• Thu, 06 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ: اسرائیل نے انسانی زندگی کے ’’۳۰؍ لاکھ سے زائد سال‘‘ ضائع کردیئے

Updated: November 04, 2025, 2:13 PM IST | Gaza

میڈیکل جریدے دی لانسیٹ میں شائع ایک تازہ تحقیقی مطالعے کے مطابق اکتوبر ۲۰۲۳ء سے شروع جنگ کے دوران غزہ پٹی میں ’’انسانی زندگی کے کم از کم ۳۰؍ لاکھ ۸۲؍ ہزار ۳۶۳؍ سال‘‘ (life-years) ضائع ہو چکے ہیں۔محققین نے واضح کیا کہ یہ اعداد و شمار محتاط اندازے ہیں کیونکہ ان میں تباہ شدہ انفراسٹراکچر، خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی بندش سے ہونے والی اموات شامل نہیں ہیں۔

Picture: X
تصویر: ایکس

دی لانسیٹ میں شائع حالیہ تحقیقی مضمون میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اکتوبر ۲۰۲۳ء سے ۳۱؍ جولائی ۲۰۲۵ء تک کم از کم ۳۰؍ لاکھ ۸۲؍ ہزار ۳۶۳؍ زندگی کے سال ضائع ہوئے ہیں۔ یہ مضمون غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار پر لکھا گیا ہے جس کے مطابق اس عرصے کے دوران ۶۰؍ ہزار ۱۹۹؍  فلسطینی ہلاک ہوئے۔ تحقیق کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ اس عرصے میں ۱۵؍ لاکھ ۷؍ ہزار ۹۸۴؍ زندگی کے سال خواتین کی طرف سے اور ۲۶؍ لاکھ ۹۷۳؍ زندگی کے سال مردوں کی طرف سے ضائع ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ ۱۵؍ سال سے کم عمر بچوں میں ایک ملین سے زائد زندگی کے سال ضائع ہونے کا تخمینہ ہے، جو اس انسانی بحران کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ بندی: اسرائیل نے ۴۵؍ فلسطینیوں کی لاشیں واپس کیں

محققین سیمی ظہران (کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی) اور غسان ابو ستحہ (امریکن یونیورسٹی بیروت) نے کہا کہ یہ محدود اندازے ہیں کیونکہ صرف فوجی کارروائیوں سے براہِ راست ہونے والی اموات کو شمار کیا گیا ہے اور ان میں وہ اموات شامل نہیں جن کا تعلق خوراک اور پانی کی قلت، طبی سہولیات کی خرابی یا تباہ شدہ انفراسٹرکچر سے ہے۔ تحقیق یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس عرصے کے دوران غزہ میں متوقع عمر میں نمایاں کمی ہوئی ہے: پچھلی تحقیق میں یہ دکھایا گیا ہے کہ صرف پہلے ۱۲؍ ماہ کے دوران متوقع عمر میں ۳۰؍ سال سے زائد کمی واقع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: یوپی: امام پر مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز مقررہ حد سے زیادہ رکھنے پر مقدمہ درج

اس کے ساتھ یہ اعداد و شمار اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ جنگ کے براہِ راست اثرات کے علاوہ، ادویات، تباہ شدہ اسپتال، خوراک کی قلت اور پانی کی رسد میں رکاوٹیں بھی انسانی زندگی میں شدید نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ محققین نے کہا کہ اگر ان عوامل کو بھی شامل کیا جائے تو مجموعی نقصان اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ 
نئی معلومات کے مطابق، جنگ کے اس طویل عرصے کے دوران غزہ کے زیرِ حراست اسپتالوں، طبی عملے اور بنیادی ڈھانچے کو شدید متاثر کیا گیا ہے، اور بچوں کے غذائی بحران نے بھی انسانی نقصان کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک حالیہ مطالعہ بتاتا ہے کہ غزہ میں پانچ سال سے کم عمر ۵۴؍ ہزار ۶۰۰؍ سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں ۱۲؍ ہزار ۸۰۰؍ شدید کمزوری میں مبتلا ہیں۔ تحقیق کا مقصد عالمی سطح پر توجہ مبذول کروانا ہے کہ غزہ میں جاری انسانی بحران محض ہلاکتوں کی تعداد تک محدود نہیں بلکہ کئی نسلوں کیلئے زندگی کے سال اور امکانات کا زوال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ جنگ نے صحت،معاش، اور انسانی مستقبل پر کس قدر منفی اثرات چھوڑے ہیں۔اگرچہ بین الاقوامی تنظیمیں اور امدادی ادارے اس بحران کو بارہا اجاگر کر چکے ہیں، مگر اس تحقیق نے جدید شماریاتی انداز سے انسانی نقصان کا پیمانہ وسیع کیا ہے اور اس کی سنگینی کو واضح بیان کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK