انڈونیشیا نے غزہ میں تعیناتی کیلئے ۲۰؍ ہزار فوجی تیار کر لئے، ساتھ ہی اس امن فوج کے اختیارات کیلئے دو راستے متعین کئے ہیں ، جن میں امریکہ کی حمایت یافتہ اقوام متحدہ کا مسودہ بھی شامل ہے۔
EPAPER
Updated: November 15, 2025, 7:06 PM IST | Jakarta
انڈونیشیا نے غزہ میں تعیناتی کیلئے ۲۰؍ ہزار فوجی تیار کر لئے، ساتھ ہی اس امن فوج کے اختیارات کیلئے دو راستے متعین کئے ہیں ، جن میں امریکہ کی حمایت یافتہ اقوام متحدہ کا مسودہ بھی شامل ہے۔
انڈونیشیا نے غزہ میں تعیناتی کے لیے۲۰؍ ہزار فوجی تیار کر لیے ہیں، وزیر دفا ع جعفری شمس الدین نے اس بات کا اعلان کیا۔سرکاری خبر رساں ادارے انٹارا کے مطابق، شمس الدین نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس فورس، جس میں طبی ٹیمیں اور انجینئر شامل ہیں، کو ضروری بین الاقوامی منظوری ملنے کے بعد تعینات کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تعیناتی کی منظوری کے لیے جکارتہ دو ممکنہ راستوں پر کام کر رہا ہے: ایک ’’اقوام متحدہ کے تحت‘‘ اور دوسرا ’’امریکی صدرکے پیش کردہ امن منصوبے کی بین الاقوامی منظوری کے تحت۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ دوسرے متبادل کے لیے سربراہان مملکت کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی شمولیت اور معاہدوں کی ضرورت ہوگی۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ، ’’اگر عرب ممالک، یعنی سعودی عرب، اردن، مصر، قطر اور متحدہ عرب امارات ، انڈونیشیا کی شمولیت کیلئے رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو انڈونیشیا کو اس میں شامل ہونے پر خوشی ہوگی۔ ‘‘ شمس الدین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس پر اسرائیل کی منظوری بھی درکار ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ منصوبہ غزہ میں جنگ ختم کرنے کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ۲۰؍ نکاتی تجویز کے پہلے مرحلے سے مطابقت رکھتا ہے، جس کے تحت۱۰؍ اکتوبر سے مرحلہ وار جنگ بندی نافذ العمل ہوئی تھی۔دریں اثناء شمس الدین کے یہ تبصرے اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کے جکارتہ کے دورے کے دوران سامنے آئے، جہاں انہوں نے غزہ پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے انڈونیشیائی صدر پرابووو سبیانتو سے ملاقات کی۔ بعد ازاں وزیر نے کہا کہ انڈونیشیا اور اردن غزہ کی پٹی میں ہونے والی پیش رفت پر معلومات کا تبادلہ کریں گے۔اردنی مسلح افواج کے سربراہ یوسف احمد الحنیاتی سے ملاقات کے بعد، شمس الدین نے کہاکہ ’’ہم مشترکہ طور پر تازہ ترین معلومات کے تبادلے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیں گے۔ غزہ سے اردن قربت کو دیکھتے ہوئے، ہم زمینی حالات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیےاردن کے ساتھ تعاون بہتر حکمت عملی ہوگی۔‘‘انہوں نے زور دیا کہ جکارتہ کو اس معلومات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ اپنی امن فوج کی ممکنہ تعیناتی کی تیاری کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ انڈونیشیا اور اردن وسیع تر دفاعی تعاون کے حصے کے طور پرقومی ہتھیار ساز کمپنی’’ پی ٹی پنداد ‘‘اور اردن کی’’ ڈیپ الیمنٹ‘‘ کے درمیان شراکت داری کے ذریعے ڈرون ٹیکنالوجی پر بھی مل کر کام کریں گے۔