Inquilab Logo Happiest Places to Work

ساس بہو کا رشتہ ماں بیٹی جیسا ہوسکتا ہے، ہونا چاہئے!

Updated: September 27, 2023, 12:50 PM IST | Arifa Khalid Sheikh | Mumbai

ذرا سی لغزش ساس اور بہو کے درمیان غلط فہمی پیدا کرسکتی ہے۔ زبان میں اگر مٹھاس ہو تو کڑوی بات بھی میٹھی لگتی ہے۔ غلطی کس سے نہیں ہوتی۔ اگر ساس یہ بات سمجھ لے تو معاملہ رفع دفع ہو سکتا ہے۔ سسرال میں لڑکی سے اگر خطا ہو جائے تو اسے اپنی غلطی مان لینے میں تامل نہیں کرنا چاہئے۔

Mother-in-law relationship is like wind and water, the presence of both will keep flowers blooming in the courtyard and it will always be fragrant. Photo: INN
ساس بہو کا رشتہ ہوا اور پانی کی طرح ہوتا ہے، دونوں کی موجودگی سے گھر آنگن میں پھول کھلتے رہیں گے اور وہ ہمیشہ مہکتا رہے گا۔ تصویر:آئی این این

عام طور پر ہمارے معاشرے کا یہ خاصا رہا ہے کہ اس نے مثبت کے ساتھ منفی خیالات کو بھی قبول کیا ہے۔ جہاں اس میں اچھائی کا غلبہ رہا ہے وہیں بُرائی اور غلط رجحانات بھی اپنی جگہ بناتے رہے ہیں ۔ اسی منفی رجحان کے تحت اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ ساس ماں نہیں ہوتی اور بہو کبھی بیٹی نہیں بن سکتی جبکہ یہ سچائی نہیں ہے۔
سوچ کا فرق: جس طرح سے مائیں اپنی بیٹیوں سے پیار کرتی ہیں ۔ اُسی طرح ساسیں بھی بہوؤں سے پیار کرتی ہیں ۔ اِس کے پیچھے اپنے بیٹوں کی خوشی اور اُن کا گھر آباد کرنے کا وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اُنہیں بیاہ لاتی ہیں ۔ دوسری طرف بہوئیں بھی ساسوں کو ماں سمجھتی ہیں کیونکہ اُن کی تربیت اسی نہج پر ہوتی ہے۔ والدین اپنی لڑکیوں کی تربیت اِس انداز میں کرتے ہیں کہ وہ پرائے گھر کو اپنا گھر سمجھیں اور اس کے مکینوں کو پیار محبت سے اپنا بنالیں ۔ ایسے میں ساس کو ماں سمجھنا والدین کی اولین تعلیمات میں شامل ہوتا ہے۔ مغالطہ تب شروع ہوتا ہے جب ساس کچھ کہے اور بہو کچھ کا کچھ سمجھے۔
غلط بیانی: اکثر لڑکیوں کو سسرال سے ڈرایا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ ماں کے گھر تو کسی طرح چل (گزر بسر ) گیا۔ سسرال جاؤگی تب پتہ چلے گا۔ یہ اور اِس طرح کی باتیں نو خیز لڑکیوں کو شادی اور سسرال سے خائف کرتی ہیں ۔ حد تو اُس وقت ہوتی ہے جب اُن سے یہ کہا جاتا ہے کہ سسرال لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے کیونکہ ساس ماں نہیں ہوتی جو تمہاری غلطیوں پر پردہ ڈالے گی۔ یہ وہ ضربیں ہوتی ہیں جو اُن کے معصوم اذہان کو چوٹ پہنچاتی ہیں اور پھر رہی سہی کسر ساس کے منفی کردار کی تصویر کشی کرکے پوری کر دی جاتی ہے۔
حقیقت بیانی: سسرال لڑکیوں کے لئے نئی جگہ ہوتی ہے۔ ہر گھر کے طور طریقے ریت رواج الگ ہوتے ہیں ۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ لڑکی کا سسرال اُس کے میکے کی طرح ہو۔ پھر بھی بہوئیں اپنے حسن ظن سے اپنی سی کوشش کرکے سب کا دِل جیتنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں نئے گھر نئے ماحول میں ڈھلنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ آنے والی لڑکی کو موقع دیا جائے کہ وہ سسرالی ماحول میں رچ بس جائے۔ لیکن بے صبر ذہنیت کے حامل افراد ہر فاصلے جلد بازی میں طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اِس میں سب سے پہلا کردار ساس کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
انتشار: شروع شروع میں سب ٹھیک چل رہا ہوتا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے رشتوں میں بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ اِس بے اعتنائی اور لاتعلقی کی وجہ تو بہت معمولی ہوتی ہے مگر اثرات برے اور بھیانک ہوتے ہیں ۔ ساس کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وقت اور حالات کے تحت ساس نئی بہو سے یہ امید لگائے رہتی ہے کہ میری بہو میری ہی طرح گھر کی روایت برقرار رکھے گی۔ ساس جو اپنے کنبے کو برسوں سے جوڑے رکھتی ہے، بہو میں وہی گن دیکھنا چاہتی ہے اور اُن ہی صلاحیتوں کو تلاش کرتی ہے جس سے کہ اس کا دولت خانہ جنت نشاں بنا رہے لیکن وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ اُس کا معیار، رعب و دبدبہ بھی برقرار رہے۔ ایسے موقعوں پر بہو کی سمجھداری کا ایک طرح سے امتحان ہوتا ہے۔ یہاں اُس کی حکمتِ عملی اور سوجھ بوجھ رشتوں کو غذا فراہم کرتی ہے اور ساس کی دلی و ذہنی کیفیات کے مد نظر اُن کے دل میں جگہ بنا سکتی ہے۔ 
وجہ: آج کی بہو کل کی ساس ہوتی ہے۔ آج نہیں تو کل وہی گھر کی مکھیا ہوں گی اور یہی معاشرتی نظام اُنہیں بھی سنبھالنا ہوگا۔ اسی نظریے کے تحت ساسیں بہوؤں کی ذرا سی غفلت و کوتاہی برداشت نہیں کرتیں اور وہی طریقہ اپناتی ہیں جو طریقہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ روا رکھتی آئی ہیں ۔ وہ بھول جاتی ہیں کہ سامنے بہو (پرائی بیٹی) ہے۔ جبکہ یہ باتیں بہوؤں کی سمجھ میں نہیں آتیں اور وہ ناراض ہو جاتی ہیں ۔ چونکہ ساس، بہو اور بیٹی میں کوئی تمیز نہیں کرتی اس لئے برملہ اپنی خفگی کا اظہار کرتی ہے جبکہ بہو یہی بات سمجھ نہیں پاتی اور برا مان جاتی ہے۔
احتیاط: ایسے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرا سی لغزش ساس اور بہو کے درمیان غلط فہمی پیدا کرسکتی ہے۔ زبان میں اگر مٹھاس ہو تو کڑوی بات بھی میٹھی لگتی ہے۔ غلطی کس سے نہیں ہوتی۔ اگر ساس یہ بات سمجھ لے تو معاملہ رفع دفع ہو سکتا ہے۔ سسرال میں لڑکی سے اگر خطا ہو جائے تو اول تو اسے اپنی غلطی مان لینی چاہئے۔ دوسرے اگر ساس کچھ کہے تو اُسے اِس انداز سے لیں گویا اُس کی اپنی ماں کہہ رہی ہیں اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ اِس وقت اُس کی اپنی امّی ہوتیں تو اُن کا طریقہ بھی ایسا ہی کچھ ہوتا۔ اِدھر ساس کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ اگر اِس قسم کی غلطی اُس کی اپنی بیٹی سے سرزد ہوئی ہوتی تو وہ کیا کرتیں ؟ آج کل بیٹیاں بھی روکھا پھیکا مزاج برداشت نہیں کرتیں ۔ اسی طرح سے متبادل میں اپنوں کو رکھ کر سوچیں تو ساس کا اندازِ تخاطب کچھ اور ہوگا اور بہو کا نظریہ بھی یکسر جدا ہو گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK