رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ موجودہ عدم مساوات کو ختم کرنے کیلئے ڈجیٹل رسائی، خواتین اور نوجوانوں کی مہارتوں میں اضافے کیلئے سرمایہ کاری اور مضبوط گورننس کے ڈھانچے کی فوری ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: December 26, 2025, 4:56 PM IST | New York
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ موجودہ عدم مساوات کو ختم کرنے کیلئے ڈجیٹل رسائی، خواتین اور نوجوانوں کی مہارتوں میں اضافے کیلئے سرمایہ کاری اور مضبوط گورننس کے ڈھانچے کی فوری ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) مردوں کے مقابلے، خواتین کی ملازمتوں کیلئے کہیں زیادہ بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے روزگار کو آٹومیشن یا مشینی عمل سے مردوں کے روزگار کے مقابلے، دو گنا زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ یہ رپورٹ ایشیاء اور بحرالکاہل کے خطے پر مرکوز ہے جو اے آئی کیلئے ایک عالمی تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ خطے میں موجود ڈجیٹل تفریق یہ طے کرے گی کہ اس ٹیکنالوجی سے کون فائدہ اٹھائے گا اور کون مزید پسماندگی کا شکار ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ خطہ دنیا کے نصف سے زیادہ اے آئی صارفین اور تقریباً ۷۰ فیصد پیٹنٹس کا حامل ہے، لیکن پالیسی مداخلت کے بغیر اس سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد انتہائی غیر مساوی ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کھیتوں میں اے آئی ٹیکنالوجی: کم لاگت، زیادہ پیداوار اور کسانوں کے لیے نئی راہیں
خواتین کو درپیش خطرات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن شعبوں میں خواتین کی اکثریت ہے، وہاں ملازمتوں کے ختم ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اسی طرح اے آئی کی وجہ سے نوجوانوں، خاص طور پر ۲۲ سے ۲۵ سال کی عمر کے افراد کیلئے بھی کریئر کے آغاز میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں خواتین کو ڈجیٹل ٹولز تک رسائی میں بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، کیونکہ ان کے پاس اسمارٹ فون کی ملکیت مردوں کے مقابلے میں ۴۰ فیصد کم ہے، جو انہیں مصنوعی ذہانت سے جڑے مواقع سے دور رکھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں ڈیٹا کے تعصب اور اخراج کے حوالے سے بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کیونکہ دیہی اور مقامی آبادیوں کا ڈیٹا اے آئی سسٹمز کی تربیت میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے صحت اور روزگار جیسے شعبوں میں امتیازی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اے آئی سے تیار شدہ مشمولات کیلئے لیبل لازمی ہوگا
اقوام متحدہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور ایشیاء و بحرالکاہل خطہ کی ریجنل ڈائریکٹر، کانی وگناراجا نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اے آئی بہت تیزی سے پیش قدمی کررہا ہے جبکہ بہت سے ممالک ابھی صرف آغاز ہی کر پائے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ٹیکنالوجی تخلیق کرنے والوں اور اس کے زیرِ اثر آنے والوں کے درمیان خلیج تیزی سے وسیع ہو رہی ہے۔ اس مطالعے میں زور دیا گیا ہے کہ موجودہ عدم مساوات کو ختم کرنے کیلئے ڈجیٹل رسائی، خواتین اور نوجوانوں کی مہارتوں میں اضافے کیلئے سرمایہ کاری اور مضبوط گورننس کے ڈھانچے کی فوری ضرورت ہے تاکہ مصنوعی ذہانت موجودہ فرق کو مٹانے کے بجائے اسے مزید گہرا نہ کردے۔