Updated: October 04, 2025, 9:11 PM IST
| Lukhnow
اتر پردیش کے ضلع آگرہ میں ایک مذہبی تقریب کے دوران نابالغ مقررہ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر نے ملک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے خدشات کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔ واقعہ کے بعد سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے اداروں نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے منتظمین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اتر پردیش کے آگرہ ضلع کے کھیڑا گاؤں میں بھاگوت کتھا کے دوران ایک نابالغ لڑکی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی، جس نے مقامی سطح پر تناؤ اور قومی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ مقررہ، جسے تقریب کے دوران ’’بال ودوشی لکشمی‘‘ کے نام سے متعارف کرایا گیا، نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی توہین آمیز اور اشتعال انگیز تبصرے کئے۔ اس نے کھلے عام ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اپنی تقریر میں اس نے جھوٹے اور خطرناک الزامات لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مسلمان ہندو عقائد کو ’’ناپاک‘‘ کرنے کیلئے کھانے میں ’’تھوک اور پیشاب‘‘ ملاتے ہیں۔ ساتھ ہی اس نے مطالبہ کیا کہ ’’ہر گاؤں میں ایسے بورڈ نصب کئے جائیں جو مسلمانوں کو ناپسندیدہ قرار دیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: نئی دہلی: جے این یو میں راون کے پتلے پرعمر خالد اور شرجیل امام کی تصویر پرہنگامہ
اس کے تبصرے معاشی بائیکاٹ سے آگے بڑھ کر مذہبی نفرت پر مبنی تھے، جن میں مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا گیا اور ہندوؤں کو ان کے خلاف ’’ہوشیار‘‘ رہنے کی تلقین کی گئی۔ تقریر کے دوران اس نے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی اظہار کی تضحیک کی بلکہ مسلم کاروباروں پر جھوٹے الزامات بھی عائد کئے کہ وہ ہندو علامتوں کا استعمال دھوکے کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ پروگرام یوگی یوتھ بریگیڈ دھرم رکھشا ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا، جس کا ریاستی صدر کنور اجے تومر ہے۔ رپورٹس کے مطابق، تنظیم ۵؍ اکتوبر کو ایک بڑے سنت سمیلن کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، جس میں ملک بھر سے دائیں بازو کی ہندو شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔ اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک نابالغ کو نفرت انگیز تقاریر کیلئے استعمال کرنا نہ صرف اخلاقی زوال کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ یہ مذہبی ہم آہنگی کیلئے بھی خطرناک ہے۔
یہ بھی پڑھئے: گجرات فسادات کاتذکرہ کرتے ہوئے مظلومیت کی علامت بننے والے قطب الدین انصاری روپڑے
کمیونٹی لیڈروں نے مطالبہ کیا ہے کہ منتظمین اور تقریر کے محرکین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔انسانی حقوق کے ایک کارکن نے کہا کہ ’’یہ صرف ایک تقریر نہیں بلکہ منظم طور پر پھیلایا جانے والا نفرت انگیز پروپیگنڈا ہے۔ اس میں ایک بچے کو استعمال کرنا انتہائی تشویشناک بات ہے۔‘‘ خیال رہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں مختلف علاقوں میں مذہبی منافرت اور اقلیتوں کے خلاف بیانیے کے بڑھنے پر مسلسل تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔