۱۱؍ ویں جماعت میں زیر تعلیم دھولیہ کی دلیر لڑکی اب تک تقریباً ڈھائی ہزار سانپوں کو پکڑ کر محفوظ طریقے سے جنگل چھوڑ چکی ہے، ساتھ ہی سانپوں کی نسل پر ریسرچ بھی کر رہی ہے۔
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 4:07 PM IST | Ismail Shad | Dhule
۱۱؍ ویں جماعت میں زیر تعلیم دھولیہ کی دلیر لڑکی اب تک تقریباً ڈھائی ہزار سانپوں کو پکڑ کر محفوظ طریقے سے جنگل چھوڑ چکی ہے، ساتھ ہی سانپوں کی نسل پر ریسرچ بھی کر رہی ہے۔
عام طور پر لوگوں کیلئے سانپ خوف اور دہشت کی علامت ہوتےہیں ۔سانپ کا نام سن کر ہی لوگوں کے پسینہ چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سانپوں لپک کر پکڑ لیتے ہیں اور کسی انسان کو گزند پہنچنے سے بھی بچاتے ہیں اور ان سانپوں کی حفاظت کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ شہر دھولیہ کے گھڑیال والی مسجد علاقے میں رہنے والی ۱۷؍ سالہ دلیر لڑکی بے بی ثانیہ انصاری بھی انہی چنندہ لوگوں میں سے ہے جو سانپوں کوپکڑنے اور انھیں محفوظ جگہ پر چھوڑ کر آنے میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔اس کا یہ کارنامہ نہ صرف دلچسپ بلکہ متاثر کن بھی ہے۔عام طور پر سانپ پکڑنا مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے لیکن ثانیہ کی مہارت اور ہمت نے اس مفروضے کو توڑ دیا ہے۔
بے بی ثانیہ کے والد انور حسین انصاری میونسپل کارپوریشن میں ملازم ہیں۔ وہ خود کئی سال سے سانپ پکڑ نے کا کام کررہے ہیں۔ انھوں نے سیکڑوں سانپوں کو پکڑ کر بحفاظت جنگل میں چھوڑ کر سانپوں کی جان بچائی ہے۔ انور حسین انصار نے انقلاب کو بتایا کہ ان کی بیٹی ثانیہ نے دو سال میں تقریبا ڈھائی ہزار مختلف نسلوں کے سانپ شہر کے مختلف علاقوں سے پکڑے ہیں اور انہیں شہر سے دور للینگ گھاٹ کے جنگل میں چھوڑ ا ہے۔ انور حسین نے اپنی بیٹی کے اس دلیرانہ اقدام پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ثانیہ دھولیہ ضلع میں واحد مسلم لڑکی ہے جو یہ خطرناک کارنامہ انجام دے رہی ہے ۔انور حسین نے مزید بتایا کہ ثانیہ ۱۰؍ سال کی تھی تب سے ان کے ساتھ آتی تھی۔والد اور بھائی ندیم انصاری سے ثانیہ نے سانپ پکڑنے کا طریقہ سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ انور حسین نے بتایا کہ انھوں نے ثانیہ کو سانپ پکڑنا سکھایا ۔ صرف ۱۱؍ سال کی عمر میں اس نے پہلا سانپ بڑی دلیری کے ساتھ پکڑا تھا۔ہمت کھلی تو پھر اس نے ناگ بھی پکڑا۔ آج وہ ہر نسل کے خطرناک سانپ بہ آسانی پکڑ لیتی ہے۔
آج دھولیہ شہر اور اطراف کے دیہاتوں میں کہیں بھی سانپ نظر آجائے تو لوگ فوری طور پر ثانیہ سے رابطہ کرتے ہیں۔ زہریلے اور خطرناک سانپوں کو مرغی کے بچے کی طرح پکڑنے والی بے بی ثانیہ نے نمائندہ انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہر کی کملا بائی اجمیراہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے گیارہویں سائنس میں زیر تعلیم ہے۔ اس نے بتایا کہ سانپوں کی نسل کے یوں تو سیکڑوں سانپ پکڑے ہیںجن میں سب سے خطرناک منیار سانپ جو آدھی رات میں نکلتا ہے بھی شامل ہے ۔ یہ خطرناک سانپ جامنی رنگ کا ہوتا ہے۔رات کے اندھیرے میں اسے پکڑنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا ہوتا ہے۔لیکن والد کے ذریعے سیکھے ہوئے فن کی بدولت وہ منیار سانپ کو بہ آسانی پکڑ لیتی ہے۔ثانیہ نے بتایا کہ اس نے اب تک ناگ ، منیار ،دھامن اور دیگر نسل کے سانپوں کو پکڑ کر بحفاظت جنگل میں چھوڑ دیا ہے۔ثانیہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ مختلف نسل کے سانپوں پر ریسرچ بھی کررہی ہے۔ سانپوں کی نسل کی معلومات کتابوں ،گوگل اور یوٹیوب کے ذریعے حاصل کر رہی ہے ۔ڈسکوری اور دیگر چینلوں پر بھی وہ سانپوں کی معلومات حاصل کرتی ہے۔ثانیہ کو شہر کے علاوہ پاس پڑوس کے دیہاتوں سے بھی لوگوں کے گھروں میں سانپ ،ناگ نکلنے کے فون آتے ہیں ۔پہلے وہ والد اور اپنے بھائی کے ساتھ سانپ پکڑنے جایا کرتی تھی ۔اب اس کی ہمت بڑھ گئی ہے اب وہ خود بھی اکیلے سانپ پکڑنے چلی جاتی ہے ۔ کبھی اپنے بھائی کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر تو کبھی کسی اور سواری کے ذریعے
سانپ پکڑنے کا انھیں لوگوں کی جانب سے کوئی معاوضہ ملتا ہے۔ کیاسرکاری سطح پر یا کسی این جی او کی جانب سے انہیں کوئی ایوارڈ ملا ہے؟کسی سماجی ،ملی ،سیاسی تنظیم کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے؟ اس سوال پر ثانیہ نے دل کو چھو لینے والا جواب دیا کہ وہ یہ کام شہرت یاایوارڈ حاصل کرنے کیلئے نہیں نہیں کر رہی ہے بلکہ لوگوں کی جان بچانے کے ساتھ ساتھ قدرت کے پید اکئے گئے نایاب و نادر سانپوں کی نسلوں کو بچانے کیلئے یہ خدمت انجام دے رہی ہیں۔