کرناٹک کے ایک سرکاری اسکول میں ایک دلت خاتون کے ہیڈ باورچی بننے کے بعد تمام طلبہ اسکول سے منتقل ہو گئے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 26, 2025, 7:19 PM IST | Bangluru
کرناٹک کے ایک سرکاری اسکول میں ایک دلت خاتون کے ہیڈ باورچی بننے کے بعد تمام طلبہ اسکول سے منتقل ہو گئے ہیں۔
کرناٹک کے ضلع چماراجناگڑ میں ایک سرکاری اسکول کے تقریباً تمام طلباءاس وقت کسی اور اسکول میں منتقل ہو گئے، جب ایک دلت خاتون کو ہیڈ باورچی مقرر کیا گیا۔ یہ واقعہ ہومما گاؤں کے گورنمنٹ ہائر پرائمری اسکول میں پیش آیا۔ اسکول میں اس سال۲۲؍ طلباء داخل تھے، لیکن اب صرف ایک طالب علم باقی رہ گیا ہے۔ ۲۱؍ طلباء کے والدین نے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ (ٹی سی) لے لیے ہیں یا ان کے لیے درخواست دی ہے، اور اپنے بچوں کو دوسرے اسکولوں میں منتقل کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب ایک دلت خاتون کو ہیڈ باورچی بنایا گیا۔ بہت سے والدین اس تقرری سے ناخوش تھے اور مبینہ طور پر اپنے بچوں کو اسکول میں دوپہر کے کھانے (مڈ ڈے میل) سے روک دیا۔ جس کے بعد ۲۲؍ میں سے صرف۷؍ طلباء ہی کھانا کھاتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: گجرات ہائی کورٹ نےمسلم تاجر کو ہندو اکثریتی علاقے میں دکان کھولنے سے روکنےکوغلط بتایا
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بچوں کو واپس لینے کی اصل وجہ ذات پات کا تعصب تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے ایک دلت خاتون کے بنائے ہوئے کھانے کو کھائیں۔ سوشل میڈیا پر خبر پھیلنے کے بعد، ضلعی حکام بدھ کے روز اسکول پہنچ گئے۔ ان میں چماراجناگڑ کے ایس پی بی ٹی کویتھا، ضلع پنچایت کے سی ای او مونا روٹ، اور ایجوکیشن آفیسر رام چندر راجے اُرس شامل تھے۔ والدین نے سی ای او مونا روٹ کو بتایا کہ انہوں نے اپنے بچے اسکول میں ’’معیارِ تعلیم کی کمی‘‘ کی وجہ سے نکالے ہیں۔ تاہم، حکام نے کہا کہ معاملہ زیادہ پیچیدہ لگتا ہے۔ روٹ نے کہا،’’ ابتدائی رپورٹ تعلیمی معیار کو وجہ بتاتی ہیں، لیکن اب ہمیں مختلف کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ کچھ والدین کو باورچی کی ذات سے مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ہم اسے سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ایس پی کویتھا نے کہا، ’’ہم مکمل تفتیش کریں گے۔ اگر اچھوت پن یا ذات پر مبنی امتیاز پایا گیا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘حکام آٹھ والدین کو اپنے بچوں کو دوبارہ داخل کرانے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن زیادہ تر طلباء اب بھی باہر ہیں۔ حکام نے بہتر اساتذہ تعینات کرنے اور اسکول کی حالت بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اسکول میں اب بھی دو اساتذہ موجود ہیں اور صرف ایک طالب علم حاضری دے رہا ہے۔ اس بچے کے والدین نے بھی ٹرانسفر کی درخواست دے دی ہے۔