچھ دن پہلے میں شیر کوٹ چلی گئی تھی اپنے دادا کے یہاں ، وہیں سے میری رخصتی ہوئی تھی۔ یہ میری زندگی کا ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس امتحان میں مَیں کامیاب رہی اور آج تک سرخرو ہوں ۔ بغیر ماں کی بچیوں کی جی جان سے مَیں نے پرورش کی۔ آج میری بچیاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ امید ہے کہ اللہ جل شانہ مجھے اس کا عظیم اجر عطا فرمائینگے ان شاء اللہ۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
میرے خوابوں کا ذکر
میری ڈائری کا سب سے اہم ورق وہ ہے جس پر میں نے کچھ سال قبل اپنے کچھ خواب لکھے تھے۔ یہ میری زندگی کے وہ خواب تھے جو میری حیثیت، میرے وسائل اور میرے علم سے کہیں زیادہ بڑے تھے۔ اس وقت ان کا شرمندۂ تعبیر ہونا ناممکن سا لگتا تھا لیکن میں نے اسی کے نیچے ایک جملہ لکھا تھا کہ، ’’جن لوگوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا وہ بھی تو عام انسان ہی تھے۔‘‘ میں وقتاً فوقتاً اس ورق کو دیکھتی رہتی تھی۔ میں نے مسلسل اپنے خوابوں اور اپنے ہدف کو پانے کے لئے کام کیا۔ الحمدللہ اللہ نے مجھے ہربار کامیابی سے ہمکنار کیا۔ آج اپنا وہ ورق دیکھتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں ، مہاراشٹر)
بچپن کے دن
یہ وہ وقت ہے جس پر میری زندگی کے بہت حسین لمحے قلمبند ہیں ۔ اپنے والدین، بھائی، بہن اور دوستوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت۔ وہ وقت جو بے فکری سے بھر پور تھا۔ آج چاہ کر بھی ہم ان لمحوں کو دوبارہ نہیں جی سکتے۔ بھائی بہنوں کے ساتھ گزارے ہوئے حسین لمحے۔ چھوٹی موٹی لڑائیاں اس کے بعد صلح۔ رزلٹ کے روز اسکول کے باہر منتظر ابو۔ رزلٹ جیسا بھی ہو پارٹی پکی۔ بلڈنگ فرینڈز کے ساتھ رات میں بیڈ منٹن کی بازی۔ یہ وہ لمحے ہیں جو قیمتی اثاثہ ہیں ۔ آج ہم اپنے والدین کے گھر جاتے ہیں ۔ کبھی بھائی نہیں ہوتا تو کبھی اپی۔ وہ جو ایک عرصہ ہم نے ساتھ گزارا جس میں ہم صرف ہم تھے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
نواسی کی تکلیف
میری نواسی محض چھ ماہ کی تھی اور بیٹی ملازمت پیشہ تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو ایک خاتون کے پاس اس کے گھر سنبھا لنے کیلئے دے کر جاتی۔ اُن دنوں میں بھی ملازمت کرتی تھی۔ نصف دن کی چھٹی کرکے میں نواسی کو دیکھنے چلی گئی۔ جب اس خاتون کے گھر پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ بچی بلک بلک کر رو رہی ہے۔ فرش پر اس خاتون نےلیٹا رکھا تھا۔ جب میں نے اسے گود میں لی تو میری نظر اس کے پیروں پر پڑی اسے اگر بتی سے چٹکے دیئے گئے تھے۔ یہ تمام منظر دیکھ کر اشک بہنے لگے۔ شام کو اسے لے کر بیٹی کے گھر گئی اور اس کو تمام روداد سنائی۔ اسوقت وہ بیمار تھی اسلئے میں نے اپنی بھانجی کو اسے سنبھالنے کی ذمہ داری دی۔ اس طرح وہ پریشانی حل ہوئی اور بچی محفوظ ہاتھوں میں گئی۔ یہ بالکل حقیقت پر مبنی واقعہ ہے۔
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
ترغیبی نظمیں اور اشعار
میری ڈائری کا ہر صفحہ اہم ہے۔ ایسے میں کسی ایک ورق کو زیادہ اہم قرار دینا تھوڑا مشکل ہے۔ میری ڈائری کے اہم اوراق پر مَیں نے کچھ حوصلہ افزائی والی نظمیں اور اشعار قلمبند کئے ہیں جن میں میری اپنی کاوشوں کے علاوہ دیگر حضرات کے ذریعے لکھے گئے ترغیبی نظمیں ا ور اشعار بھی شامل ہیں ۔ وہ سمجھتے تھے کہ مَیں ٹوٹ کر بکھر جاؤں گا/ میرا دعویٰ ہے کہ میں اور پھر نکھر جاؤں گا! یہ شعر میری ڈائری میں لکھا ہوا ہے جو مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)
ڈائری اور ابا کی یاد
میری ڈائری کا سب سے اہم ورق وہ ہے جس میں مَیں نے ابا جان سے پوچھ پوچھ کر اپنا سلسلہ نسب لکھا، وہ جنوری مہینے کی ایک خوشگوار صبح تھی، جب ابا کے کمرے میں اپنے دادا، پر دادا کا حسب نسب، رہن سہن کی جانکاری حاصل کی۔ ابا دھیمی دھیمی مسکراہٹ کے درمیان مزے لے لے کر ہمیں معلومات فراہم کر رہے تھے۔ اس وقت کھٹی میٹھی یادوں کی جو چاندنی ابا کے چہرے پر عود آئی تھی وہ آج بھی میرے تصور میں محفوظ ہے۔
جب جب ڈائری کا وہ ورق میری نظروں سے گزرتا ہے۔ اپنے آبا و اجداد کو یاد کرکے رشتوں کی چاشنی کو محسوس کرتی ہوں ۔ وہ ورق اب تو اور بھی اہم ہوگیا ہے کہ اس سے ابا کی یاد بھی جڑی ہے۔ کئی معلومات ادھوری رہ گئی جسے درج کرنے کا دوبارہ موقع نہ مل سکا جس کا افسوس ہے کہ پھر اس کے بعد ابا سے زندگی نے وفا نہ کی۔
بنت شبیر احمد کملداھا (ارریہ، بہار)
حوصلہ افزاء باتیں
میری ڈائری کا سب سے اہم ورق وہ ورق ہے جس نے میری زندگی ہی تبدیل کر دی۔ میرا مستقبل ہموار کیا اور میرے کل کو بہتر بنانے کیلئے میرا دھیان، میری لگن اور میرے اندر کہیں غم جنون کو جگایا۔ وہ ورق میری زندگی کی عمارت کا وہ ستون ہے جس نے مجھے ہمت سے آگے بڑھنے اور محنت کرنا سکھا دیا۔ درحقیقت! بات یہ ہے کہ مَیں کسی امتحان میں حاضر ہوئی تھیں لیکن میری لاپروائی نے میری والدین کو شدید تکلیف پہنچائی مَیں اچھے نمبرات سے پاس نہیں ہو پائی۔ والدین کے چہرے پر پھیلی مایوسی نے میرے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ آج بھی وہ ورق میری زندگی کا سب سے اہم ورق ہے جو کبھی بھی مجھے رکنا نہیں سکھاتا۔
محدثہ (پورنیہ، بہار)
استانیوں کی نصیحت آموز باتیں
میری ڈائری کا ہر وہ ورق اہم ہے جس پر میری استانیوں کی تحریر رقم ہے اور میرے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ میری ڈائری پر میری استانیوں نے اپنی تحریر کو رقم کیا۔ میں ہمیشہ اپنی ڈائری کو سنبھال کر رکھوں گی اور میری ڈائری کے اُن تمام اوراق میں ایک ورق ایسا بھی ہے جس پر میری پسندیدہ استانی معلمہ ایم نے الفاظ کی صورت میں اپنی قلم سے میرے لئے نصیحت رقم کی ہے جب کبھی میں اپنی ڈائری کھولتی ہوں تو وہ ورق پہلے کھولتی ہوں تاکہ مجھے ہمیشہ ان کی نصیحت یاد رہے اور وہ ورق میرے لئے میری ڈائری کا سب سے اہم ورق تھا، ہے، اور رہے گا، ان شاءاللہ!
عالمہ ارقمی (اعظم گڑھ، یو پی)
بیٹے کی پیدائش پر والد کی نظم
میرے صاحب عمر اقدس جیلانی عرشی صاحب نے ایک نظم اپنے چھوٹے بیٹے عبدالرحمٰن جیلانی فارس کیلئے اس وقت لکھی جب وہ تقریباً تین چار سال کا تھا اور اپنی دادی کے ساتھ چھت پر گھوم رہا تھا۔ اس نظم کو میں نے اپنی ڈائری میں محفوظ کر لیا جو میرے لئے سب سے اہم ہے۔ دادی پوتے کی اس گفتگو کو میں نے اپنی ڈائری میں بحفاظت رکھے ہوئی ہوں ۔
ناز یاسمین سمن (پٹنه، بہار)
حج کی سعادت اور دعا
۱۹۹۹ء سال میں حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ ۲۶؍ مارچ جمعہ کا حج تھا۔ ہم آخری فلائٹ سے ۱۹؍ مارچ ۱۹۹۹ء کو جدہ پہنچے تھے۔ رات ۳؍ بجے مکہ پہنچ کر عمرہ ادا کرنے حرم پہنچ کر جیسے ہی کعبہ شریف پر نظر پڑی دل بے قابو ہوگیا آنسو تھمتے نہیں تھے۔ صرف ایک دعا سچے دل سے نکل پڑی تھی، ’’مالک مجھے مستجاب الدعا بنا دے میری کوئی دعا تیرے دربار سے رد نہ ہو۔‘‘ الحمدللہ اس کے بعد میری ہر دعا دیر سویر قبول ہوئی ہے۔
شگفتہ راغب (نیرول، نوی ممبئی)
ڈائری بہترین ساتھی
میری ڈائری کا سب سے اہم ورق میری زندگی کی حقیقت کی عکاسی ہے اور یہ میرے لئے ایک قیمتی اور پرانا دوست ہے جو میری ہر چیز کا حصہ بنتا ہے۔ اس کے ذریعے میں خود اپنی زندگی کی کہانی کو پیش کرتی ہوں اور اپنے تعبیرات کے ذریعے خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہوں ۔ ڈائری میری تمام باتوں کو سنتی ہے، میری تمام خواہشوں کو جانتی ہے، اور میرے دل کی باتوں کو سمجھتی ہے۔ اس پر درج باتیں میری زندگی کا حصہ ہیں۔
زینب پٹیل (شہر کا نام نہیں لکھا)
ابو ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر جا چکے تھے....
۲۶؍ اکتوبر کا دن تھا۔ صبح جب سو کر اٹھی تو پتہ نہیں کیوں دل بوجھل سا تھا۔ طبیعت میں عجیب سی کسلمندی تھی۔ کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن خاتون خانہ ہونا کوئی آسان بات نہیں لہٰذا دل نہ چاہتے ہوئے بھی سارے کام انجام دیئے۔ بچوں کو نزلہ زکام ہو رہا تھا تو سوچا شام کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گی۔ مغرب کی نماز کے بچوں کو لے کر کلینک چلی آئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا دل بہت بھر بھر کے آرہا تھا۔ انتظار گاہ میں بیٹھی تھی کہ اچانک میرے شوہر کا فون آیا، انہوں نے بتایا کہ میرے ابو کی طبیعت خراب ہے تو ہمیں فوری وہاں جانا ہوگا۔ میرے دل میں بے تحاشہ دھکڑ پکڑ شروع ہوگئی یوں لگ رہا تھا دل پسلیوں کو توڑ کر باہر آجائے گا۔ مجھے نہیں پتہ کس طرح راستہ کٹا اور ہم میری امی کے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی میرے پیارے ابو ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر جا چکے تھے۔ وہ دن میری زندگی کا سب سے زیادہ غمگین دن تھا۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
میری پہلی غزل
ڈائری ہماری زندگی کی وہ کتاب ہے جس کے مصنف ہم خود ہیں ۔ ہمارے کچھ جذبات جو نہ دوسرے سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہم انہیں سمجھا سکتے ہیں ۔ میری ڈائری کے ہر ورق میرے لئے اہم ہے۔ البتہ ایک ورق میرے لئے خاص ہے جس میں مَیں نے اپنی پہلی غزل لکھی تھی۔ جس کا موضوع حالاتِ حاضرہ پر تھا۔ یہ غزل میری محنت کا ثمرہ تھی۔ اب چونکہ وہ پہلی تھی اسلئے اس میں کئی خامیاں تھیں لیکن یہ غزل جذبات کی رو میں بہہ کر لکھی گئی تھی اسلئے فن کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن اب بھی اس غزل کا ڈائری میں موجود ہونا، میری ڈائری کی رونق دوبالا کر دیتا ہے۔
انصاری قنوت وکیل احمد (بھیونڈی، تھانے)
.... اور میری لئے بھی تالیاں بجیں
میری ڈائری کا اہم ورق وہ دن ہے، جب میں ۱۱؍ ویں جماعت میں تھی اور اختیاری مضمون سائنس تھا۔ علم حیاتیات کے استاد ہی کلاس ٹیچر تھے۔ انہوں نے پہلے دو اسباق پڑھائے اور اس پر یونٹ ٹیسٹ لیا، جس میں مجھے بیس میں سے تیرہ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ کچھ طلبہ ایسے تھے جنہیں سولہ، سترہ، اٹھارہ نمبرات ملے۔ ان سب کی سر نے بہت تعریف کی اور پوری کلاس نے تالیاں بجائیں ۔ چونکہ میرا شمار ذہین طلبہ میں نہیں ہوتا تھا اسلئے مجھے احساس ہوا کہ میرے لئے تالیاں نہیں بجیں ۔ پس عزم کیا کہ اب تالیاں میرے لئے بھی بجیں گی اور الحمدللہ ایسا ہوا۔ اپنی محنت، لگن سے اپنے عزم کو پورا کیا۔ اب جب کبھی حوصلے کی کمی محسوس کرتی ہوں تو ڈائری کے اس ورق کو پڑھتی ہوں ۔
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)
۱۸؍ جون ۲۰۱۹ء، ڈائری کے صفحات سے
جب ایسا وقت آئے ساری ہمت، حوصلہ ختم ہوچکا ہو، ذہن بالکل خالی اور دل باغی ہوچکا ہو۔ سمجھ نہ آرہا ہو آخر کس بنا پر بے چینی وجود سے چمٹی ہے۔ اور آپ اپنی اس کیفیت کو لفظوں میں بیان بھی نہیں کر پارہے ہو تب اس رب کی بارگاہ میں جاؤ۔ سجدہ ریز ہوکر اپنے سارے ان کہے الفاظ، ساری چیخیں اس کے سامنے رکھ دو.... اور کہو.... اﷲ میں ٹوٹ چکی ہوں لیکن اس دنیا کے سامنے مجھے بکھرنے نہ دینا۔ اﷲ تو میرے بکھرے وجود کو سمیٹ کر اس میں سکون بھر دے۔ میں صرف تیرے سہارے کی طلب گار ہوں۔
شبنم فاروق (گوونڈی، ممبئی)
پریوں جیسی بیٹی میری!
یہ وہ ورق ہے جس کو کھولتے ہی میرے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ وہ دن، وہ تاریخ وہ وقت یادگار ہے میرے لئے۔ وہ دن ہے ۳۰؍ دسمبر ۱۹۹۶ء ۔ جی ہاں ! اور وقت ہے شام کے ساڑھے ۷؍ بجے، دن پیر۔ یہ وہ دن ہے جب میری بیٹی نے اس دُنیا میں آکر میری سونی گود آباد کر دی تھی۔ اسے دیکھتے ہی ساری تھکن، درد و اذیت سب بھول گئی تھی۔ اس کا گلاب سا چہرہ، پیاری پیاری آنکھیں .... اللہ ناقابلِ بیان.... پریوں جیسی بیٹی میری۔
ڈائری میں یہ نوٹ کیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ بے حد اہم ورق ہے یہ میری زندگی کا۔
ناہید رضوی (جوگیشوری، ممبئی)
بھانجی کی پیدائش اور پریم دھون کا گیت
میری ڈائری کا وہ ورق مجھے سب سے پیارا ہے جسے میں نے اس وقت لکھا تھا جب مجھے اپنی پیاری بھانجی کے اس دنیا میں آنے کی نوید ملی تھی۔ وہ دن بھی کتنا خوبصورت تھا۔ خواہشوں اور آرزوؤں کی تکمیل، گھر میں ننھے منے وجود کی آمد اگرچہ یہ کلی دوسرے گھر میں کھلی تھی مگر اس کی خوشبو نے ہمارے گھر کو بھی معطر کیا تھا۔ ہمارے گھر کے سونے در و دیوار اس ننھی پری کی قلقاریوں سے گونج اٹھے تھے۔
پریم دھون کا یہ خوبصورت گیت اپنی ڈائری میں اس کے نام کیا ہے:
او ننھے سے فرشتے/ تجھ سے یہ کیسا ناطہ/ کیسے یہ دل کے رشتے/ تجھے دیکھنے کو ترسیں کیوں ہر گھڑی نگاہیں / بے چین سی رہتی ہیں تیرے لئے یہ بانہیں / مجھے خود پتہ نہیں ہے مجھے تجھ سے پیار کیوں ہے/ او ننھے سے فرشتے!
سحر رحمانی (بنارس ، یوپی)
اگلے ہفتے کا عنوان: بدگمانی سے اِس طرح نمٹا جاسکتا ہے۔ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134